نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پارلیمان اجلاس: نئے قضیے نمودار ۔۔۔نصرت جاوید

گزشتہ ہفتے بھی نام نہاد قومی اتفاق رائے ڈھونڈتے اجلاس کے دوران شہزاد اکبر صاحب نے ایک بار پھر دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

رسمِ دُنیا،موقعہ اور دستور کو بہانہ بناکر گزشتہ ہفتے کے آغاز میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلائے گئے تھے۔ ان کے شروع ہونے سے قبل ہی اس کالم میں رائے دینے کی جسارت کی تھی کہ طلب کئے اجلاسوں میں کرونا کی وباء ہمارے نمائندہ ہونے کے دعوے داروں کی کماحقہ توجہ حاصل نہیں کرپائے گی۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین فقط ایک دوسرے پر کیچڑاچھالتے ہی نظر آئیں گے۔

عمران حکومت کے قیام سے قبل جو ’’نظام کہنہ‘‘ اس ملک پر مسلط رہا اس کی بدولت چند منافقانہ کلمات ہماری روزمرہّ زبان کا حصہ بن گئے تھے۔ ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ ایسے کلمات میں سرِفہرست رہا۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ وطنِ عزیز پر جب کوئی ’’بحران‘‘ نازل ہوجائے تو باہمی اختلافات بھلاکر حکومت اور اپوزیشن اس کا مقابلہ کرنے کے لئے یکجا ہوجاتی ہیں۔

فی الفور پارلیمانی اداروں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔اپنی تقاریر کے ذریعے ’’ہمارے نمائندے‘‘ عوام کی ’’اجتماعی بصیرت‘‘ کو ’’بروئے کار ‘‘ لاتے ہوئے ’’بحران‘‘ سے نبردآزما ہونے کے لئے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر کوئی ٹھوس اور جارح حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔کوئی پسند کرے یا نہیں تحریک انصاف ایسی ’’دونمبری‘‘ لفاظی پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کی دانست میں ’’نظام کہنہ‘‘ سے وابستہ سیاست دانوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ اسے احتساب بیورو کے سیف ہائوسز میں قید ہوکر اپنی ’’ناجائز دولت‘‘ کا حساب دینا ہوگا۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی قرضوں میں جکڑے پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے اشد ضروری ہے۔عمران حکومت ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ کی تلاش میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی ’’بصیرت‘‘ کی طلب گار نہیں۔کشمیر کو ہم گزشتہ ستر برسوں سے اپنی ’’شہ رگ ‘‘ قرار دیتے رہے۔ مودی سرکار نے 5اگست 2019کے دن وحشیانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے ہماری ’’شہ رگ‘‘ کو مفلوج بنانا شروع کردیا۔عمران حکومت نے ان دنوں بھی قوم کی ’’اجتماعی بصیرت‘‘ سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہت تامل کے بعد پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کے دوسرے دن احتساب کے ضمن میں حتمی معجزہ کار نظر آتے جناب شہزاد اکبر صاحب نے ایک طولانی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔شریف خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ اس کانفرنس کا موضوع رہی۔ اس کے نتیجے میں مریم نواز صاحبہ کو ایک تازہ مقدمہ بناکر احتساب بیورو کے حوالے کردیا گیا۔ نواز شریف کے لئے بھی نئے سوالات تیار ہوئے۔ کشمیر کا موضوع یوں بھلادیا گیا۔ وزیر اعظم صاحب نے تن تنہا گزشتہ برس کے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے ذریعے عالمی ضمیر کو اس ضمن میں جگانے کی کوشش کی۔ امریکی صدر سے توقع باندھی کہ وہ کشمیر کے قضیے کو دائمی طورپر حل کرنے کے لئے متحرک کردار ادا کرے۔ ہماری اپوزیشن جماعتیں اس قصے میں قطعاََ غیر متعلق نظر آئیں۔

مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط کئے لاک ڈائون کے بعد ایک ’’بحران‘‘ عالی جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے بھی سپریم کورٹ کی سربراہی سے ریٹائر ہوتے ہوئے تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی۔ پارلیمان کو حکم ہوا کہ وہ ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت کے بارے میں واضح قانون سازی کا اہتمام کرے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سیاسی مبصرین کی اکثریت اس گمان میں مبتلا ہوگئی کہ سینٹ میں اپنی اقلیتی حیثیت کو نظر میں رکھتے ہوئے عمران حکومت اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کی طلب گار ہوگی۔ وزیر اعظم صاحب نے اس ضمن میں ذاتی طورپر کوئی پیش قدمی اٹھانے سے انکار کردیا۔ شاید انہیں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے منت ترلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت -پاکستان مسلم لیگ-نے مطلوبہ قانون کا مسودہ پڑھے بغیر ہی اس کی منظوری کو یقینی بنانے کے لئے غیر مشروط تعاون کا اعلان کردیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کے سپرد ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی ہکا بکا رہ گئی۔ بالآخر 12-12منٹ کی تاریخی عجلت کے ساتھ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے مطلوبہ قانون حیران کن اتفاق رائے سے منظور ہوگیا۔ اس کی منظوری کے بعد وزیر اعظم صاحب نے اپوزیشن کے بھرپور تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے لئے رسمی الفاظ شکریہ ادا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ مذکورہ بالا مثالوں کی روشنی میں مریضانہ حد تک سادہ لوح شخص ہی یہ امید باندھ سکتا تھا کہ عمران حکومت کو کرونا سے نبردآزما ہونے کے لئے اپوزیشن کی بصیرت آموز رہ نمائی درکار ہوگی۔ اپوزیشن جماعتیں مگر بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنی تجاویز پارلیمانی اداروں میں بیان کرنے کو بے چین رہیں۔ ان کے ’’خلوص کو بے نقاب‘‘ کرنے کے لئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلالئے گئے۔ ان کے مختصر ترین اجلاسوں کے ذریعے ’’اجتماعی بصیرت‘‘تو ہرگز اجاگر نہیں ہوئی۔ کرونا کو بھلاتے ہوئے بلکہ نئے قضیے نمودار ہوگئے ۔ فی الوقت ہمیں ان قضیوں کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں ہورہا۔

گزشتہ ہفتے بھی نام نہاد قومی اتفاق رائے ڈھونڈتے اجلاس کے دوران شہزاد اکبر صاحب نے ایک بار پھر دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ شہباز شریف کی ’’بھینسیں‘‘ اس کانفرنس کا موضوع تھیں۔ شریف خاندان کا برسوں سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اس کے بزرگوں نے خون پسینہ ایک کرتے ہوئے لوہے کا کاروبار شروع کیاتھا۔ایسی جدید ترین فائونڈری بنائی جو اس کاروبار کے حوالے سے Iconicشمار ہونے لگی۔ ذوالفقار علی بھٹو 1970کی دہائی کے آغاز میں اسے بڑی صنعتوں میں شامل کرتے ہوئے ’’قومیانے‘‘ کو مجبور ہوئے۔ شہزاد اکبر صاحب کی پریس کانفرنس کی بدولت اب دریافت یہ ہورہا ہے کہ شہباز صاحب تو بھینسوں کا دودھ بیچ کر اپنا گزارہ چلاتے ہیں۔ خوش نصیبی سے مگر ان کے بیٹے ذہین اور فرمانبردار ہیں۔ منی لانڈرنگ کے مبینہ طورپر تمام حربوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اپنے والد کے سیاسی اثرورسوخ کو ذاتی کاروبار پھیلانے کے لئے استعمال کرتے رہے اور اپنے شفیق والد کو بھاری رقوم فراہم کرتے ہوئے ان کا بھرم برقرار رکھتے ہیں۔ احتساب بیورو والے جب شہباز صاحب سے ان کے بیٹوں کی خیرہ کن کامیابی کی بابت سوالات اٹھاتے ہیں تو موصوف کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔شہباز صاحب سے سوال وجواب کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی تمامتر تفصیلات کسی ڈرامے کے سکرپٹ کی صورت میڈیا کے صف اوّل میں شمار ہوتے ہوئے تحقیقاتی صحافیوں کو گھر بیٹھے میسر ہیں۔ چسکہ بھری کہانیوں کا انبار ہے۔ اسی باعث یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ عید گزرجانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے صدر احتساب بیورو کی حراست میں ہوں گے۔ زندگی اس کے بعد ان کے لئے ایک پنجابی گیت والی کالی اور لمبی ہوجائے گی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر بھی سینہ پھیلائے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوکر متنبہ کئے چلے جارہے ہیں کہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ کے مزاج شناس تصور ہوئے شہباز شریف کے لئے اب معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ عید کے بعد وہ ’’ٹارزن‘‘ کے طیش کی زد میں ہوں گے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اپنے فرزند سمیت نیب راولپنڈی کے روبروپیش ہونا پڑا ہے۔ احتساب بیورو کے کراچی دفتر نے کئی ہفتے قبل انہیں کچھ تعیناتیوں کے حوالے سے طلب کررکھا ہے۔ کرونا کی وجہ سے بند ہوئی پروازوں نے انہیں حفاظتی ضمانت کے ذریعے گرفتاری سے بچالیا۔ پروازیں اب بحال ہورہی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو لہذا کراچی جانے سے گریز کا جواز میسر نہیں رہے گا۔ کرونا کی وباء عمران حکومت کی دانست میں اب تقریباََ گزرچکی ہے۔ اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کاروبارِ زندگی تیزی سے بحال کیا جارہا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ جب زندگی قبل ازکرونا معمول کی جانب لوٹے گی تو اس دور میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی پوچھ گچھ کا سلسلہ بھی جہاں سے منقطع ہوا تھا،بحال ہوجائے گا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ کو اس کی اوقات میں رکھنے کا بندوبست نظر بظاہر کماحقہ انداز میں سوچ لیا گیا ہے۔ اب کچھ توجہ پیپلز پارٹی کی جانب بھی دینا ہوگی۔ اس جماعت کے تناظر میں لیکن چند افراد ہی قابل توجہ نہیں۔ مسائل مراد علی شاہ کی قیادت میں چلائی صوبائی حکومت کے لئے کھڑے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپنی تقاریر کے ذریعے شاہ محمود قریشی صاحب نے خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے یہ بیانیہ تشکیل دیاکہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کا ’’ناجائز‘‘ فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ حکومت وباء کے موسم میں بھی عمران حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرتی رہی۔ اسے بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے نااہل ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اب مگر انگریزی والا Enoughہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی والوں کو واضح الفاظ میں لہٰذا آگاہ کردیا گیا ہے کہ ’’تیاری پکڑو-ہم (تحریک انصاف) سندھ میں بھی آرہے ہیں‘‘۔ سندھ تک پہنچنے کے لئے تحریک انصاف نے جو روڈ میپ تیار کیاہے اس کے نمایاں خدوخال قومی اسمبلی کی سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ نے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کے دن کمال مہارت سے بیان کردئیے ہیں۔ مجھے ایک تفصیلی کالم کے ذریعے ان کی تفصیلات بیان کرنا ہوں گی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author