ہم موت کے خوف سے جنم لینے والی بزدلی کے عہد میں زندگی کرتے ہیں!کورونا نے موت کو لاشعور سے شعور میں داخل کر دیا ہے۔اب موت ،ماضی اور مستقبل کے علاوہ، حال کی حقیقت بن گئی ہے۔ پہلے سرحدوں پہ رہتی تھی۔اب گھروں کی دیواروں پہ سوتی ہے ۔ بہادری اور بزدلی کے معنی بدل گئے ہیں۔NHS کے ہسپتال میں بورس جانسن کی بے بسی دیدنی تھی۔ ہسپتال کے میدانِ جنگ سے کیمرے 24/7 برطانیہ کے وزیرِاعظم کی موت سے لڑائی کا حال بتاتے تھے۔یہ ہومر کا رزمیہ تھا اور نہ ہی فردوسی کا شاہنامہ !یہ ایک absurd طربیہ صورتِ حال تھی!پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ ٹرتھ عہد میں موت کی بجائے زندگی کی قدر بڑھ گئی ہے۔ایسے میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ جاری ہے اور بے گناہ شہری مر رہے ہیں۔نریندرا مودی مہابھارت کے زمانے میں پانڈوں کے خلاف کوروں کا ساتھ دینے والے قدیم پاکستان یا وادء سندھ جنگ کے لئے پر تولتے رہتے ہیں اور بھارتی مسلمانوں آزار پہنچاتے ہیں! اور محمد بن قاسم اور غوری کی کوکھ سے نکلا پاکستان دلی پر جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھتا رہتا ہے!خطے کے کروڑوں لوگ کورونا ، ایٹمی جنگ، بیماری اور بھوک کے خوف اور حزن میں زندگی کرتے ہیں۔ ہزاروں سال پرانی دو تہذیبوں کے تھیٹر میں بیٹھے بے کیفی سے انگڑائیاں لیتے ہیں۔اور کورونا کے جدید اور شدید وجودی خطرے کے باوجود کورو پانڈوں کے مہابھارت جیسے کسی یدھ کے لئے ہردم تیار رہتے ہیں!
اب ذرا کورونا کے بعد کی دنیا کا تصور کرتے ہیں۔ پوسٹ کورونا ورلڈ کیسی ہوگی؟ یہ آج کابڑا وجودی سوال ہے۔دنیا کی آبادی میں کمی سے لے کر جنگ، امن اور کثیر قطبی دنیا کے بارے میں نئے امکانات پر بات ہو رہی ہے۔لیکن دو باتیں طے ہیں کہ پوسٹ کورونا ورلڈ میں موت کی بجائے زندگی کا کاروبار زیادہ اہمیت اختیار کرے گا اور دوسرا بھوک اور بیماری کا خاتمہ انسانیت کی ترجیح بننے کا قوی امکان ہے کہ بیماریوں اور germ wars سے بچاؤ اچھی خوراک اور مضبوط قوتِ مدافعت کے بغیر ممکن نہیں ہے!!
کورونا کے دنوں کی شاعری پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شاعری کے موضوعات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ محبت کے ساتھ ساتھ زمین اور زندگی کو fresh gaze سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہستی کے فریب میں پھنسا آدمی ، عالم کو نئے حلقۂ دامِ خیال میں گھرا دیکھتا ہے۔یقین کا نیا واہمہ درکار ہے جو موت کو پھر سے معطل کر دے اور ہستی کے فریب کو قرار کچھ قرار مل جائے!
ہمارے ہاں زندگی مگر تکبر ،غرور اور غصے سے گھائل ہے۔غرور، جس سے فرشتے شیطان بنتے ہیں۔ہمارے عہد کے مہذب اور دلگدازشاعر، افتخار عارف کا کہنا ہے کہ تمکنتِ فقر میں گندھی عاجزی سے بڑی دولت کوئی نہیں!!صدیاں گزریں ایک عورت گلی سے گزرنے والے عالی مرتبت بشر ص پر کوڑا پھینکتی تھی۔ وہ بیمار ہوئی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ اس کی عیادت کو آئے تھے۔پھر یوں ہوا کہ غریب اور امیر، عربی اور عجمی کی تفریق مٹانے والے اور انسان کو انسانیت کی بنیاد پر پرکھنے والے کو دنیا خیرالبشر ص ماننے پر کہنے لگی۔رحمت اور محبت میں فطرت کی نمو کا راز ہے ۔سایہ دار شجر، سائے کا سائبان تانے رکھتے ہیں ۔مور ناچ، مفت لگا ہے۔پرندے گیتوں کے کنسرٹ نہیں کرتے۔رقص و نغمہ خیرات کرتے ہیں۔ عجز کی معرفت سے سرشار رہتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا کہناہے کہ جو شخص عاجزی یعنی humility میں سبقت لیتا ہے وہی عظمت میں سبقت پاتا ہے۔ Humble ہونا ایک مشکل کام ہے کہ قرآن کی زبان میں آدمی” ظالم اور جاہل” ہے اور تکبر ظالم کا زیور ہے۔ ایسے آدمی کا انسان بننا مشکل ہوتا ہے!!
ایک عالم ،اسلم رسولپوری نے نیلسن منڈیلا کا ایک واقعہ پوسٹ کیا۔منڈیلا 27 سال قید رہے اور پھر ساوتھ افریقہ کے صدر بن گئے ۔ ایک دن وہ ایک ریستوراں میں کھانا کھانے گئے۔وہاں ایک آدمی کھانے کا انتظار کرتا تھا۔نیلسن منڈیلا نے سیکورٹی افسر سے کہا وہ اُس شخص سے کہیں کہ اپنا کھانا لے کر ہماری میز پر آ جائے۔کچھ دیر میں وہ آگیا، کھانا کھانے کے دوران اُسکے ہاتھ کانپتے تھے، کھانا ختم ہوا تو وہ چلا گیا ۔ نیلسن منڈیلا کے ساتھی نے کہا کہ وہ بیمار تھا کیونکہ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔نیلسن منڈیلا نے جواب دیا،نہیں، یہ بیمار نہیں، ڈرا ہوا تھا۔ کہ میں اسکے ساتھ وہی سلوک کرونگا جو یہ میرے ساتھ جیل میں کرتا تھا۔ منڈیلا نے بتایا کہ میں جیل میں قید تھا اور یہ وہاں گارڈ تھا، یہ مجھ پر تشدد کرتا تھا اور جب میں نڈھال ہو کر پانی مانگتا تو یہ میرے سر پر پیشاب کرتا۔ اسکے ہاتھ اس لئے کانپ رہے تھے کہ میں صدر ہوں انتقام لونگا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ انتقام ایک ایسا جذبہ ہے جو افراد اور اقوام کو برباد کرتا ہے جبکہ صبر اور محبت قوموں کی تعمیر کرتے ہیں۔نیلسن منڈیلا نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ "کمزور شخصیت کے لوگ معاف کرنے میں تاخیر کرتے ہیں جبکہ مضبوط کردار کے لوگ معاف کرنے میں دیر نہیں کرتے!”
نریندرا مودی اور آر ایس ایس جسے رہنما ایک کمزور بیانیے کی بنیاد پر تاریخ کی خطاوں کے قیدی ہیں۔عاجزی سے خالی اور تکبر سے بھرے ہیں۔وہ ماضی کو گولی مارنا چاہتے ہیں اور ماضی نے ایٹم بم سے ان کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ماضی کو بدلنے کا واحد راستہ ماضی کی نئی تشریح ہے۔کاش وہ یہ بات سمجھ لیں کہ دارا و سکندر سے لے کر محمد بن قاسم، بابر اور ایسٹ انڈیا کمپنی تک کسی ایک کو بھی عمران خان یا جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہندوستان پر حملے کی دعوت نہیں دی تھی۔ بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دینے والے سورما کا نام رانا سانگا تھا! محمد بن قاسم حجاج جیسے حکمران کے حکم پر اسلام کی تبلیغ کو نہیں بلکہ سامراجی جدلیات کے تابع کاروبار_ زرگری کو آئے تھے اور ملتان سے تیرہ ہزار تین سو من سونا لے اڑے تھے۔مسلمان بادشاہ اور ہندو راجے اپنے زمانے کے سامراجی تھے اور ان کا طبقاتی کردار ایک جیسا تھا۔مسلمان بادشاہوں نے مسلمانوں کے لئے خوشحالی نہیں بانٹی اور نہ ان کے ٹیکس معاف کرتے تھے۔ اور نہ ہی ہندو راجوں نے ہندووں کے ٹیکس معاف کئے یا ان کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں۔سب نے استحصال کیا اور سبھی سامراجی کردار کے مالک سمراٹ تھے۔مسلمان بادشاہ اور ہندو راجے مہاراجے غریبوں، کسانوں، عورتوں، دلتوں، آدی واسیوں اور کمزوروں کے لئے ایک سے ظالم تھے!وہ مقامی آدمی کو لوٹتے تھے اور آپس میں مذہب اور ملت سے ماورا دوستیاں قائم کرتے تھے! دربارِاکبری تو خیر ایک مثال ہے، اورنگ زیب عالمگیرجیسے بادشاہ کے دربار میں 34 ہندو وزیر اور رتن تھے اور شیوا جی کے سب سے بڑے ہمدم اور رازدار، مولانا حیدر علی تھے! منیر نیازی یاد آئے:
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبارِ زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی ، سب کی گھاتیں ایک سی
سادہ لوح اور بنیاد پرست لوگ ، ماضی کو حال میں بلا وجہ کھینچ لاتے ہیں۔برطانوی کولونیل ازم نے ماضی اور حافظے کی جدلیات بدل دی ہے۔تاریخ کو مسلم اور ہندو دشمنی کا بیانیہ بنا دیا ہے کہ سامراج کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی سے سروکار تھا۔برا ہوا کہ ہم حال کی بدحالی، ماضی کے افسانوی بیانیے سے چھپانے میں مگن ہو گئے!صدیوں سے لگی غلامی کی عادت کو ماضی کی افیم آبِ حیات ہے۔سیاستدانوں کو بھی یہ فارمولا راس ہے۔ اور وہ ماضی کے مردہ گھوڑے کو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام کے چابک سے پیٹتے رہتے ہیں! رومیلا تھاپر کہتی ہیں کہ اشوکا کے علاوہ کسی بادشاہ نے ہندوستان میں مذہبی ریاست قائم نہیں کی تھی!! سندھ وادی اور گنگا جمنا کی تہذیبی تاریخ میں غریب مسلمانوں کا خون شامل بھی ہے۔جنگِ آزادی بھگت سنگھ کے ساتھ اشفاق اللہ خاں نے بھی بسنتی چولا پہنا تھا۔راحت اندوری کہتے ہیں:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
یہ وقت نئی مہابھارت کی تیاری اور سرحد پر بے گناہوں کو مارنے کا نہیں بلکہ غور و فکر کرنے اور سوچنے کا مقام ہے۔ historiography یا تاریخ کے منبعوں کے تجزیے کا وقت ہے۔ تاریخ کا نصابی بیانیہ نہیں، تاریخ کا عوامی بیانیہ کھنگالنے کی ضرورت ہے۔تاریخ کی تحلیلِ نفسی سے ماضی کو سمجھنے اور ماضی کو بدلنے کا وقت ہے ۔کہ یہاں کے کروڑوں لوگ غربت اور بیماری سے نجات پائیں اور خوف اور حزن کے بغیر زندگی کریں! لیکن اس کے لئے نیلسن منڈیلا سا دل، وژن اور سمت نمائی کی صلاحیت یا prescience درکار ہے یا بورس جانسن سی بیماری جو near death experience کے بعد تھوڑی بزدلی دان کر دے۔ کہ کورونا اور نفرت کو بہادری سے نہیں، بزدلی اور دانائی سے شکست دی جا سکتی ہے!
ایک عالم ،اسلم رسولپوری نے نیلسن منڈیلا کا ایک واقعہ پوسٹ کیا۔منڈیلا 27 سال قید رہے اور پھر ساوتھ افریقہ کے صدر بن گئے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر