میری ذاتی رائے ہے کہ اہل تشیع کو معمول کے حالات میں بھی جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں۔
جلوس نکالنے کا آغاز تب ہوا تھا جب دنیا کو ظلم سے آگاہ کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ جلوس اس زمانے کا میڈیم تھا۔ تابوت، ذوالجناح اور علم کی شبیہوں کا آئیڈیا لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے تھا۔
سیکڑوں سال بعد دوسری اقسام کے میڈیا کا ظہور ہوا اور ظلم کو چھپانا آسان نہیں رہا۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا اثر اور دائرہ اتنا زیادہ ہے کہ چند ہزار لوگوں کے جلوس کا نہیں ہوسکتا۔
شہر ماضی کے مقابلے میں پھیل گئے ہیں۔ جلوس سے ٹریفک وغیرہ کے مسائل ہوتے ہیں۔ عوام کو پریشانی ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے خطرات الگ۔
یاد رہے کہ جلوس کا مقصد ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ کنٹینرز میں جلوس سے مقصد ویسے ہی فوت ہوجاتا ہے۔
آج کے دور میں ایسے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج بن گئے ہیں جو دنیا کے ہر کونے میں غم حسین کی مجلس دکھارہے ہیں۔ اسے کافی سمجھنا چاہیے۔
اب تک کی گفتگو کا مخاطب اہل تشیع تھے۔ لیکن جو لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ شیعہ جلوس نکالنے سے رکتے کیوں نہیں، ان کے لیے بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
آپ عراق، خاص طور پر کربلا جائیں گے تو روایتیں سننے کو ملیں گی کہ وہاں امام حسین کے ماننے والوں پر کیسے کیسے ظلم ہوئے۔ ایک بار کسی ظالم حاکم نے پابندی لگائی کہ اگر کوئی شخص روضہ حسین کی زیارت کرنا چاہتا ہے تو اس کا ایک بازو یا ایک ٹانگ کاٹ دی جائے گی۔ لوگ باز نہ آئے تو اعلان کیا کہ گھر کا ایک شخص زیارت کرے گا تو دوسرے کو قتل کیا جائے گا۔ لوگ خوشی خوشی جان دے دیتے تھے۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ باتیں ناقابل یقین ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ سچ نہ ہوں۔ لیکن جب کوئی شخص بچپن سے یہ روایت سنتا ہوا بڑا ہوگا تو اسے آپ مجلس اور جلوس سے نہیں روک سکتے۔ ہر رکاوٹ پر اسے وہی روایت یاد آئے گی اور وہ نتائج سے بے پروا ہوکر مجلس یا جلوس کے لیے نکل پڑے گا۔
میری خواہش ہے کہ لوگ شب برات پر چراغ جلاتے رہیں، تراویح پڑھتے رہیں، مجلسیں کرتے رہیں، کیونکہ یہ چیزیں ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں۔ مذہب کے اعتقادات انسانی شعور کی ترقی کے ساتھ ختم ہوتے جائیں گے لیکن ثقافت معاشرے کا حصہ رہتی ہے۔
البتہ فی الحال وبا پھیلی ہوئی ہے جس سے لاکھوں افراد مرچکے ہیں۔ احتیاط کریں، خود بچیں اور دوسروں کی موت کا باعث نہ بنیں۔ آپ زندہ رہیں گے تو نمازیں، عمرے، مجلسیں سب ہوتی رہیں گی۔ ثواب کماتے رہیں گے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مرنے والے کا کھاتا بند ہوجاتا ہے۔
ٹھیک ہے، آپ جنت میں جانا چاہتے ہیں اور ان شا اللہ جائیں گے بھی لیکن جلدی کیا ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر