بندیا رانا نا صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بسنے والے خواجہ سراؤں کے حقوق بحالی کے لیے ایک ایسا کردار ہیں جنہوں نے کٹھن سے کٹھن حالات میں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انھوں نے 2013 ء کے انتخابات میں کراچی سے حصہ لیا، مخالفین ان کے کاغذات نام زدگی منظور ہونے کے بعد اس قدر خوف زدہ ہو گئے کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے علاوہ ان کی انتخابی مہم میں ہر طرح کی رکاوٹ ڈالی لیکن وہ اپنے ارادوں پر ڈٹی رہیں۔
خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کا مسئلہ ہو یا خاندان میں ان کی وراثت کا وہ ان مسائل کے حل کے لیے شب و روز مصروف عمل رہیں۔ ہمارے ساتھی اختر بلوچ جو تحقیق کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں نے بندیا رانا کا ایک طویل انٹرویو کیا بعد ازاں انھوں نے ”ہم سب“ کے لیے انٹرویو کے مسودے میں سے ایک انتخاب ترتیب دیا جو قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔ یہ صرف ایک انٹرویو نہیں بلکہ ایک طرح کی مختصر سوانح عمری ہے۔ ادارہ ”ہم سب“
*** ***
س: آپ اپنے نام، پیدائش اور بچپن کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیے۔
ج: میرا نام بندیا رانا ہے۔ جب کسی گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر والوں کو نئے پیدا ہونے والے بچے سے متعلق یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آنے والے دنوں میں ہمارے بچے کے جسم میں کیا کیا تبدیلیاں رونماں ہوں گی۔ میرے والد نے میرا نام ”عبدالعزیز“ رکھا۔ میری پیدائش لیاری میں ہوئی۔ اس دور میں مجھے روحانی طور پر محسوس ہوتا تھا کہ اپنوں کے علاوہ بھی میرا کوئی اور ہے، گھر میں مجھے سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش تھا وہ یہ تھا کہ اگر ہمارے گھر کوئی عزیز یا رشتہ دار ملنے آجاتے تو دعا سلام کے بعد مجھ سے کہاجاتا کہ تم دوسرے کمرے میں چلے جاؤ، یہ عمل مجھے بہت عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے اپنی بہنوں کے ساتھ کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ میری بہنوں کی تعداد سات تھی جبکہ آٹھویں میں خود تھی۔ میں کچن کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
میرے تین بھائی بھی تھے، میرے بھائی اور میرے ابو جب گھر سے باہر چلے جاتے تو میں اپنی بہنوں کی سرخی لگا لیتی اور ان کا دوپٹہ اوڑھ لیتی تھی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ میرا کوئی نہ کوئی بھائی باہر سے آجاتا اور وہ مجھے اس حالت میں دیکھ لیتا بہت ڈانٹتا۔ ہمارے اس خطے یعنی انڈیا اور پاکستان میں یہ ایک ثقافتی روایت رہی ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی بچہ پیدا ہو یا شادی بیاہ کے موقع پر خواجہ سرا خیرات لینے کی غرض سے آتے ہیں، سو جب میرے بھائی کی شادی ہوئی اور اس کی دلہن ہم پنجاب سے لے کر آئے تو ہمارے گھر میں بھی خواجہ سرا بدھائی لینے آئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں ان کے ساتھ کیوں بیٹھ کر تالیاں بجانے لگی۔
س: یہ کس سن کی بات ہے؟
ج: ابھی تو میری عمر پچپن سال ہے، غالباً اس وقت میری عمر بارہ یا تیرہ سال تھی۔ میں ان کے سامنے بیٹھ گئی۔ سارے گھر والے مجھے غور سے دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہے۔ میرے والد اور والدہ نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ ایک خوشی کا موقع ہے، اگر ایسے میں یہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا ہے تو کیا ہوگیا اس کے بعد ان لوگوں نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ اس وقت مجھے بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے میری ماں کا پیار مل گیا ہو۔ ایک اور بات بچپن میں جب میں گھر سے باہر کوئی چیز لینے جاتی تو میرے ساتھ کم از کم ایک بندہ ضرور ہوتا تھا۔ جبکہ میرے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ اس قسم کے معاملات نہیں ہوتے تھے۔
میری ابتدائی تعلیم سکھر میں ہوئی۔ پرانا سکھر میں ایک سرکاری اسکول ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری اسکول انتہائی خستہ حال ہوتے تھے۔ ہم پیڑوں کی چھاؤں تلے بیٹھ کر پڑھتے تھے، بچے بھی اور بچیاں بھی۔ میری دوستی بچیوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ مجھے جیب خرچ کے لیے اچھے خاصے پیسے بھی میرے والد دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لڑکے مجھ سے لڑتے تھے۔ وہ مجھ سے کہتے تھے کہ تم ہمارے ساتھ بیٹھو، تم لڑکیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتے ہو اور ان کو تو کھلاتے پلاتے ہو لیکن ہمیں کیوں نہیں کھلاتے پلاتے۔
جب میں مدرسے پڑھنے جاتی تھی تو وہاں مجھے ”کٹ“ (مار) بہت زیادہ پڑتی تھی۔ یہ ”کٹ“ مجھے میری مستیوں، حرکتوں اور بات کرنے کے انداز پر پڑتی تھی میری یہ حرکتیں مولوی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ اس دور کے مولوی صاحبان بھی بہت سخت ہوتے تھے۔ ان لوگوں نے ایک بڑی سی لاٹھی رکھی ہوتی تھی۔ مارتے وقت وہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ یہ لاٹھی بازو، پیٹھ یا کمر پر لگ رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود استاد کا بڑا احترام کیاجاتا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہم واپس کراچی آگئے۔
میرے بھائی کی شادی ہوئی، ایک سال کے بعد میرے بھائی کے بیٹا ہوا۔ کچھ خواجہ سرا خیرات لینے کی غرض سے آئے، میں ان کے ساتھ بیٹھی تو باتوں باتوں میں، میں نے ان کا پتا معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ تیسری گلی میں ان کے گروکا ڈیرہ ہے وہ وہاں رہتے ہیں۔ اس کے بعد جب میرے گھر والد اور بھائی موجود نہیں ہوتے تھے تو میں ان کے پاس چلی جاتی تھی اور کبھی آدھا دن بھی وہاں گزارتی۔ جب میرے گھروالوں کو اس بات کا علم ہوا تو مجھے میرے گھر میں مار پڑنا شروع ہوگئی، جب میں گرو کے ڈیرے پر جاتی تو مجھے وہاں پیار ملتا، جس کی وجہ سے میرا رجحان ان کی طرف ہونا شروع ہوگیا۔
کیونکہ بچے کو جہاں سے پیار ملے بچے کا رجحان بھی اسی طرف ہوگا۔ جب میری عمر پندرہ اور سترہ سال کے درمیان ہوئی تو ایک دن میں نے اپنے گھروالوں کو صاف صاف بتادیا کہ میں اب ان لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ سن کر مجھے میرے گھر والوں نے ان کے پاس آنے جانے کی اجازت دے دی اور اس کے بعد کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ میں گھروالوں کی اجازت سے ایک دو راتیں ان کے پاس بھی رہ لیتی تھی۔
رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میں اپنے گھر میں ہفتے میں صرف دو تین دن آتی تھی اور زیادہ وقت ان کے پاس رہنے لگی۔ وہاں مجھے ہر طرح کی چھوٹ اور آزادی ملتی تھی اور ہم لپ اسٹک لگا کر اور نورجہاں کی آواز میں گانے چلا کر مو ج مستیاں کرتے تھے۔ وہ لوگ میری اس حد تک عزت کرتے تھے کہ مجھے باجی کہہ کر مخاطب کرتے جبکہ میرے اپنے گھر میں اس قسم کا ماحول نہیں تھا۔ گرو کے یہاں ڈھولک بجاتے ہوئے گھنگھرو باندھ کر ناچا گایا جاتاتھا، اس میں مجھے بہت زیادہ مزہ آتا تھا۔
ویسے مجھے اپنے آپ سے آج تک ایک گلہ یہ بھی ہے کہ مجھے اب تک ناچنا نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعدمجھے میرے والد نے محمود آباد اسلم کالونی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے دیا۔ ایک کام والی نوکرانی رکھی میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی کو بھی کردیا اور ایک قریبی اسکول میں اس کا داخلہ بھی کروادیا، اس وقت میری عمر سترہ سال ہوچکی تھی۔ صبح سویرے کام والی آجاتی تھی جو میرے بھائی کو تیار کرکے اسکول چھوڑ آتی، اور واپس بھی لے آتی۔
میں نے اپنا ایک گرو چن لیا جس کا نام تھا حاجی بشیر۔ جب ہندوستان اور پاکستان بنا، تب وہ انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئی تھی وہ اردو اسپیکنگ تھی۔ وہ پڑھی لکھی تھی اور جہاں کہیں شادی بیاہ یا بچہ پیدا ہوتا وہ خیرات لینے وہاں پہنچ جاتی۔ جبکہ میں بہت کم جاتی تھی۔ اس کا اس قدر احترام کیا جاتاتھا کہ اس کی چارپائی پر گرو کے سوا کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے شاگرد نیچے فرش پر بیٹھتے تھے۔
اس دور میں ان چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ اور ایک دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں اپنے گرو کے ساتھ شادی بیاہ کے موقع پر بدھائی وغیرہ لینے کے لیے چلی گئی جس کا میرے گھر والوں کو بھی معلوم ہوگیا۔ ان دنوں ہم اشرف کالونی محمود آباد میں رہتے تھے۔ ایک دن مجھے میرے والد نے فون کیا اور کہا کہ تم کسی دن گھر پر آجاؤ۔ میں نے سنا ہے کہ تم اپنے گرو کے ساتھ جانے لگے ہو اور تمھاری ڈریسنگ بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے۔
ہم نے لوگوں کی زبانی تمھاری بہت تعریف سنی ہے۔ اس لیے ایسا کرو کہ تم کسی دن اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے کر اسی حلیے میں گھر پر آجاؤ۔ ان دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی۔ میں نے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور اپنے گرو کے پاس گئی۔ میرے گرو نے حسب معمول میرے چھوٹے بھائی کو بہت پیار کیا پھر مجھ سے پوچھا کہ آج کہاں کی تیاری ہے؟ میں نے اپنے گرو کو جواب دیا کہ آج میرے پپا نے مجھے گھر پر بلایا ہے۔ میرے گرو نے مجھ کہا کہ پاگل مت بنو، اپنے سر کے بال لپیٹو اور ٹوپی سر پرپہن کر سادہ کپڑوں میں چلے جاؤ، اس حلیے میں جانا اچھا نہیں ہوتا۔ ہم ان چیزوں سے گزر چکے ہیں۔ میں نے کہا میں ضرور جاؤں گی۔ گرو نے کہا جیسی تمھاری مرضی، ہمارا کام تھا تمہیں سمجھانا۔
غرض میں نے رکشہ پکڑا اور سیدھی اپنے والد کے گھر پر پہنچ گئی۔ گھر پر پہنچ کر مجھے ایک بڑا دھچکا سا لگا۔ وہاں میری شادی شدہ بہنیں اور ان کے شوہر بھی آئے ہوئے تھے۔ میرے بھائی بھی موجود تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سب چھٹی منانے آئے ہیں۔ میں نے سب کو سلام دعا کی، امی نے مجھے دیکھا تو بہت پریشان ہوگئیں۔ میری بہنیں مجھ سے مل کر خوش بھی نظر آرہی تھیں لیکن تھوڑی سی پریشان بھی لگ رہی تھیں۔ غالباً انھیں آگے رونما ہونے والے حالات کا علم تھا۔
غرض میں نے ان سب سے سلام دعالی اور اپنی امی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ میرے والد نے کہا کہ آج میں نے آپ سب کو اس لیے بلایا اور اکٹھا کیا ہے تاکہ دکھا سکوں کہ اس کی (یعنی میری) فیلڈکیا ہے۔ مجھے اپنے والد کی یہ بات سن کر بے حد خوشی محسوس ہوئی کہ میرے باپ نے مجھے مکمل آزادی دے دی ہے۔ میرے والد نے یہ بھی کہا کہ 240 گز کا بنگلہ ہے وہ میں نے اس کے نام پر کر دیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کاغذات پردستخط کرنے کے لیے کہا، میں نے دستخط کردیے۔ میں بے حد خوش تھی کہ پا پا نے بنگلہ بھی میرے نام کردیا ہے۔
میرے بڑے بھائی نے میرے والد سے کہا کہ پا پا آپ ایک بار پھر سوچ لیں! جواب میں انھوں نے کہا کہ میں کیا سوچوں۔ تم لوگ تو لڑکے ہو اپنا کماتے ہو اپنا کھاتے ہو، تمھاری بہنوں کی شادی ہوچکی ہے صرف یہ باقی رہ گیا ہے۔ کل کو ہماری آنکھیں بند ہوجائیں اور کوئی اسے گھر میں گھسنے دے، کوئی نہ گھسنے دے، کوئی اس سے بات کرنا چاہے یا نہ کرنا چاہے۔ سو گھراس کا ہوگا اس کی مرضی ہوگی کہ تمھیں وہاں رہنے دے یا نہ دے۔ تم اس کے ساتھ اپنا اخلاق اچھا رکھو۔
یہ بات میرے بھائی کو بہت ناگوار گزری جس پر میرے والد نے ان سے کہا کہ تم اپنی زبان بند رکھو۔ یہ گھر میری ملکیت ہے میں اس کا مالک ہوں، یہ میری مرضی ہے کہ میں یہ گھر کسی کے بھی نام کروں۔ اور میں نے یہ گھر اب اس کے نام کردیا ہے۔ اس دور میں ایک ایک روپے کے نوٹ چلا کرتے تھے۔ والد نے سو سوروپے کی گڈیاں نکالیں اور سب کے ہاتھوں میں ایک ایک گڈی دینا شروع کردی۔ میں حیران ہوگئی۔ اس زمانے میں سونی کے ٹیپ ریکارڈر آتے تھے جس میں کیسٹ چلتی تھی باڈی اس کی لکڑی کی ہوتی تھی اس کی آواز بہت اچھی ہوتی تھی۔
انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمھیں کس کے گانے بہت پسند ہیں، میں نے جواب دیا کہ نورجہاں کے، انھوں نے میری والدہ سے کہا کہ اچھا نورجہاں کے گانے لگاؤ۔ ساتھ ہی مجھ سے کہا کہ چلو اٹھو اور اپنی پر فارمنس دکھاؤ۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا کہ میری بہنیں، میرے بہنوئی، میرے بھائی بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے سامنے پرفارم کرکے دکھاؤں۔ میں نیچے قالین پر بیٹھ کر رونا شروع ہوگئی میں نے اپنے پا پا سے کہا کہ نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔
میرے پا پا نے کہا کہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہمیں بھی تو پتا چلے کہ تمھارے اندر کتنا آرٹ ہے؟ کتنی کوالٹی ہے؟ اور تم رو کیوں رہی ہو؟ تم اپنے گرو کے ساتھ غیروں کی محفلوں میں جا کر ناچ، گا لیتی ہو وہاں تمھیں شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، ہم تو سب تمھارے اپنے ہیں۔ اپنوں کے سامنے ناچنے میں تمھیں شرمندگی کیوں محسوس ہورہی ہے؟ جب دوسروں کے سامنے تمھارا کوئی پردہ نہیں ہے تو ہمارے سامنے بھی کوئی پردہ نہیں ہونا چاہیے۔
ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ تمہارے اندر کتنا فن ہے؟ میں نے روتے ہوئے اپنے والد سے کہا کہ نہیں پا پا یہ نہیں ہوسکتا۔ مجھے بنگلہ بھی نہیں چاہیے۔ یہ سن کر میرا بڑا بھائی جو سامنے بیٹھا ہوا تھا بہت خوش ہوا اس نے طنزیہ طور پر کہا کہ ہاں ہاں اب یہاں بھی تو کنجر خانہ شروع کرو ناں اور بورڈ بھی لگواؤ۔ میں چپ تھی، میں نے اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ آج کے بعد میرا آپ کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں جارہی ہوں۔
میرے والد نے مجھے رکنے کا حکم دیا اور کہا کہ دو منٹ رک کر میری بات سن کر جاؤ اور اپنے ساتھ گھر کے یہ ڈاکومنٹس (کاغذات) لے کر جاؤ۔ میں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرے والد نے کہا کہ اچھا میری ایک بات سن کر جاؤ۔ اللہ نے آپ کو ہاتھ پاؤں بھی دیے ہیں۔ جہاں تک تم نے پڑھا ہم نے پڑھا دیا۔ تم نے تعلیم پر دھیان نہیں دیا۔ مدرسے میں تم نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کردیا کہ وہاں تمھیں مولوی صاحب مارتے ہیں ہم نے تمھیں تمھاری مرضی کے مطابق جینے کی اجازت دے دی۔
تمھیں اللہ نے ہر چیز سے نوازا تم اپنی موجودہ فیلڈ میں بھی اپنی مرضی سے گئی ہو۔ میں تمھیں کھسرا یا ہیجڑا نہیں بول رہا نہ تمھیں برا کہہ رہا ہوں کیونکہ ہیجڑوں کو تو ہم اپنے گھر میں بلوا کر ان سے دعائیں کرواتے ہیں۔ مگر مجھے صرف میری ایک بات کا جواب دے کر جاؤ۔ اگر میرا کوئی عزیز یا رشتہ دار مجھ سے میری اولاد سے متعلق سوال پوچھے کہ تمھارا فلاں بیٹا کیا کام کرتا ہے تو میں ان کو جواب دے دوں گا کہ میرا فلاں بیٹا یہ کام کرتا ہے اور فلاں وہاں کام کرتا ہے لیکن اگر کسی نے مجھ سے تمھارے متعلق سوال کردیا تو میں کیا جواب دوں گا؟
کیا ان سے یہ کہوں گا کہ میرا ایک بیٹا ہیجڑا ہے یا کھسرا ہے؟ یا کوئی میری اولاد کی تعلیم سے متعلق سوال پوچھے تو میں ان کو بخوبی جواب دے دوں گالیکن تیرے بارے میں میں کیا بتاؤں؟ جوتمھارا جواب ہوگا میں ان لوگوں کو وہی جواب دے دوں گا۔ میں خاموش کھڑی رو رہی تھی اور اپنے والد اور اپنے بڑے بھائی سے کہہ رہی تھی کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے مجھے صرف معافی چاہیے۔ ٹھیک ہے یہ میری غلطی ہے اس غلطی پر آپ لوگ مجھے معاف کردیں۔ آج کے بعد میں آپ کے گھر کبھی نہیں آؤں گی۔ میرا آپ میں سے کسی سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں روتی ہوئی اپنے گھر سے باہر آگئی آنسو میرے چہرے پر بہہ رہے تھے۔ باہر آتے ہی میں نے ایک رکشہ پکڑا اور سیدھے اپنے گرو کے پاس آگئی۔
گرو ایک تجربہ کار شخص تھا اور وہ اپنی زندگی میں ان چیزوں، مراحل اور کیفیات سے گزر چکا تھا۔ اور اس کے چہرے بشرے سے یہ بھی ظاہر نہیں ہو پاتا تھا کہ گروکھسرہ ہے یا لڑکی۔ لوگ اسے ”اماں“ مخاطب کرتے تھے۔ گرو سب پر نظر رکھتا تھا اور ہماری حرکات و سکنات کو بغور مشاہدے میں رکھتا تھا۔ جب ہم لوگ ایک دوسرے سے مستی مذاق میں ایک حدسے گزر جاتے تھے تو گرو ہمیں ٹوکتا اور کہتا کہ خبردار حد پار نہ کرو۔ یہ کہنے کے بعد گرو دوبارہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مشغول ہوجاتا تھا۔
میں واحد تھی جسے گرو فرش کے قالین کے بجائے اپنے پاس پلنگ پر بٹھاتا تھا۔ گرو نے پوچھا کہ سناؤ گھر گئی تھیں گھر میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ جواب میں میں نے کہا کہ بہت اچھا سلوک ہوا۔ میرے باپ نے 240 گز کا بنگلہ بھی میرے نام لکھ دیا۔ جبکہ میرا بھائی تو مجھ سے سڑا جا رہا تھا۔ گرو نے میرے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ بیٹا کھانا کھاؤ گے؟ جواب میں میرے چھوٹے بھائی نے جواب دیا کہ ہاں دادی میں کھانا کھاؤں گا۔
(میرا چھوٹا بھائی گرو کو دادی کہہ کر مخاطب کرتا تھا) اس وقت کمرے میں ہم صرف تین لوگ یعنی میں، چھوٹا بھائی اور گرو موجود تھے۔ میرے گرو اٹھے اور فریج میں سے آٹا نکال کر روٹی بنانی شروع کردی۔ میں شیشے میں اپنے بال سنوارنے میں لگ گئی اور میں نے اپنے آپ کو بہت خوش ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن گرو میری جانب دیکھے جارہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ روٹی بنانے میں بھی مشغول تھی۔
میرے چہرے کی کیفیات کو بھانپتے ہوئے اس نے یہ شعر پڑھا۔
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
یہ سن کر میں اپنے ضبط پر قابو کھوبیٹھی اور زاروقطار رونے لگی۔ مجھے روتے دیکھ کر میرے گرو نے روٹی میرے چھوٹے بھائی کو تھمائی اور میرے قریب بیٹھ کر میرے آنسو پونچھنے لگی اور گلے سے لگا لیا۔ اور مجھے سمجھانے لگی کہ ماں باپ جو بھی بولتے ہیں وہ بچے کی بہتری کے لیے ہی بولتے ہیں ان کا مقصد بچے کا نقصان ہرگز نہیں ہوتا۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آخر مجھے بھی تو بتاؤ کہ ہوا کیا؟ میں نے جواب میں کہا کہ میرے باپ نے اس طرح مجھے پانے گھر بلواکر ذلیل کیا ہے۔
اپنے ہاتھوں میں نوٹو ں کی گڈیاں پکڑ کر مجھے کہا کہ سب کے سامنے ڈانس دکھاؤ۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ اور یہ سب کچھ میرے باپ نے میری بہنوں اور بہنوئیوں کے سامنے کیا۔ یہ سن کر گرو نے کہا کہ تیرے باپ نے کچھ غلط تو نہیں بولا۔ اور اگر تمھارا باپ بہت برا ہوتا تو تمھارے لیے الگ فلیٹ کیوں لے کر دیتا۔ میں نے اپنے گرو کو جواب دیا کہ تم سب بڈھے ایک جیسے ہوتے ہو۔ میرے باپ نے میرے گھر میں میری بہنوں اور بہنوئیوں کے سامنے مجھے ذلیل کیا اور سب کے سامنے مجھے ناچنے پر مجبور کیا۔
اب میں اتنی تو بے شرم نہیں ہوں جو اپنے بہنوئیوں کے سامنے ناچوں یا اپنی ماں بہنوں کے سامنے ناچوں۔ گرو نے جواب دیا کہ تم ہمارے سامنے بے شرمی کی تو بات کرو ہی نہیں اگر ہم بے شرمی یا شرم کا لحاظ کرنا شروع ہوجائیں تو ہماری تو روزی روٹی ہی بند ہوکر رہ جائے گی۔ بہت سے لوگ الٹی کھوپڑی کے بھی ہوتے ہیں لیکن جب ان کے گھر اولاد ہوتی ہے تو ہم ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ غلط حرکتیں بھی کرتے ہیں ہم جب گھر سے نکلتی ہیں تو شرم و حیا کو ایک طرف رکھ کر نکلتی ہیں۔
اب ہر بندہ تو ہماری عزت نہیں کرسکتا ناں یا ہر بندہ بے شرم بھی نہیں ہوتا ناں۔ مجھے اپنے گرو کی یہ باتیں سن کر غصہ آگیا۔ میرے قریب ہی میرا چھوٹا بھائی روٹی کھانے میں مصروف تھا، میں نے اسے ٹہوکا دیا اور کہا کہ اٹھ یہاں سے چلیں۔ میں نے اپنے گرو سے کہا کہ تم سب ایک جیسے ہو اور آج کے بعد میرا آپ سے بھی رشتہ ختم ہے۔ کیونکہ مجھے اس حالت میں تسلی دینے کی بجائے آپ الٹا میرے گھروالوں کی سائیڈ لے رہی ہو۔ میرے گرو نے جواب دیا ”Never Mind“ یہ تمھارا اپنا گھر ہے۔ تمھارا دل چاہے تو آؤ اور اگر تمھارا دل نہیں چاہتا تو بے شک نہ آؤ۔ لیکن پھر بھی یہ تمھارا گھر ہے۔
واپس پہنچ کر میں گم سم رہنے لگی اور کسی کے گھر آنا جانا بھی موقوف ہوگیا۔ اختر کالونی میں میری ایک گرو بھائی رہتی تھی۔ ایک دن مجھے ا س کی کال آئی۔ اور اس نے مجھے بتایا کہ ایک ڈرامے میں ایکسٹرا رول کی آفر آئی ہے۔ کیا تم یہ رول ادا کرنے کے لیے تیار ہو؟ اس کے جواب میں میں نے انکار کردیا اور کہا کہ ڈرامے میں ایکسٹرا رول کے طور پر تم ہی کام کرو۔ میں تو نہیں کرتی ایکسٹرا رول۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میری بات تو سن لو۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ۔ جواب میں اس نے کہا کہ ابھی تو ڈرامے کے لیے وہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ سلیکٹ کریں گے۔ مجھ سے آٹھ دس لوگ ان لوگوں نے مانگے ہیں۔ ایک تو تم پریشان بہت رہتی ہو۔ تم ایسا کرو کہ میرے گھر آجاؤ۔ ہم دوچار گھڑی بیٹھ کر ہنسیں گے بات چیت کریں گے، اس طرح تمہارا دل بھی بہل جائے گا۔
آخر کار میں نے ڈرامے میں کام کرنے کی ہامی بھرلی غرض میرا ڈرامہ مکمل ہوکر ٹی وی پر چلا اور بے حد مقبولیت حاصل کرنے لگا۔
س: گریا کیا ہو تا ہے؟
ج: دیکھیں جو گریا ہوتا ہے وہ ایک قسم کا دوست ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو جو پیار جو محبت اپنے بہن بھائیوں سے نہیں ملتا، اپنے ماں باپ سے نہیں ملتا، ہم اس پیار اور اس محبت کی توقع گریا سے کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا دوست ہوتا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے سکھ دکھ کی باتیں شئیر کرسکتے ہیں۔ اب اگر میں حسین ہوں میں خوبصورت ہوں اور میرا دوست جس کے پاس میں بیٹھ رہی ہوں، جس سے اپنے دکھ سکھ کی باتیں کررہی ہوں جو میرے اوپر خرچہ کررہا ہے، اب اگر وہ مجھ سے پیار کرنا شروع ہوجاتا ہے تو وہ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے مجھے استعمال تو کرے گا، میرے ساتھ ریپ تو کرے گا۔
اب اس خواجہ سرا کی بھی مجبوری ہوگئی۔ جویہ سوچتا ہے کہ یہاں ہر حلالی حرامی آتا ہے یہ میرا دوست طاقت ور ہے یہ میرا دفاع کرے گا، میرا یہ دوست میرے ساتھ بیٹھے گا تو اس کی وجہ سے کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ کوئی میرے ساتھ زور زبردستی کرے یا مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بنائے اور نہ ہی کوئی میرے ساتھ بد معاشی کرسکے گا۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بات چھپی نہیں رہتی اب تو خواجہ سراؤں پر تشدد ان کا قتل ان سے غنڈہ گردی کی خبریں فوراً منظر عام پر آجاتی ہیں پھر لوگ تعجب سے پوچھتے ہیں کہ خواجہ سرا کا قتل ہوگیا ہے!
اس سے پہلے جب سوشل میڈیا اتنا پاور فل نہیں تھا اس وقت بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ ریپ ہوتے تھے خواجہ سراؤں کے قتل ہوتے تھے۔ لیکن لوگوں کو اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ آج کل (خواجہ سرا) خود کو ایکٹریس کہلوانے لگے ہیں۔ میں ان سے بولتی ہوں کہ اگر آپ پندرہ بیس سال پہلے آتیں تو پہلے کسی کا چیلا بنتی، چیلا بننے کے بعد گلیوں کی خاک چھانتی پھروہ تماش بین جو زور زبردستی کرتے ہیں، نوچتے ہیں، ریپ کرتے ہیں، پہلے ان کے ڈنڈے کھاؤ اس کے بعد ہماری بات کرو۔
اپنا درد تو صرف ہم ہی جانتی ہیں ناں۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ نے تین چار خواجہ سرا بلوالیے، انھیں بریانی کھلادی ہزار ہزار روپے دے دیے، اور پھر ان سے سچ بولنے کی توقع رکھیں۔ وہ بھلا آپ کے سامنے سچ کیوں بولیں گی۔ وہ تو یہ بولیں گی ناں کہ ہم تو بہت پارسا ہیں، ہم یہ کام نہیں کرتیں، فلانی یہ کام کرتی ہے۔
س: خواجہ سراؤں کی کتنی قسمیں ہیں؟
ج: خواجہ سراؤں میں مختلف قسم کی کیٹگریز ہیں۔ ایک کیٹگری تو وہ ہے جو گرو چیلا سسٹم میں ہوتی ہے۔ ان کے گھر میں خواجہ سرا کے علاوہ کسی بھی بندے کی انٹری بند ہوتی ہے۔ جب ہم بات کرتے ہیں ناں مسجد، مندر، گرجا، مڑھی، مڑھی اسی طرح وہ جگہ ہوتی ہے جہاں خواجہ سرا رہتے ہیں انھوں نے حج اور عمرے کیے ہوتے ہیں۔ یہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں۔ اگر کوئی خواجہ سرا ینگ (جوان ) ہو تو انھیں ان کے قاعدے قوانین فالو کرنا پڑتے ہیں۔
صبح سویرے اٹھنا، اٹھنے کے بعد منہ ہاتھ دھونا، وضو بنانا، نماز ادا کرنا، نماز پڑھنے کے بعد ناشتہ تیار کرنا، کوئی چیز لانی اس کے بعد خیرات کے لیے نکلنایا شادی بیاہ میں جو کچھ بھی میسر آیا۔ شام کو واپس آکرمغرب کی نماز ادا کرنا اس کے بعد کھانا کھاکر سو جانا۔ یہ پابندی ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد ٹی وی نہیں چلے گا۔ کھانا کھاؤ اور سو جاؤ زیادہ دل پریشان ہورہا ہے تو قرآن مجید کھول کر پڑھ لو۔ یہی نہیں بلکہ ٹیلی فون اور موبائل پر بات کرنے پر بھی پابندی ہوتی ہے آدھی رات کو تم کس سے باتیں کررہی ہو؟
ایک اور گروپ ان خواجہ سراؤں پر مشتمل ہے جو آج کل گلیوں بازاروں میں مختلف سڑکوں اور چوراہوں کے سگنلوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میک اپ کے باوجود ان کی داڑھیاں بھی نظر آرہی ہوتی ہیں، ان کی داڑھیاں دیکھ کر لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ ارے بھئی یہ تو مرد ہیں۔ دیکھیں ہم میں تین قسم کی جنس ہوتی ہیں۔ ایک مرد خواجہ سرا، عورت خواجہ سرا اور مخنث خواجہ سرا۔ اور یہ مخنث خواجہ سرا جو ہوتا ہے ا س کی داڑھی بھی ہوتی ہے اور مونچھیں بھی ہوتی ہیں۔
اب اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے مرد پیدا کیا ہے لیکن آپ نے اندر روح عورتوں جیسی ڈال دی ہے تو کیا آپ رب کائنات سے لڑائی کریں گے؟ وہ بے چارے اپنی روح سے مجبور ہوتی ہیں۔ آج کل تو ڈیجیٹل دور ہے۔ آپ مرد کو عورت بنا سکتے ہیں اور عورت کو مرد لیکن کیا آپ اس کا دل تبدیل کرسکتے ہیں؟ بندیا رانا کی نقل و حرکت تو تبدیل نہیں کرسکتے ناں۔
ایک قسم خواجہ سراؤں کی وہ ہے جو سیکس ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں عام لوگ ہمیں یہ طعنے مارتے ہیں کہ آپ کے خواجہ سراؤں کو تو کسی قسم کی شرم و حیا ہی نہیں ہے وہ کھلے عام سڑکوں پر سیکس ورک کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ سرعام گناہ کی دعوت دے کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں ان لوگوں سے یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کوئی مجھے یہ بتائے کہ کیا کوئی خواجہ سرا کسی دوسرے خواجہ سرا کے انتظار میں کھڑا ہوا ہوتا ہے؟
کیا کسی نے ان سے جاکر پوچھنے کی زحمت گوارا کی کہ وہ کن مجبوریوں کے تحت یہ افعال سرانجام دے رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی بہنیں گھروں میں جوان بیٹھی ہوں، یا اس کے گھر میں اس کے بوڑھے ماں باپ موجود ہوں وہ یہ کام کرکے ان کی کفالت کی اہم ذمہ داری ادا کررہا ہو، ہوسکتا ہے کہ ا س کے گھر میں ا س کا کوئی عزیز بیمار ہو اور اس کی دوائی خریدنا ہو یا اس کے مکان کا کرایہ دینا باقی ہو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے نا چ گانے کے پروگرام ہی نہ مل رہے ہوں نہ ہی اسے کوئی بھیک دینے پر تیار ہو وہ مجبوری کی حالت میں اپنا جسم بیچ کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہو۔ اگر کسی اچھی اور قیمتی کار میں بیٹھا ہوا کوئی شخص کسی پوش علاقے میں پہنچ کر اس خواجہ سرا کو اپنی کار میں بٹھاتا ہے اسے کسی جگہ لے جاکر اس کے جسم کو نوچتا ہے اپنی ہوس کی آگ بجھاکرسارا الزام اس خواجہ سرا کو دیتا ہے تو میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ ایسا شخص بذات خود کیا ہے؟
ایک خواجہ سراؤں کی کیٹگری وہ ہے جو راتوں کو شادی بیاہ یا دیگر نجی تقریبات میں ایکو ساؤنڈ کی موسیقی پر ناچتے ہیں۔ یہ لوگ جن فنکشنوں میں پرفارم کرتے ہیں وہاں شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال عام ہوتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ نشہ آور اشیاء کیوں استعمال کرتی ہیں تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم جس قسم کی تقریبات میں پرفارم کرتی ہیں وہاں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں چٹکیاں بھر رہا ہوتا ہے تو کوئی ہمیں اپنی گود میں زبردستی بٹھا رہا ہوتا ہے، کوئی ہمارے گال اپنے کاٹ رہا ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں ہم بھی نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتی ہیں جنھیں پی کر ہمیں خود کا ہوش نہیں رہتا اور نشے کی حالت میں ہمارے ساتھ کوئی جو کچھ بھی کرتا ہے ہمیں اس کا احساس یا تکلیف نہیں ہوتی۔ ہم کیا کریں؟ ہم تو مجبور ہیں ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنا پیٹ تو بھرنا ہوتا ہے ناں۔ کوئی اگر کسی خواجہ سرا کو اپنا دوست بناتا ہے اگر پھر اسے اس خواجہ سرا سے زیادہ خوبصورت کوئی اور خواجہ سرا مل جائے تو وہ بے وفائی کرتا ہے۔
اس ظلم و زیادتی کے نتیجے میں خواجہ سراؤں کے اندر احساس کمتری کا المیہ جنم لیتا ہے وہ اپنے احساس کو بھلانے یا دور کرنے کے لیے ہاتھوں پر بلیڈ کے ذریعے زخم لگاتے ہیں، منشیات کا بھی بے دریغ استعمال شروع کردیتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا جیسے جیسے اس منشیات کی لعنت کا شکار ہوکر بے تحاشا شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کرتے ہیں ویسے ویسے ان کی شکل و صورت بھی تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے وہ دن بدن نقاہت اور کمزور ی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
پھر یہ خواجہ سرا نہ تو ناچ گانے کے لائق ہی رہتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ بھیک ہی مانگ سکتے ہیں۔ نشے کے زیر اثر ان کے رویوں میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے دوسروں سے الجھنے لگتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ کسی کرائے کے مکان میں رہ رہے ہوتے ہیں آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے تنگ آکر مالک مکان ان کو مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیتا ہے اور اس کے ساتھیوں اور دوستوں سے کہتا ہے کہ اگر اس (خواجہ سرا) کو اپنے ساتھ مکان میں رکھنا ہے تو پہلی فرصت میں ہمارا مکان خالی کردیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس قسم کے خواجہ سراؤں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے، وہ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، اپنی راتیں کسی فٹ پاتھ یا باغوں اور پارکوں میں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
اب بات وہیں پر آجاتی ہے پچاس علماء کا فتویٰ آگیا ہے کہ کوئی مرد خواجہ سرا عورت سے بھی شادی کرسکتا ہے اور عورت خواجہ سرا مرد سے بھی شادی کرسکتا ہے۔ یہ 2010 ء کی بات ہے۔ میں مولویوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا آپ نے دین اسلام اب آکر پڑھا ہے؟ بھائی اگر بندیا رانا کی اس وقت عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے۔ اگر آپ یہ بات پہلے بتا دیتے تو میں تو سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کرلیتی، اور آج میرا بھی شوہر ہوتا۔ میں کیوں اتنے سالوں سے احساس کمتری کا شکار ہوکر ہراسگی میں پھنسی رہی اس کا ذمہ دار کون ہے؟
ایک بات میں آپ کو بتادوں کہ میں ان علمائے کرام کی بے حد عزت کرتی ہوں جن کے پاس دین اسلام کا حقیقی علم ہے۔ لیکن جس کمیونٹی کے لیے آپ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں اگر آپ اس کمیونٹی کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے ہیں تو وہاں کلیش پیدا ہوتا ہے۔ اب بہت سارے خواجہ سرا خوش ہوکر میرے پاس آئے اور کہا کہ واہ یہ فیصلہ تو ہمارے حق میں آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب تو آپ لوگ خوش ہوناں۔ اب اگر میں ایک تصویر لڑکی کی بنادوں تو کیا لڑکا اس سے شادی کرلے گا؟
نہیں کرے گا۔ بھائی میرے خواجہ سرا تو نام ہی ادھوری چیز کا ہے۔ نہ ہم شادی کرسکتے ہیں نہ بچے پیدا کرسکتے ہیں، نہ کچھ اور کر سکتے ہیں تو پھر کوئی دوسرا ہم سے شادی کیوں کرے گا؟ یہ سلسلہ اگر ایسے شروع ہوجائے تو کوئی بھی ٹی ٹی میرے سر پر رکھ کر مجھ سے نکا ح پڑھوا لے گا۔ میں ایسی صورت میں کیا کرسکتی ہوں کیونکہ میں تو ایک قسم کی جائیداد بن کر رہ جاؤں گی۔ میں نے خواجہ سراؤں سے کہا کہ آپ اگر چاہیں تو اس فیصلے کے حق میں اپنے موقف کو پیش کرسکتے ہیں لیکن میں تو اس فیصلے کے خلاف ہوں۔
یہ تو آپ لوگوں کا شو ق ہے لیکن آپ کا مستقبل کیا ہوگا؟ آپ کہیں رومال کہیں لوگ غبارے بیچتے ہوئے نظر آئیں گے یا گھروں میں جھاڑو پونچھا لگاتے ہوئے نظر آؤ گے۔ کسی کے بچے گودوں میں کھلاتے ہوئے نظر آؤ گے، یا ہانڈی چولھے میں نظر آؤ گے۔ ابھی جو آپ لوگ لہراتی، بل کھاتی پھرتی نظر آرہی ہو ناں، کہ جہاں دل چاہا بیٹھ گئیں جہاں دل چاہا اٹھ کھڑی ہوئیں تو پھر بندہ تو آخر بندہ ہی ہوتا ہے ناں، وہ بولے گا کہ تو میری بیوی ہے، سیدھی ہوجاؤ، یہاں روڈ پر کھڑی کس کے ساتھ باتیں کررہی ہو، پھرآپ کہو گی دفعہ مارو ہم تو نہیں کرتے شادی۔
2014 ء راگنی نام کی ایک لڑکی جو ڈاکو منٹری بنانا چاہتی تھی، اپنی ماں کے ساتھ میرے پاس آئی اور کہا کہ کوئی بھی خواجہ سرا اس کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آج تک کیا آپ نے ہم کھدڑوں کے لیے بھی کوئی کام کیا ہے۔ ہم لوگ اگر کبھی کسی لڑکے کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے چلے جائیں تو آدھی رات کو ہماری تلاشی لی جارہی ہوتی ہے، منہ پر تھپڑوں کی برسات کی جاتی ہے، خواجہ سرا کو زبردستی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہوتا ہے۔
اس پر کبھی کام کیا ہے؟ تم تو اپنی ڈاکو منٹری فلم امریکہ میں چلاؤ گی یہاں تمہاری ڈاکو منٹری فلم نہیں چلے گی۔ مجھے آپ کے کام سے کیا لینا دینا۔ میری یہ بات سن کر راگنی کہنے لگی کہ جب آپ اتنی بات کرتی ہو تو آپ اپنا ایک ادارہ کیوں نہیں بنا لیتیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں میں اس سے پہلے ایک ادارے والے کے پاس گئی تھی۔ ان لوگوں نے مجھ سے جانتی ہو کیا بولا؟ راگنی نے پوچھا کہ کیا بولا؟ میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ ہیجڑوں پر کام نہیں کرتے۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ لوگ ہم سے یہ سوال کریں گے کہ کیا آپ لوگ بھی یہ شوق فرمانا شروع ہوگئے ہیں۔ کیا آپ کی بھی ان کے ساتھ سیٹنگ ہوگئی ہے۔
راگنی کی ماں نزہت قدوائی نے کہا کہ میری یہ بیٹی اپنی ڈاکو منٹری فلم مکمل کرے گی اور چلی جائے گی۔ لیکن میں ویف کی ممبر ہوں، میں آپ کا ساتھ دوں گی۔ میں آپ کو ویف کی ممبر بھی بنا لیتی ہوں آپ ہمارے ساتھ کام کریں اور آپ اپنا ایک الگ ادارہ کیوں نہیں کھول لیتیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ یہاں باتیں تو ہر کوئی آکر بنا لیتا ہے لیکن حقیقی ساتھ کوئی بھی نہیں دیتا۔ آپ ڈیفنس میں رہتی ہو سب سے پہلے تو میں آپ کا گھر دیکھوں گی کیونکہ ڈاکومنٹری فلم بنانے کے بعد آپ کہیں غائب ہوجائیں یا مجھے پہچاننے ہی سے انکار کر بیٹھیں کہ میں کون تو کون۔ نزہت آپا بولیں ٹھیک ہے آج شام کو ہمارے گھر آپ کی دعوت ہے، میرے ڈرائیور نے آپ کا یہ گھر دیکھ لیا ہے، شام کو میں اپنی گاڑی کے ساتھ ڈرائیور کو بھیج دوں گی آپ اس کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائیے۔
غرض شام ہوئی تو وعدے کے مطابق ڈرائیور گاڑی لے کر آگیا۔ میں اس کے ساتھ ڈیفنس ان کے گھر گئی۔ ان کے ساتھ کھایا پیا مجھے ان لوگوں کی صحبت بہت اچھی لگی۔ غرض میں نے ان کی ڈاکو منٹری فلم میں کام کرنے کی ہامی بھر لی راگنی نے میرے نام پر ”بندیا چمکے گی“ کے عنوان سے ڈاکومنٹری فلم بنائی۔ میں نے اس ڈاکو منٹری فلم میں ہر چیز بیان کردی۔ جیسے ہمارے ہلکے ہلکے بال ہوتے ہیں، ہلکی ہلکی مونچھیں ہوتی ہیں یا کسی کے گھر بچہ پیدا ہونے پر بھدائی لینے کس طرح جاتے ہیں اور کس طرح بھدائی لیتے ہیں۔
راگنی ایسی طبیعت کی حامل تھی کہ ایک مرتبہ صبح چھ بجے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ میں سوتے سوتے اٹھی اور اس سے کہا کہ کیا مصیبت ہے بھئی۔ یہ تو ایک فری کا عذاب مجھ پر نازل ہوگیا ہے تمہاری صورت میں۔ راگنی مجھ سے کہنے لگی کہ یہی چیز تو میں دکھانا چاہتی ہوں کہ تم جب سوکر اٹھتی ہو تو کیسی لگتی ہو۔ مرتی کیا نہ کرتی۔ یہ سردیوں کے دن تھے اس ڈاکو منٹری کو پورا کرنے میں دس سے پندرہ دن لگ گئے اس دوران ہم نے ایک اور خواجہ سرا کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔
اس بے چاری کو بھی میں کچھ نہ کچھ معاوضہ دیتی رہتی تھی۔ پھر ہم نے ایک فیملی کو راضی کیا کہ ہم ان کے گھر بدھائی لینے جائیں کہ کیسے بدھائی وصول کی جاتی ہے۔ غرض ڈاکو منٹری مکمل ہوگئی اور راگنی اس ڈاکومنٹری کے ساتھ امریکہ روانہ ہوگئی لیکن اس وقت تک میں نزہت کے ساتھ عورت فاؤنڈیشن جوائن کر چکی تھی۔ میرا ویف میں بھی آنا جانا شروع ہوچکا تھا۔ ویف والوں نے مجھے اپنی تنظیم کا ممبر بنا لیا یہ مجھے بہت اچھا لگا۔ راگنی کی بنائی گئی ڈاکو منٹری امریکہ میں سپر ہٹ ہوگئی۔
2014 ء میں نے، نزہت قدوائی آپا اور راگنی نے مل کر سوچا کہ ہمیں ایک ادارہ قائم کرنا چاہیے۔ ہم نے اس نئے ادارے کا نام ”Gender Interactive Alliance“ ”جیا“ تجویز کیا۔ اب میں نے یہ محسوس کیا کہ کراچی کے خواجہ سراؤں کے ساتھ جس قسم کے مسائل درپیش آتے ہیں وہ دیگر علاقوں کے خواجہ سراؤں کو پیش آنے والے مسائل سے مختلف ہیں یا دوسرے الفاظ میں سندھ کے خواجہ سراؤں کو ہم سے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں سندھ کے مختلف خواجہ سراؤں کا انٹرویو لینے گئی وہاں میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ لوگوں کو کیا کیا مسائل درپیش ہیں، بلکہ میں نے ان کے مسائل سے آگہی کی خاطر ان کے ساتھ باہر جانا شروع کیا میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ سندھ کے لوگ خواجہ سراؤں سے بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب ہم بلوچستان میں گئے تو وہاں ہمیں طرح کا تجربہ ہوا۔ لیکن وہ سندھ سے زیادہ مختلف تھاوہاں کسی گھر میں جب جاتے تھے تو اگر اس گھر میں کوئی جوان لڑکے موجود ہوتے تو وہ ہمارے احترام میں گھر سے باہر چلے جاتے تھے یہی نہیں بلکہ بڑے بوڑھے لوگ بھی ہمارے سروں پر پیار سے ہاتھ رکھنے کے بعد گھروں سے باہر نکل جاتے تھے۔
وہاں کے لوگ خود بہت غریب تھے، مفلسی کی زندگی گزار رہے تھے ان کے پاس روپیہ پیسا تو تھا ہی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ لوگ ہمارے قدموں میں دوپٹے اور کپڑے ڈال رہے تھے۔ ان کے علاقوں میں کوئی اسپتال نہیں تھا، کوئی میڈیکل اسٹور نہیں تھا کہ جہاں سے وہ سر درد کی گولی ہی خرید سکتے یہاں تک کہ پرچون کی کوئی دکان تک موجود نہیں تھی۔ وہاں کی خواتین کو اپنے حقوق کا بھی علم نہیں تھا۔ ان کی حالت زار دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ ہم سے زیادہ تو یہ لوگ مظلوم ہیں۔
پھر جب میں وہاں سے واپس آئی تو میں نے ان لوگوں کے حقوق اور ان کی حالت سدھارنے کے لیے یہاں ویف میں ایک میٹنگ کی اور میں نے سوچا کہ ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد میں نے فری میڈیکل کیمپس لگانے شروع کردیے۔ اپنے ادارے کی رجسٹریشن کروائی اور کسی کے ساتھ دفتر جوائن کیا جوا س زمانے میں پچیس ہزار سیلری لیتا تھا۔ جو ایریا رجسٹرڈ تھا اس ایریا کے خواجہ سراؤں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ ہوتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ کام سیکھا وہ اس زمانے میں وہ مجھے تین ہزار روپے مہینہ دیتے تھے کنوینس کے لیے۔
وہ خود پچیس ہزار روپے مہینے کے لیتے تھے اور ان کے سارے کیمپس میں لگواتی تھی۔ میں یہ کیمپس میں اس سوچ کے زیر اثر لگواتی تھی کہ کم از کم میرے خواجہ سرا ایچ آئی وی کے مریض ہونے سے تو بچیں گے۔ ان کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لیے ضروری معلومات تو مل جائیں گی۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی خواجہ سرا کوسرعام سڑکوں پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا کسی خواجہ سرا کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا کر کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر چار چار پانچ پانچ افراد اسے سیکس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ زور زبردستی سے کام لیتے ہیں کہ ایسی حالت میں ہم ان کی قانونی اور اخلاقی مدد کرتے ہیں۔
س: اچھا سینٹ میں جو بل پیش کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں۔
ج: دیکھیں 2009 ء میں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظر عام پر آیا اس اہم کارنامے پر ہم سپریم کورٹ اور چیف جسٹس صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ احکامات جاری کیے گئے کہ خواجہ سراؤں کی مجموعی آبادی یعنی کل تعداد معلوم کی جائے۔ خواجہ سراؤں کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، فیصلے کے بعد ہم نے چیف جسٹس صاحب سے درخواست کی کہ سر ہمارے پاس تو قومی شناختی کارڈ تک نہیں ہیں آپ وراثت میں حصے کی بات کررہے ہیں۔
وراثت میں حصہ تو تب ملے گا جب ہم لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈ ہوں گے۔ مزید یہ کہ نادرا والوں نے ایک ایشو کھڑا کردیا کہ خواجہ سراؤں کے میڈیکل چیک اپ کے بعد ہی ان کا آئی ڈی کارڈ ایشو ہوگا۔ ہم نے اس کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔ پھر ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کی جس پر ہمارے حق میں فیصلہ آیا اس طرح یہ لٹکتی ہوئی تلوار ہمارے سروں پر سے ہٹی۔
اسلم خاکی صاحب ہمارے وکیل تھے۔ ہم انھیں ای میل کرکے کہتے تھے کہ سر یہ مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے سلسلے میں یہ بات ہونی چاہیے یہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہمارے حق میں اچھے فیصلے آنا شروع ہوگئے ہم نے ان فیصلوں کاکراچی پریس کلب کے باہر خیر مقد م بھی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری مشہوری تو کافی ہوگئی کہ ہم نے خواجہ سراؤں کے لیے ہیلتھ فری، تعلیم فری کا نعرہ بلند کیا۔
لیکن 2009 ء کے فیصلے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے۔ ایک وقت ایسا آیاکہ ہمیں احساس ہوا کہ ہماری جدوجہد کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی ہمارے حق میں آنے والے فیصلوں پر عمل در آمد ہو رہا ہے۔ ہم نے طے کیا کہ اسلام آباد جا کر سینیٹرز سے ملاقات کریں گے۔ ا س وقت سینیٹ کے چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے منتخب کردہ جناب رضا ربانی صاحب تھے۔ میں نے وہاں پہنچ کر رضا ربانی صاحب سے ملنے پر اصرار شروع کردیا۔
میرے اس بے لچک موقف پر سب سینیٹرز تشویش میں مبتلا ہوگئے کہ یہ خواجہ سرا لوگ تو یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہم کو یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ ہم سینیٹ سے باہر جاکر میڈیا کے نمائندوں کو بلا کر ایک پریس کانفرنس بھی منعقد کریں گے۔ جس میں یہ موقف اختیار کیاجائے گا کہ خواجہ سراؤں کو سینیٹ میں بلواکر بھی ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ عوام کے منتخب نمائندے سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو میرے متعلق بتانے لگے کہ سندھ سے آئی ہوئی ساڑھی میں ملبوس بندیا رانا واپس جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ آپس میں صلاح مشورے کے بعد ان میں سے ایک نے ہم سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں، ہم آپ کی خاطر جناب رضا ربانی صاحب سے چند منٹس کی ملاقات کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جناب رضا ربانی صاحب سے آپ لوگ بات نہ کیجئے گا۔ کے پی کے سے منتخب سینیٹرز جو آپ لوگوں کے مسائل کو سمجھتے ہیں وہ ان سے بات کریں گے۔
خیرجناب رضا ربانی صاحب میٹنگ روم میں آئے انھوں نے کہا کہ میرے پاس صرف پانچ منٹ کا وقت ہے۔ کے پی کے سینیٹرز نے ہمارے مسائل اور حقوق کے سلسلے میں ان سے بات چیت شروع کی اور جناب رضا ربانی صاحب کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم خواجہ سرا بھی اس پاکستان کے باعزت شہری ہیں، پاکستان کی عوام کی طرح ہم لوگوں کے بھی ریاست کے ذمے کچھ حقوق ہیں۔ ہم خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک خاتون وکیل بھی موجود تھیں۔ انھوں نے جناب رضا ربانی صاحب سے ڈرتے ہوئے ایک منٹ بات کرنے کی اجازت چاہی۔
اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے کچھ کہنے کی ناکام کوشش کی۔ میں نے اس خاتون وکیل کو روک دیا اور بولی کہ آپ رکیں۔ ہم خواجہ سراؤں پر جو بیتی ہے اس کی داستان میں سناؤں گی۔ ایک صاحب نے آواز لگائی کہ وقت ختم ہوچکا ہے لیکن جناب رضا ربانی صاحب نے کہا کہ نہیں بات ختم ہونے دو۔ رضا ربانی صاحب نے ہمیں اپنے موقف کو پیش کرنے کے لیے تقریباً پچیس منٹ یعنی آدھا گھنٹا دیا۔ انھوں نے ہماری خاطر اپنی ضروری میٹنگ بھی کینسل کر دی جس پر میں ان کی بہت شکر گزار ہوئی۔
ہماری بات کے اختتام پر وہ سینیٹرز جن کو ہمارے بل پر اعتراض تھا، انھوں نے ہمارے بل کو نہایت عزت اور احترام سے وصول کیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ سر اب آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ جواب میں ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ یہ سوچ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں کہ ہم آپ کے بل کو منظور کروانے کی پوری کوشش کریں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمارا بل سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا اور اس کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا۔
س: آپ نے اپنی گفتگو میں لفظ ٹی جیز استعمال کیا اس کے کیا معنیٰ ہیں؟
ج: دیکھیں پہلے لوگ خود کو خواجہ سرا کہلواتے تھے لیکن آج کل انگلش میں اسے ٹی جیز کہا جاتا ہے۔ یعنی ٹرانس جینڈر۔ دیکھیں پہلے شناختی کارڈ جب بنتے تھے تو اس پر لکھا جاتا تھا مرد خواجہ سرا، عورت خواجہ سرا، خنسا خواجہ سرا۔ لیکن اب ڈال دیا ہے ایکس۔ ہم لوگ تو مغرب کی نقل ہی کرتے ہیں یورپی ممالک میں خواجہ سرا کے خانے میں جنس کے خانے میں ایکس ڈال دیتے ہیں۔ وہاں کی نقالی کرتے ہوئے یہاں بھی جنس کے خانے میں ایکس ڈال دیا ہے۔
س: خواجہ سراؤں کے مذہبی عقائد کے بارے میں بتائیں؟
ج: دیکھیں میری بات سنیں خواجہ سرا کے نمائندے کی حیثیت میں آپ کو یہ بات بتارہی ہوں کہ ہم خواجہ سراؤں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ جو خواجہ سرا مولا علیؑ کو نہیں مانتا وہ ہمارے نزدیک خواجہ سرا ہی نہیں ہے۔ ہم خواجہ سراؤں میں جو سکھ یا ہندو خواجہ سرا ہوتے ہیں اگر اللہ کی کرم نوازی سے ان کو اپنا گھر ملتا ہے تو وہ مولا علیؑ کے نام کا علم لگاتے ہیں۔ نیاز بھی کرتے ہیں، نذر بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک مولا علیؑ ہی کی ذات ہے جن کی ایک پوری تاریخ ہے اور جنھوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔
میرے مولاؑ کی بڑی شان ہے، کیونکہ انھوں نے بہت سی جنگیں لڑیں۔ دیکھیں مولائیوں کا ایک ایسا گروہ ہے جن کے جلوس، جن کی مجلسوں اور جن کی امام بارگاہوں میں اگر ہم چلے جاتے ہیں تو وہ ہم سے یہ نہیں پوچھتے کہ آپ لوگ کون ہیں؟ آپ سنی ہیں یا شیعہ ہیں؟ ہم لوگ نیاز بھی دیتے ہیں، نذر بھی دیتے ہیں اور پیروں اور درباروں کوبھی بہت مانتے ہیں۔ ہم خواجہ سرا، وہاں صرف اپنے لیے دعائیں مانگنے کے لیے نہیں جاتے، اپنے لیے بہت کم دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے زیادہ مانگتے ہیں۔
س: آپ کی ورتھ (علاقہ) کون سی ہے؟
ج: میرا علاقہ محمود آبا د، جونیجو ٹاؤن، سی ویو اور کلفٹن ڈیفنس ہے۔ ہمارے سوا ان علاقوں میں کوئی دوسرا بدھائی لینے نہیں آسکتا۔ اگر کوئی آئے گا بھی تو وہ میرے شاگردوں کا شاگرد ہی ہوگا۔ ہمارے علاقے میں اگر کوئی دوسرا خواجہ سرا داخل ہوجائے تو ہماری برادری بیٹھتی ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ یا
تو یہ رول (قانون) ختم کردو اور جس خواجہ سرا کا دل چاہے وہ کہیں بھی، کسی بھی جگہ پر جاکر بدھائی وصول کرسکتا ہے۔ اور یا پھر اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور اسے دوسرے خواجہ سرا کے علاقے میں جانے سے منع کیا جاتا ہے۔ ہم لوگوں میں جونئیر اور سینئیر کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور سینئیرخواجہ سراؤں کا بہت ادب و احترام کیا جاتا ہے۔
س: آپ نے 2013 ء کے انتخابات میں حصہ لیا یہ تجربہ کیسا رہا؟
ج: 2013 ء میں میں نے الیکشن میں حصہ لے لیا۔ میں نے تو یہ سوچ کر الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہم خواجہ سراؤں کو بھی معاشرے کے دیگر افراد کی طرح برابر کے حقوق دیے ہیں۔ سو میں اس الیکشن میں حصہ ضرور لوں گی۔ میری ساتھی مجھ سے کہتی تھیں کہ جب تم الیکشن میں جیت جاؤ گی تو اپنے مد مقابل فلانے شخص کو تم گالیاں دینا۔ میں نے کہا بھئی میں کسی بندے کو بھلا کیوں گالیاں دوں گی۔ میری ان لوگوں کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا تو ہے نہیں۔
اگر میں الیکشن جیت جاتی تو گلیوں بازاروں سے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ختم کرواتی۔ پینے کے پانی کے ساتھ سیوریج اور گٹر کی جو لائنیں ملی ہوئی تھیں، ان کو درست کرواتی۔ کے ایم سی ہاسپیٹل کی حالت درست کرواتی۔ اب یہ دیکھیں کہ چنیسر گوٹھ میرا حلقہ انتخاب تھا۔ میری ورتھ بھی ہے جبکہ سڑک پار کرکے ڈیفنس کا علاقہ بھی ہے۔ آپ ڈیفنس میں کتوں کا اسپتال دیکھ لیں اور ہمارے حلقے کا انسانوں کا اسپتال دیکھ لیں، ان کے کتوں کا اسپتال ہم انسانوں کے اسپتال سے بہتر ہے۔
میرے حلقے میں سرکاری اسکولوں کی یہ حالت ہے کہ اسکول کی بالائی منزلوں پر شراب کی بوتلیں پڑی ہوئی ہوتی ہیں گدھے باندھے جاتے تھے ہیں میرا خیال ہے کہ ان اسکولوں میں آج بھی گدھے ہی بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں ان گدھوں کو اسکولوں سے باہر نکلواتی، پینے کے صاف پانی کا انتظام کرواتی۔ میری لڑائی ان محرومیوں اور نا انصافیوں کے ساتھ تھی۔
س: آپ کو کتنے ووٹ ملے؟
ج: گیارہ سو۔ درحقیقت جیتی تو میں تھی اس حلقے سے۔ چار سال بعد معلوم ہوا کہ اس حلقے میں دھاندلی ہوئی تھی۔ دوران الیکشن مجھے موبائل فون پر دھمکیاں دی جاتی تھیں مجھے کھسرے اورہیجڑے کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا ساتھ ہی کہا جاتا کہ تم رزلٹ نہیں دیکھ پاؤ گی۔ میں کبھی کسی کے گھر سوتی تو کبھی کسی کے گھر رات گزارتی۔ مجھے تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں نے کسی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہو۔ زندگی میں میری کبھی اتنی بے عزتی نہیں ہوئی جتنی الیکشن کے دوران مجھے ذلت سہنا پڑی۔
ہمارے پاس روپیہ پیسا تو تھا نہیں۔ گھروں میں روٹی پکانے کے بعد جو آٹا بچ جاتا ہم لوگ اس کی لئی (دیسی ساختہ گوند) بنا کر باہر پوسٹر چپکانے جاتے تھے۔ سول سوسائٹی میں سے کسی نے ہم کو پانچ ہزار دے دیے کسی نے ہمیں دس ہزار دے دیے کسی نے دو ہزار دے دیے۔ پھر کسی ہوٹل پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اگر ہماری جیبوں میں پیسے کم ہوتے تو کم کھانے یعنی صرف ایک پلیٹ منگوالیتے اور اسی میں سے تھوڑا تھوڑا کھا لیتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اس طرح یہ مشکل اور کٹھن وقت کاٹا یہ الگ بات ہے کہ اس دوران مجھے اٹھارہ لاکھ روپے تک کی آفر بھی کی گئی تھی کہ آپ الیکشن میں ہمارے حق میں بیٹھ جائیں۔
اور کچھ لوگ بھی اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے آئے۔ وہ لوگ کہتے کہ اگر با الفرض آپ جیت جاتی ہو تو پھر؟ میں جواب دیتی کہ اگر میں جیت گئی تو میں سب سے پہلے آپ پارٹی والوں کو بلواؤں گی اور یہ کہوں گی کہ مل کر کام کرتے ہیں۔ آپ لوگ اپنا منشور پیش کریں۔ اگر آپ جیت گئے تو میں سب سے پہلے آپ کو مبارک باد دوں گی اور اپنا منشور پیش کروں گی، میری تو کسی سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ٹی وی چینلز پر جب الیکشن کے سلسلے میں ٹاک شوز پروگرام ہوتے تھے تو میرے ساتھ کوئی بھی سیاست دان بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔
وہ انتہائی سخت وقت تھا میں نے وہ سخت وقت جیسے تیسے گزار لیا۔ میرا موقف یہ تھا کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو ایک عام بندہ تو کرسکتا ہے لیکن خواجہ سرا نہیں کرسکتا۔ 2014 ء میں مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے مجھے موبائل پر فون کرکے دھمکی دی گئی کہ آپ ایچ آئی وی پر کھل کر بات کرتی ہیں، کنڈوم اور لبریکینٹ پر کھل کر بات کرتی ہیں۔ آپ سیکس پر بات کرتی ہیں، آپ نے تو خواجہ سراؤں کو سیکس ورکر بنا کر رکھ دیا ہے۔
ہم آپ کو چھوڑیں گے نہیں، آپ کو قتل کردیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں اس قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئی۔ مجھے امریکہ اور نیپال آنے کی آفرز ہوئیں جس کے جواب میں، میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہ بتا دو کہ کیا آپ کے ملک میں موت نہیں آتی ہے؟ اگر آپ کے ملک میں موت نہیں آتی ہے تو پھر تو میں آپ کے ملک میں شوق سے آجاتی ہوں۔ جو رات میں نے قبر میں گزارنی ہے وہ میں زمین پر گزار ہی نہیں سکتی۔ جب تک میری موت نہیں آتی میں یہ لڑائی لڑوں گی۔
س: آپ نے میری کتاب تیسری جنس پر اعتراض کیا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟
ج: ہم نے اس لیے اعتراض کیا تھا کیونکہ ہم اپنی ہر بات کھل کر عام لوگوں کے سامنے اپنی زبان سے نہیں کر سکتے۔ کہ جب ہم لوگ بدھائی پر جاتے ہیں۔ تو ہم لوگ بولتے ہیں ”اڑیل ٹھکروں والے“ جس کا مطلب ہے کہ ”یہ لوگ زیادہ پیسوں والے ہیں“ ۔ ”نہیں نہیں کڑے کڑاج“ جس کا مطلب ہے کہ ”ان سے اتنے پیسے نہیں بلکہ اتنے لینا“ اگر کوئی غریب ہوتو ہم لو گ کہتے ہیں ”کڑے کڑاج ہیں بھئی یہ ہانو ٹھکروں والا ہے“ یا جیسے ہم فارسی میں دوست کو گریہ بولتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں نے مختلف زبانوں کو ملا کر ایک الگ زبان بنائی تھی اور یہ زبان ہم لوگ دوسروں سے اپنی باتوں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے ہماری اس زبان کو دوسروں کے سامنے بالکل اوپن کرکے رکھ دیا ہے اب جب کبھی ہم لوگ باہر جاتے ہیں تو کبھی کوئی شخص ہمیں دیکھ کر آواز لگاتا ہے کہ ”بڑی چیسی ہے، بھئی بڑی چیسی ہے“ ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو میں اس وقت نہیں کرنا چاہ رہی۔
س: خواجہ سرا جن لوگوں سے عضو خاص کا آپریشن کرواتے ہو مستند نہیں ہوتے جس سے ان کی زندگی کو بھی خطرہ ہوگا دوسری بات یہ کہ اسے معاشرے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: دیکھیں میری بات سنیں، میرا جسم میری ملکیت ہے۔ اگر میرے ہاتھ میں چھ انگلیاں ہیں اور مجھے اپنی ایک انگلی پسند نہیں آرہی ہے تو میں اپنی ایک انگلی کٹواؤں گی، ۔ اس پر کسی دوسرے شخص کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ ریاست کو کیا تکلیف ہونی چاہیے۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، ریزر آچکا ہے جس کی مدد سے بال کٹوالیے جاتے ہیں اور ہر طرح کی تبدیلی کروانا ممکن ہوچکا ہے۔ آج اگر مرد خواجہ سرا آپریشن سے کچھ کروا رہے ہیں تو ہماری فلم انڈسٹری میں ہیروئنیں کیا کچھ نہیں کروارہی ہیں۔
پچاس سالہ بوڑھی فیش ایبل بن کر سولہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے۔ دیکھیں پہلے تویہ بہت بڑا جرم سمجھا جاتا تھا، اور کسی قسم کی سرجری کروانے پر پابندی عائد تھی۔ پہلے کا دور جاہلیت کا دور تھا۔ لیکن آج کل تو اس کام کے لیے ڈاکٹر اور اسپتال مہیا ہیں، مگر وہ بھی یہ کام چھپ کر کرتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں ہم نے قانون سازی میں اس بات کو بھی شامل کروایا ہے کہ میرے جسم پر میری ملکیت تسلیم کی جانی چاہیے کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ کسی اور کو ہمارے اپنے معاملات پر کوئی اعتراض کرنا جائز نہیں ہے۔ آج کل تو پچاس ساٹھ یا ستر ہزار روپے میں آپ یہ آپریشن باآسانی کرواکر اپنے جسم کی جو چاہے چیز تبدیل کروا سکتے ہیں۔ آپ لاکھ دو لاکھ تین لاکھ روپے خرچ کریں تو آپ ایک حسین و جمیل عورت بن سکتے ہیں۔ آج کل تو آسانی ہی آسانی ہے۔ آپ لوگ ہم لوگوں پر تو انگلی اٹھاتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھیں کہ آج کل کے لڑکے کیا کچھ نہیں کررہے ہیں، اپنے بال بنوا رہے ہیں، بھنویں بنوا رہے ہیں۔
لڑکیوں کی طرح لمبے لمبے بال رکھ رہے ہیں اور لڑکیوں ہی کی طرح کی ڈریسنگ کررہے ہیں۔ لیکن ان لڑکوں پر اعتراض اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی جاکر ان سے تو پوچھے کہ آپ تو اچھے بھلے مرد ہو پھر آپ نے اپنی مونچھیں کیوں کٹوائی ہوئی ہیں، بھنویں کیوں بنوائی ہوئی ہیں، لمبے لمبے بال کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ جواب میں کہا جاتا ہے کہ بھئی ان کی مرضی ہے وہ جیسا چاہے فیشن کرسکتے ہیں۔ ہم ان پر کیسے اعتراض کرسکتے ہیں۔
س: کیا پیدائشی خواجہ سرا بھی ہوتے ہیں؟
ج: بھائی میری بات سنیں، بے شمار ایسے مرد ہوتے ہیں جن کی مردانہ طاقت بہت کمزور ہوتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب یہ ہوا کہ وہ خواجہ سرا ہیں؟ نہیں وہ خواجہ سرا نہیں ہوتے، وہ خود کو مرد کہلوا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار عورتیں بچے پیدا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں تو کیا وہ خواجہ سرا ہوتی ہیں؟ نہیں وہ خواجہ سرا نہیں ہوتی ہیں، وہ خود کو عورتیں کہلوا رہی ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم خواجہ سراؤں کے اندر بھی رب کائنات نے جو روح ڈال دی ہے ہم اسی روح کے مطابق عمل کررہی ہوتی ہیں۔ آپ لوگ ہم سے اس سلسلے میں کیوں لڑتے ہو۔ ہماری تو روح ہی ایسی ہے ہم اپنی روح کیسے بدلیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر