(سنسنی خیز اور پراسرار ناول کی پہلی قسط)
وہ احمق سی صورت والا نوجوان ٹیکسی سے اترا اور ایسے چاروں طرف دیکھنے لگا جیسے کسی الو نے پہلی بار دن کی روشنی دیکھی ہو۔ پھر اس نے جیب سے رگلیز چیونگم کا پیکٹ نکالا اور دو پیس منہ میں ڈال کر جگالی شروع کردی۔
میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے سامنے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ مجھے کسی بس کا انتظار نہیں تھا۔ میں بل گیٹس کے باہر نکلنے کا انتظار کررہا تھا۔ مجھے باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ وہ اندر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کرونا وائرس کی ویکیسن سے متعلق خفیہ مذاکرات میں مصروف ہے۔
سڑک پر دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ وہ احمق نوجوان میری طرف بڑھا۔ میں اسے نظرانداز کرکے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
"بھائی صاحب، ماچس ہوگی آپ کے پاس؟” نوجوان نے اپنی صورت سے بھی زیادہ احمقانہ سوال کیا۔
"کیوں؟ وائٹ ہاؤس کو آگ لگانی ہے؟” میں نے درشت لہجہ اختیار کیا۔ مجھے غصہ آرہا تھا کیونکہ آج کے دور میں ماچس کون جیب میں لیے پھرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ شخص ضرور پچاس یا ساٹھ کی دہائی کا جاسوس ہے اور اصحاب کہف جیسے کسی غار سے نکلا ہے ورنہ سوال تو نئے زمانے کے مطابق سوچتا۔
"شکر ہے۔” احمق بٹا الو نے ٹھنڈا سانس لیا۔
"کس بات پر شکر؟” میں نے آنکھیں نکالیں۔
"اس بات پر کہ آپ اردو جانتے ہیں۔ ورنہ امریکیوں سے انگریزی بول بول کر میری داڑھ میں درد ہوگیا تھا۔” اس نے بہت سنجیدگی سے کہا۔ لیکن اگلے لمحے پھر اس کے چہرے پر حماقت نے ڈورے ڈال دیے۔ مجھے اس کی موجودگی سے بے چینی ہونے لگی۔
"یہ واشنگٹن کا ریڈ زون ہے اور یہاں امریکی سیکرٹ سروس والے نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے میری مانو تو چلتے پھرتے نظر آؤ۔” میں نے اسے مشورہ دیا۔
"میں ایسے نہیں جاسکتا۔” اس نے شرماتے ہوئے کہا۔
"پھر کیا بارات آئے گی، تب جاؤ گے؟” میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہمدردی سے پوچھا۔
وہ بدک گیا۔ چھ فٹ دور جاکر بولا، "سماجی فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہوجائے گا۔”
میں ہنس پڑا۔ وہ بھی ہنسا۔ لیکن پھر اس کا اگلا جملہ سن کر میری سٹی گم ہوگئی، "بل گیٹس باہر آئے گا، میں تب جاؤں گا۔ اور کہاں؟ بھئی اس کے پیچھے۔ جی ہاں۔ تعاقب کروں گا بڑے بھائی کا۔ اسی لیے تو امریکہ آیا ہوں۔ ہاں نہیں تو۔”
میں نے سر پیٹ لیا۔ پہلی بار ایسے جاسوس سے واسطہ پڑا تھا جو ایک اجنبی کو اپنا سارا پلان بتائے جارہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ صرف صورت سے نہیں، سیرت سے بھی احمق ہے۔
ابھی میں اس سے باقی باتیں اگلوانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بل گیٹس وائٹ ہاؤس سے نکل آیا۔ میں نے فوراً ماسک چڑھا لیا کیونکہ وہ مجھے پہچانتا تھا۔ لیکن اس نے مجھے دیکھ لیا اور دور سے ہاتھ ہلایا۔ مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔
میں سڑک پار کرکے بل گیٹس کے پاس پہنچا اور ہاتھ ملایا۔
"مبشر بھائی، آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟” بل گیٹس نے حیرت سے پوچھا۔
"میں ملانیا ٹرمپ کا انٹرویو کرنے آیا ہوں۔ انھوں نے چھ بجے بلایا ہے۔ ابھی آدھا گھنٹا باقی ہے۔” میں نے بہانہ بنایا۔ پھر پوچھا، "آپ کی گاڑی کدھر ہے؟ پیدل باہر کیوں نکل آئے؟”
بل گیٹس نے رازدارانہ انداز میں کہا، "غیر ملکی جاسوس میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس لیے میں آج کل اپنی گاڑی میں نہیں گھوم رہا۔ اوبر کرلیتا ہوں۔ اس وقت بھی کیپٹن کا انتظار کررہا ہوں۔”
اسی وقت ایک کار آئی اور بل گیٹس ہاتھ ہلا کر روانہ ہوگیا۔ میں تیزی سے اپنی کار کی طرف بھاگا۔ اندر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ دوسری طرف کا دروازہ کھلا اور احمق نوجوان اندر گھس آیا۔
"معذرت چاہتا ہوں، میں آپ کو پہچانا نہیں۔” میں نے سخت لہجے میں کہا۔
"حقیر فقیر پرتقصیر ہیچمدان بندہ نادان کو علی عمران ایم ایس ایس پی ایچ ڈی آکسن کہتے ہیں۔” گاڑی میں احمقانہ آواز گونجی۔
"میرا آپ سے کوئی مذاق نہیں۔ چلیں اتریں گاڑی سے۔” میں نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
اچانک ریوالور کی نال میری کمر میں چبھی۔ "چلو گاڑی چلاؤ اور چپ چاپ بل گیٹس کا تعاقب کرو۔” سرد آواز سن کر میں کانپ گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے احمق نوجوان ہوا میں تحلیل ہوگیا اور اس کی جگہ کوئی سفاک قاتل میرے برابر میں بیٹھ گیا ہو۔
میں نے گاڑی انڈیپینڈنس ایونیو پر ڈالی اور رفتار تیز کردی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر