محترم قارئین کرام، وطن عزیز زرعی ملک ہے. جس کی معیشت کا ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ زیادہ تر انحصار بھی زراعت پر ہے.اس شعبے کے مسائل حل کرکے اسے آسودہ اور خوشحال بنانے کی بجائے الٹا آئے روز کسانوں کا گلہ گھونٹا اور زراعت کو کمزور اور نقصان پہنچا کر تباہ کرنے والی پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں.یہ کوئی اندرونی ایجنڈا ہے یا بیرونی بہرحال ملک و قوم کے لیے آنے والے دنوں میں اس کے اثرات خاصے نقصان دہ ہی ثابت ہو سکتے ہیں.کہیں ایسا تو نہیں کہ دانستہ اور غیر دانستہ ہم اپنے کسانوں کو ذلیل و خوار اور اپنی زراعت کو بانجھ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں.اگر ایسا نہیں تو پھر یہ کیا تماشے ہیں. یہ ڈرامے اور فلمیں کون لکھ رہا ہے. کس کی ڈائریکشن پر خود حکومت پروڈیوسر کے طور پر اپنی خدمات فراہم کیے ہوئے ہے. آئین و قانون کی بنیادی روح کے خلاف، انصاف کے تقاضوں اور زمینی حقائق کے خلاف کیونکر کسانوں کے خلاف یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے.7مئی تک صوبہ بھر کے مختلف ڈویژنوں میں گندم کی ٹوٹل خریداری اپنے اہداف کی درج ذیل شرحوں کے مطابق کی جا چکی ہے. بہاول پور ڈویژن گندم خریداری میں 92فیصد ایچیومنٹ کے ساتھ سب سے پہلے نمبر پر ہے. ڈیرہ غازی خان 60,ملتان 62لاہور75،ساہیوال42گوجرانوالہ 58، فیصل آباد 42، راولپنڈی 58فیصد سب سے کم سرگودھا23فیصد ریکوری ٹارگٹ پر ہے. مجموعی طور پر پورے صوبے میں گندم خریداری اپنے ہدف کا 60.48کی جا چکی ہے.بہاول پور ڈویژن جہاں پر ٹارگٹ کا 92فیصد حاصل کیا جا چکا ہے یہاں بھی زمینداروں کسانوں کاشتکاروں کے گھروں پر چھاپے ڈالے جائیں گے. کیونکہ ان اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے بھی نوٹس مشتہر کر رکھے ہیں. اس سال بارشوں اور ژالہ باری سے متاثر اور تباہ ہونے والے گندم کے کھیتوں اور کسانوں کی حکومت کو کوئی پرواہ اور فکر نہیں ہے.بہت سارے ایسے کسان بھی ہیں جو گندم کاشت کے گھاٹے کا شکار ہو کر پریشان ہیں .میں مزید بات کرنے سے قبل حکومت پنجاب کی جانب صوبے کے تقریبا تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے جاری کیا جانے والا ایک اشتہار اور نوٹس من و عن آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں. میری التماس ہے کہ اسے آئین و قانون،انصاف کے تقاضوں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دل اور دماغ کی آنکھیں کھول کر پڑھا جائے.
ُ ُ اطلاع برائے عوام الناس
1.گندم کے کاشتکار، کسان اپنے گھروں میں گھریلو استعمال کے لیے 25من سے زائد گندم ذخیرہ نہیں کر سکتے. 2.ذخیرہ اندوزی قابل گرفت جرم ہے حکومت پنجاب کے انسداد ذخیرہ اندازی آرڈیننس 2020کے تحت اشیاء، اجناس کی ذخیرہ اندازوی کے مرتکب افراد کو 3سال تک قید اور مال بطور جرمانہ بحق سرکار ضبط کیےجانے کی سزا ہو سکتی ہے.
نوٹ،، کسان، کاشتکار زائد گندم رکھنے کی معقول وجہ کے ساتھ ذخیرہ کی گئی گندم کا ریکارڈ متعلقہ تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کو فراہم کریں. بصورت دیگر دوران کارروائی 25من سے اضافی گندم ضبط اور متعلقہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی. ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شہری درج ذیل نمبر 0800.33444پر اطلاع دیں. اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا.ٗ ٗ
محترم قارئین کرام، یہ کیا ہے. کیا ہو رہاہے اور کیا ہونے کیا رہا ہے.آٹا گندم سمگلنگ اور حقیقی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کچھ کرنے کی بجائے گندم کاشت کرنے والے کسانوں کے خلاف کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے. کیا آرڈیننس انسداد ذخیرہ اندوزی کا کسانوں کے خلاف استعمال درست اور جائز ہے. یہ آرڈیننس سراسر انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے. آئین و قانون کی روح کے بھی خلاف ہے. انتہائی بد نیتی پر مبنی ہے.ایسے لگتا ہے کہ اس آرڈیننس کا ڈرافٹ یقینا کسی شہری بابو نے تیار ہے. لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ شہری بابو گھر پر بہت کم زیادہ تر ہوٹل پر کھانا کھانے والا ہی ہو گا. ہوٹل پر اپنی جیب سے کم اور دوسروں کی جیب سے زیادہ کھانے والے آدمی کی یہ ہی سوچ اور عمل ہو سکتا ہے. آرڈیننس کا ڈرافٹ کسی کسان اور زراعت دشمن زمینی حقائق سے لاعلم یا بد نیت شخص کا تیار کردہ لگتا ہے.یا پھر اس آرڈیننس کو بیورو کریسی میں موجود حکومت مخالف لابی تکنیکی طریقے سے رانگ سائیڈ پر لے جانے کے لیے کوشاں ہے.لوٹ مار مہنگائی اور معاشی استحصال کا باعث بننے والے مافیاز کو بچانے کے لیے ایسے کرنے جا رہے ہیں. اعلی عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کو اس آرڈیننس کا از خود نوٹس لینا چاہئیے.آرڈیننس کا سہارا لے کر کسانوں کے خلاف کارروائی یہ ایک قسم کی ڈاکہ زنی کے مترادف اور گندم ڈکیتی ہے.حکومت ہو یا انتظامیہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے کسی کمزور طبقے کے ساتھ ناانصافی، ظلم و زیادتی نہ کریں.ذخیرہ اندوزوزن کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے ذخیرہ اندوزرں کو استعمال کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی کریں. لیکن اس آرڈیننس کے ذریعے زمینداروں اور کسانوں کو ذلیل و خوار ہرگز نہ کریں.
آرڈیننس تیار کرنے والوں، اسے پاس کرنے والوں اور اس کا استعمال کرنے والوں میں سے کوئی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے. تاکہ ہم کم علم لوگوں کو بھی کچھ معلوم ہو سکے.سمگلنگ روکنے کی بجائے کاشتکاروں کو اپنے گھروں میں گندم رکھنے سے روکنے والو کچھ خدا کا خوف کرو. آپ نے کسان کے لیے گھریلو استعمال کے لیے 25من گندم رکھنے کا تعین کس بنیاد پر کیا ہے. زمیندار و کسان کی ضروریات اور ضرویات کو پورا کرنے کے طریقہ کار سے، یقینا آپ کسان کے گندم کے استعمال اور دیہی زندگی سے واقف نہیں ہیں.اکثر کسان کھانے کے لیے گھریلو استعمال کے علاوہ سال بھر کےمختلف استعمال کے لیے بھی گندم اپنے پاس رکھتے ہیں.اگلی فصل کے بیج کے لیے، جانوروں کو کھلانے کے لیے، گھر پر آکر مانگنے فقیروں کو آٹے اور گندم کی شکل میں خیرات دینے کے لیے،مہمان نوازی اور دیرے داری کے لیے،الحمدللہ آج بھی زمیندار گھرانوں سے دوپہر اور شام کو مسجد اور مدرسے کے مولوی صاحبان کو پکی پکائی روٹی دی جاتی ہے ،بہت سارے گھروں میں پھیری والوں سے بچوں کی اشیاء خریدنے کے لیے بھی گندم کا استعمال کیا جاتا ہے. وغیرہ وغیرہ. ان حقائق و حالات میں کسانوں کو کیونکر اور کیسے پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ 25من سے زیادہ گندم اپنے گھر میں نہ رکھیں.کیا کسانوں کو کسی استحصالی آرڈیننس کے ذریعے مجبور کرنا کہ وہ اپنی گندم اوپن مارکیٹ میں زیادہ ریٹ کی بجائے سرکاری گوداموں میں کم ریٹ پر بیچیں.اوپن مارکیٹ میں گندم کی خریدداری پر پابندیاں لگانا، آزاد مارکیٹ اور انصاف کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے. جب کسانوں کی گندم ٹکے ٹوکری بک رہی ہوتی ہے اس وقت تو حکومت خود سرکاری ٹارگٹ پورا ہونے کا کہہ کر اپنی خریداری بند کر دیتی ہے اوپن مارکیٹ میں سرکاری ریٹوں سے بہت کم ریٹ پر کی جانے والی خریداری پر کسانوں کو طلب و رسد اور اوپن مارکیٹ کے اصول اور قانون بتایا جاتا ہے. اس دوغلے پن کا شکار صرف اور صرف کسان ہوتا ہے اور آج آرڈیننس کی وجہ سے بہتر ریٹ نہ ملنے کا شکار بھی کسان ہو رہے ہیں. یہ جبر اور یہ ہر وقت شکنجہ کسانوں پر ہی کس کر فٹ کیوں کر دیا جاتا ہے. کیا ملک کے قانون میں کوئی ایسی شق موجود ہے کہ کسان، کاشتکار اپنی کاشت اور برداشت کی جانے والی کسی فصل یا گندم کو فوری طور پر سرکار کو بیچنے کا پابند ہے. وہ بھی اس ریٹ پر جس کا تعین اس کے پیداواری اخراجات کو نظر انداز کرکے اس کی مرضی کے برعکس کیا گیا ہے. .کیا کسان کو اپنی ضروریات خود طے کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے.کیوں?. کیا آئندہ اگلے مرحلے میں کسان اور اس کے بیوی بچوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ گھر پر ایک وقت میں ایک روٹی سے زیادہ ہرگز نہیں کھا سکتے. زیادہ روٹیاں کھانے والوں کو جرمانہ ہوگا تھانے اور جیل جانا پڑے گا. شاید آنے والے دنوں میں کسانوں کو اس قسم کے نوٹس اور اشتہار سے بھی واسطہ پڑےکہ فی کس ایک وقت میں ایک سے زیادہ روٹیاں کھانے والے گھرانوں کے تمام افراد مستند سرکاری ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کے ہمراہ اپنی متعلقہ تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کے پاس درخواست جمع کروا کر اضافی روٹیاں کھانے کا پرمٹ ضرور حاصل کریں ورنہ انہیں قانون کا سامنا کرتے ہوئے جرمانے اور قید کی سزا بھگتنا پڑے گی .افسوس صد افسوس ذخیرہ اندوزی کے آرڈیننس کا کاشتکاروں اور کسان پر اطلاق کرنے والو اور مذکورہ بالا نوٹس اور اشتہار جاری کرنے والو.وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزادار صاحب آپ خود زمیندار ہیں کیا مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ کا ضمیر مطمئن ہے کہ کسانوں کے ساتھ آپ کی حکومت اور انتظامیہ جو کچھ کرنے جا رہی ہے وہ درست ہے.آپ خوشاب کے زمیندار اپنی ہی جماعت کے ایم پی اے ملک فتح خالق بندیال،ضلع میانوالی کے ایم این اے محمد امجد نیازی، ملتان کے سید فخر امام، مخدوم شاہ محمود قریشی، رحیم یار خان کے مخدوم ہاشم جوان بخت، میاں شفیع محمد لاڑ، عامر نواز چانڈیہ پنجاب یا خطہ سرائیکستان کے کسی بھی اپنی جماعت کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے ایم این اے اور ایم پی اے سے اس بابت پوچھیں لیں کہ 25من سے زائد گندم رکھنے والےکسانوں کے گھروں پر چھاپے، ضبطگی گندم اور جرمانوں کا فیصلہ درست ہے. سردار صاحب یہ کسانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے. نہ تو ملک میں جنگ ہے. نہ ہنگامی اور ایمرجنسی کے حالات ہیں اور سب سے بڑھ کر نہ ہی ملک میں اس وقت گندم کا کوئی بحران اور قلت ہے. پھر یہ سب کچھ کیوں اور کس کے لیے. ذخیرہ اندازی کے آرڈیننس کاغلط استعمال کیا جا رہا ہے. اگر اس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اگلے سال کسانوں کا رد عمل انتہائی سخت آ سکتا ہے.اگر کسانوں نے مل کر یہ تہیہ کرکے یہ نعرہ لگا دیا کہ گندم صرف اپنے جوگی بس.. تو پھر کیا ہوگا. ہاں گندم خرید کر ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف ضرور کارروائی کریں. سرکاری گوداموں سے گندم حاصل کرکے گندم اور آٹا سمگل کرنے والی فلور ملز کے خلاف کارروائی کریں.کوٹہ حاصل کرنے والی نان فنکشنل ملز کے خلاف کارروائی کریں. مارکیٹ میں مہنگا آٹے اور چینی بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کریں. ان سب کے خلاف اس لیے کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور کامیابی سے آگے نہیں بڑھتی کیونکہ ان کی ایسوسی ایشنز بڑی طاقت ور اور حکومتی حلقوں تک اثر و رسوخ رکھنے والی ہوتی ہیں. وسیع فنڈز اور فنڈنگ کے ذریعے اعلی عدالتوں میں حکومتی اقدامات اور فیصلوں کو چیلینج کرنا بھی ان کے لیے معمولی اور روٹین کا کام ہے. بے چارے کسان یہ سب کچھ نہیں کر سکتے.کمزور طبقے کی آواز اٹھانے والی مالی طور پر انتہائی کمزور کسان تنظیمیں چاہنے کے باوجود اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اعلی عدالتوں سے انصاف کے حصول کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے اخراجات برداشت کر سکیں.کسانوں کا گنے کی قیمت اس کی مٹھاس اور ریکوری کے مطابق حاصک کرنے کا کیس ہائی کورٹ سے کامیابی ڈبل بینچ کا، سند کے باوجود سپریم کورٹ میں کہیں گم ہوا پھرتا ہے. محنت کشوں کسانوں کے لیے اتنی طویل اور خرچے والی جنگیں لڑنا کم ازکم وطن عزیز میں اپنے آپ کو اوکھا کرنے اور زندگی کو داؤ پر لگانے والی بات ہے. معاف کیجئے گا یہاں دیدہ اور ان دیدہ مافیاز کا راج ہے.
پاکستان میں کسانوں کی سب سے بڑی اور نمائندہ تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر ملک خالد محمود کھوکھر،چودھری رضوان اقبال، ملک اللہ نواز مانک، جام فضل احمد گانگا، کسان بچاؤ تحریک کے قائدین چودھری محمد یسین، سید محمود الحق، بخاری،نصیر احمد وڑائچ کے مطابق گذشتہ ہفتے کے دوران کی بات ہے کہ سید فخر امام کی وفاقی وزارت خوراک اینڈ فوڈ سیکیورٹی نے ملک کو کثیر زرمبادلہ دینے والی اہم ترین فصل کپاس کے تحفظ کے لیے کپاس کی کم ازکم امدادی یا مداخلتی قیمت کے تعین کے لیے ایک سمری تیار کرکے بھیجی جس میں کپاس کی مداخلتی قیمت4224روپے مقرر کرنے کی شفارش کی گئی. اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس سمری کو سرے سے مسترد کر دیا ہے. حالانکہ کسانوں کا مطالبہ کم ازکم 5000روپےمن اور اس سے زائد کا ہے. کپاس کی سمری کو یکسر مسترد کیے جانے سے آپ زراعت مخالف اور کسان دشمن عناصر اور مافیاز کی طاقت،ان کی پہنچ اور نیٹ ورک کا اندازہ لگا سکتے ہیں.حق تلفی اور زیادتی کا ایک دوسرا بڑا رنگ اور طریقہ کار بھی ملاحظہ فرماتے چلیں. کسانوں کے نام پر قومی خزانے سے اربوں روپے نکال کر ضائع کیے جا رہے ہیں. کسانوں کو ریلیف کے نام پر کھاد کی سکریچ کارڈ اور ٹوکن سکیموں کے ذریعے ہونے والی اربوں روپے لوٹ مار گھپلے کا تفصیلی آڈٹ کرنے اور مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے. اس سے کتنے کسانوں اور جس قدر فائدہ یا ریلیف مل رہا ہے.کھاد کی قیمتوں میں کمی کے لیے ایک سمری متعلقہ کمیٹی اور ارباب اختیار کے پاس کافی دنوں سے پہنچی ہوئی ہے.لیکن کھاد کی قیمتوں میں کوئی کمی کرکے عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا. گنے کے بعد کسان کپاس کے لیے بھی کھاد مہنگے نرخوں پر خرید کر ڈالنے پر مجبور ہیں. کسان پہلے دن سے ہی کھاد پر دی جانے والی سبسڈی ٹوکن کی بجائے اوپن پالیسی کے تحت بلاتفریق دینے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں. لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی.کسان اور کسان قیادت ٹوکن فراڈ سکیموں کو مسترد کر چکے ہیں اس کے باوجود بھی وہ جاری ہیں ہیں کیوں اور کن کے لیے. اس کا مکمل جائزہ اورتفصیلی آڈٹ ضروری ہے. کسانوں کو کچھ ریلیف دینے کے لیے چھپ کر بیٹھنے والے کسانوں سے جبری کم قیمت پر گندم لینے کے لیے آرڈیننس کا نفاذ کرکے گنیں لیے پھرتے ہیں .یہ سب استحصالی کھیل زرعی ملک کی زراعت اور کسانوں کے ساتھ ہی بے دھڑک اور بے رحمی کے ساتھ کیوں کھیلے جا رہے ہیں. اگر حکومت نے ہر حال میں ہی اپنی گندم اپنے گھر رکھنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے ڈالنے ہیں تو ملک بھر کے کسان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کارروائی سے قبل ملک بھر کی تمام فلور ملز اور تمام شوگر ملز کو فی الفور قومی تحویل میں لے لیا جائے. ملک کے عوام کو گندم آٹا چینی حکومت پورا سال خود فراہم کرے.ریاست کا کام فلاح کرنا ہے استحصال کرنا ہرگز نہیں. آئین و قانون کی حکمرانی قائم اور اس کی پاسداری کرنا ہے بغیر سوچے سمجھے خلاف قانون آرڈیننسز کے ذریعے دھونس و دھاندلی قائم کرنا ہرگز نہیں. ریاست ایک ماں کا درجہ رکھتی ہے. ماں کا کام یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کمزور سے چیز چھین کر طاقت ور کو دیتی رہے. حکمرانو کسانوں پر کچھ رحم کرو.مسلسل کسانوں کی خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید کوئی حکومتی پلنگ کے نٹ کھول کر اسے دھیاں دھیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے. باقی تسی تے او خود بڑے سمجھ دار لوگ او. اساں کیہڑے جوگے.فلاح کی نیت سے جاری کیے جانے والے فلاحی آرڈیننس کو کسانوں کے خلاف استعمال کرکے استحصالی آرڈیننس نہ بنایا جائے یہی ملک و قوم کے حق میں بہتر ہے. کاشتکار، کسان سے اپنے گھریلو استعمال و ضروریات کی گندم رکھنے کا تعین خود کرنے کا حق اس سے سلب نہ کیجئے. یہ اس کے بنیادی حق پر ڈاکہ ہوگا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر