سوموار سے لاک ڈاؤن مکمل طور ختم ہو رہا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 18مئی سے چند شرائط (ایس او پیز) کیساتھ ٹرانسپورٹ چل پڑے گی۔ پی آئی اے کا محدود اندرون وبیرون ملک آپریشن 16مئی سے شروع کر دیا گیا۔
جبکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ
”کاروبار کھول رہے ہیں روزگار نہ دیا تو لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ کورونا کیساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا۔ عوام احتیاط کریں“
بھوک سے پچھلے دو ماہ کے دوران کتنے افراد مرے؟ کورونا سے 833اموات ہو چکیں۔ بہت ادب کیساتھ کہوں وفاق کے پاس اصل میں کوئی حکمت عملی ہے ہی نہیں،
کل اسد عمر کہہ رہے تھے
”دنیا آہستہ آہستہ وہاں پہنچ رہی ہے جہاں عمران خان کہتے تھے ”
کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ اس سے قبل دنیا نے کورونا سے شہریوں کو بچانے کیلئے جو مؤثر اقدامات کئے، ان کے بارے میں ہم نے سوچا تک بھی نہیں،
کڑوا سچ یہ ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر لاک ڈاؤن پر نرمی کا پہلا اور دوسرا مرحلہ ہر دو مرحلوں پر حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی۔
کورونا پر سیاست ہوئی اور جی بھر کے ہوئی، آپ جعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی تقاریر دیکھ لیجئے۔ الزامات، طنز، چور چور کا شور، نیب زدہ کے طعنے اس کے سوا کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔
اب جو لاک ڈاؤن کھلا ہے یہ ہفتہ میں 4دن ہوگا یا 7دن بات واضح نہیں ہے کیونکہ کم ازکم تین صوبوں کی حکومتوں کے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے لاک ڈاؤن کے حوالے سے نوٹیفیکشن موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے تو مطلب یہ ہوگا کہ چاردن کاروبار زندگی معمول کے مطابق ہوگا اور تین دن محدود۔
کسی کو یہ پالیسی سمجھ میں آجائے تو فقیر راحموں کو آگاہ کرے جو کل سے اس بات پر خوش ہیں کہ سفری سہولتیں بحال ہوگئی ہیں، اچھا کیا لاہور سے راولپنڈی، پشاور یا ملتان کی طرف جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان 24نشستوں پر 12۔ 44نشستوں پر22۔ 36نشستوں پر 18مسافر بٹھا کر اس طور گاڑیاں چلائیں گے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ کرایہ بھی کم کرنا ہوگا؟
شہروں کے اندر سولہ نشستوں والی ویگنوں میں کیونکر آٹھ مسافروں کیساتھ معمولات بحال ہوں گے؟
سوال اور بہت ہیں مگر فائدہ کچھ نہیں، آسان الفاظ میں کہوں تو یہ کہ آؤ خودکشی کریں‘ کی اجتماعی دعوت ہے یہ فیصلہ۔
یہ بھی عرض کردوں اس ساری صورتحال کی تنہا وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ذمہ دار نہیں، رعایا برابر کی شریک ہے۔ معاف کیجئے کہ آپ کی دل آزاری ہوئی رعایا لکھ دینے سے، سینے پر ہاتھ تو رکھ کر لمحہ بھر کیلئے سوچئے ضرور کیا ذمہ دار شہری ایسے ہوتے ہیں جیسے میں اور آپ ہم سب ہیں؟۔
کورونا وباء کے آغاز سے بھانت بھانت کی بولیاں سن رہ ہیں، یہ بولیاں معنی خیز جملے، سازشوں کی کہانیاں اب بھی جوں کی توں ہیں۔ ضد، ہٹ دھرمی اور ایک دوسرے کو جاہل۔ غبی اور ذہنی مریض قرار دینے کیساتھ ایک دوسرے کی ضد میں معمولات سرانجام دینے کی روایات ہمارے سامنے ہیں۔
حکومت نے رٹ قائم کی ہوتی تو کسی میں جرأت نہیں تھی وہ انحراف کرتا لیکن وفاقی حکومت کے مخمصوں اور کورونا پر ہوتی بے ڈھبی سیاست نے سب کو کھیل کھیلنے کے مواقع دیئے۔
پچھلے دو ماہ کے دوران ان سطور میں زمینی حقائق، خدشات اور انفرادی واجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے تواتر کیساتھ عرض کرتا آرہا ہوں۔
جمعہ 15مئی کے روز کورونا کے 1435نئے مریض سامنے آئے، یوں سوموار سے جمعہ تک 5دنوں میں 10ہزار نئے مریض۔
اب جبکہ کُھل کھیلنے اور کاروبار کی مکمل بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کیا ہوگا؟
قلم مزدور خوف نہیں پھیلا رہا، یہ ہمارے چاراور کی زندہ اور تلخ حقیقتیں ہیں۔
مذہبی طبقات کے عدم تعاون سے ہر کس وناکس واقف ہے، اطلاع یہ ہے کہ عیدالفطر کے تین دنوں کیلئے
”مخصوص حکمت عملی کے ایس او پیز“ تیار کئے جارہے ہیں۔
معاف کیجئے گا، کیا ضرورت ہے اس کی کیا رمضان میں ”قید ہوا کرونا“ عید کے چاند کیساتھ آزاد ہو جائے گا کہ حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
مسائل فقط ہمارے یہاں ہی نہیں ہیں دنیا کو انہی مسائل کا سامنا ہے مگر دنیا نے پالیسیاں بنائیں تو ان کے شہریوں نے زندگی کی سچائی کی طرح ان پالیسیوں پر کھلے دل سے عمل کیا۔ ہمارا سچ فقط یہ ہے۔ ”اللہ کا شکر ہے زیادہ افراد نہیں مرے”۔
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں، اولاً یہ کہ فلورملز ایسوسی ایشن نے20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 20روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ اضافے کا جواز اتنا ہی بھونڈہ ہے جتنا یہ موقف کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں پچھلے ہفتہ کے دوران مزید 17فیصد اضافہ ہوا، چلیں کورونا تو ایک وباء ہے، یہ مہنگائی وباء کی صورت کیوں اختیار کر چکی، سامنے کے معاملات کیوں حکومتوں کے کنٹرول میں نہیں؟
اچھا کیا مہنگائی، کورونا اور دوسرے مسائل ہر کام حکومت کی ذمہ داری ہے، ہماری آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
آخر کیوں ہم انفرادی واجتماعی ذمہ داریوں کے احساس سے منہ موڑ کر جینے کی عادت بد کا شکار ہیں، حکومت کا فرض ہوتا ہے قوانین پر عمل کروائے۔
اب کیا حکومت بندوق تان لے کہ قانون پر عمل کرو، جی نہیں ہمیں بھی اپنے حصہ کا فرض ادا کرنا چاہئے۔
مہنگائی پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دو دن صرف دو دن مہنگی سبزیاں، پھل اور دوسری اشیاء خریدنے سے انکار کر دیجئے، منافع خوروں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے مگر کیا کریں بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اجتماعی مفاد میں سوچنے کی بجائے خودغرضی کا شکار ہیں۔
زائد قیمت پر دکاندار سے بحث کرتے صارف کو سمجھانے والے بھی صارف ہی ہوتے ہیں حالانکہ انہیں احتجاج کرنے والے شہری کا ساتھ دینا چاہئے۔
ہمارے لوگوں کی ذہنیت یہ ہے کہ چند برس قبل ایک سفر کے دوران غیراعلانیہ طور پر زائد کرایہ وصول کرنے پر احتجاج کیا تو ایک دو نہیں پانچ سات مسافر فرمانے لگے
”صوفی جی کیوں ہمارا وقت برباد کرتے ہو، ایک صاحب تو اتنے دیالو تھے کہ انہوں نے اپنی جیب سے اضافی رقم نکالتے ہوئے کنڈیکٹر سے کہا یار تم ان کا کرایہ مجھ سے لے لو۔ مجھے بہت غصہ آیا ان سے پوچھ لیا کہ آپ ملکہ برطانیہ کے پوتے ہیں یا نواسے؟ ”
خود پر بیتا یہ ایک واقعہ مثال کے طور پر عرض کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہر طرف یہی حالت ہے، کاش ہم رعایا سے عوام بننے کی سمت کا شعوری سفر شروع کر پاتے، کم ازکم ہم نہیں تو ہماری آئندہ نسلیں ہی ایک مثالی معاشرہ میں زندگی بسر کرسکتیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر