نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‘شاہ عبدالعزیز:پیورٹن ازم ، فرقہ واریت، مناظرے اور جہاد’۔۔۔ عامر حسینی

شاہ صاحب نے مقدمہ لڑا اور وہ کم از کم غالب سے کہیں زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئے کہ مقدمہ جیت گئے اور اُن کو فریزر جیسا دوست بھی مل گیا-

گزشتہ سے پیوستہ روز صبح سے گردے میں درد اٹھا جو ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا اور پھر کئی گھنٹے دوا دارو کرنے کے بعد درد کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے، پہلی مرتبہ اس درد کا مزا چکھا ہے تو دن میں تارے نظر آگئے، درد کی شدت میں بولنے سے قاصر تھا تو کوئی فون کال بھی اٹینڈ نہ کرسکا، چارپائی پر بالکل سیدھے لیٹے لیٹے درد کو بھلانے کے لیے سید اطہر عباس رضوی کی کتاب ‘شاہ عبدالعزیز:پیورٹن ازم ، فرقہ واریت، مناظرے اور جہاد’ (انگریزی) پڑھتا رہا، رضوی کمال کے محقق تھے، جس موضوع پر قلم اٹھاتے، قلم توڑ ڈالتے، کوئی پہلو اُن کی نظر سے چُھپا نہ رہتا، انہوں نے اثناعشری شیعہ کی شمالی ہندوستان میں سماجی-دانشور آنہ تاریخ کو دو ضغیم جلدوں میں مدون کیا، یہ شاہکار اپنی جگہ قابل تعریف ہے، انہوں نے ہندوستان میں تصوف کی تاریخ اور ہندوستان میں سترھویں اور اٹھارویں صدی کی احیائی تحریکوں پر شاندار کُتب تحریر کیں، تاریخ کی معروضیت کو رضوی صاحب نے کبھی مذھبی تعصب اور فرقہ وارانہ موضوعی پن سے گدلا نہ کیا، یہی وجہ ہے کہ اُن کی لکھی کُتب اور تحقیقی مضامین حوالہ بنکر زکر کی جاتی ہیں-

رضوی صاحب نے "شاہ ولی اللہ اور اُن کا زمانہ” اور ” شاہ عبدالعزیز……” یہ دو کتابیں لکھ کر ہندوستان کی تاریخ میں وہابیت، فرقہ واریت، مناظرہ بازی اور جہاد وغیرہ کے علمی پس منظر کو سمجھنے میں بہت آسانی پیدا کردی ہے- مجھے کتاب پڑھنے کے دوران پتا چلا کہ شاہ عبدالعزیز کے تعویز سے ہر قسم کے درد کے مریض کو شفا ملا کرتی تھی تو بے اختیار دل نے چاہا کہ شاہ صاحب کی روح سے رابطے کی کوئی سبیل نکل آئے تو اس کمبخت درد گردہ سے تو نجات ملے(کمبخت ٹیس ایسے اٹھتی ہے جیسے کوئی ہتھوڑی لیکر بائیں پہلو میں آہستہ آہستہ میخ ٹھونک رہا ہو) – رضوی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کو علم موسیقی اور آلات موسیقی دونوں کا بڑا شوق تھا اور وہ تمام راگ راگنیوں سے واقف تھے، ملفوظات شاہ عبدالعزیز کی ایک عبارت زکر کی جس میں ایک قوال کے شاہ صاحب کے پاس اپنے بیٹے کا نام تجویز کرنے کے لیے آنے کا زکر ہے، نام تجویز کرنے کے بعد شاہ صاحب قوال سے راگ تھانسیری میں کچھ سُنانے کو کہتے ہیں، قوال تھوڑا سا فرمائش کردہ راگ میں گاتا ہے اور پھر یک دم دوسرا راگ چھیڑ دیتا ہے، شاہ صاحب اسے ٹوکتے ہیں اور راگ تھانسیری میں سُنانے کو کہتے ہیں، شاہ صاحب راگ کی حقیقت پر بھی گفتگو فرماتے ہیں، اور قوال اس دوران یہ بھی کہتا ہے کہ اُس سے حسد کرنے والوں نے اُس کے گلے پر جادو ٹونا کیا ہے جس سے آواز بیٹھ گئی ہے، شاہ صاحب اُسے کہتے ہیں اس جادو، ٹونے کے تدارک کے لیے کَل آنا، قوال شاہ عبدالعزیز دھلوی سے کہتا ہے کہ وہ کچھ عربی اشعار سُنائے تو شاہ عبدالعزیز جواب میں کہتے ہیں کہ نہیں ہندوی موسیقی زیادہ مزا دیتی ہے، ہندوی موسیقی وہ گائے، شاہ عبدالعزیز کو وہ قوال ہندوی گیت سُنتا ہے، شاہ عبدالعزیز بہت محظوظ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کے سر کا درد اس موسیقی کو سُن کر ختم ہوگیا-وہ اپنے سر کے گرد بندھا کپڑا کھول دیتے ہیں- یہ سارا واقعہ مدرسہ رحیمیہ دہلی میں پیش آیا-

جیسے غالب پنشن کی بحالی کے لیے انگریز سرکار کے دربار کلکتہ میں خوار ہوتے پھرے، ایسے ہی انگریز سرکار کے دہلی میں تعینات ریذیڈنٹ افسر دہلی نے شاہ عبدالعزیز کو مغلیہ دور میں ملی مدد معاش کی مد میں ملی زمین کو چھیننا چاہا، شاہ صاحب نے مقدمہ لڑا اور وہ کم از کم غالب سے کہیں زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئے کہ مقدمہ جیت گئے اور اُن کو فریزر جیسا دوست بھی مل گیا- کتاب میں اور بہت کچھ ہے پڑھنے کے لیے- 585 فل اسکیپ کے صفحات پر مشتمل کتاب میں اسکرپٹ کا مشکل سے 12 کا انگریزی فونٹ ہے اگر یہ 14 یا 16 ہوتا تو یہ کم از کم بارہ سو صفحات پر پھیل جاتی- پاکستان میں یہ کتاب 2004ء میں سہیل اکیڈمی لاہور نے شایع کی تھی جو اب آؤٹ آف پرنٹ ہے-

About The Author