آگے بڑھنے سے قبل عرض کئے دیتا ہوں کہ دیگر اہم موضوعات بلاشبہ ہیں لیکن دنیا کیساتھ وطن عزیز کو کورونا وائرس کی وجہ سے جس صورتحال کا سامنا ہے اس کے حوالے سے معروضات بہت ضروری ہیں۔
تین روز قبل وزیراعظم نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان کیا۔
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں مختلف شہروں میں مقیم دوستوں سے رابطے پر آگاہی ہوئی کہ آج پچھلے دنوں سے زیادہ ٹریفک سڑکوں پر ہے اور لوگ بھی۔
فقیر راحموں کی بات کڑوی ضرور ہے لیکن حقیقت کے قریب ہے، ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو اجتماعی خودکشی کے راستے پر دکھیل دیا گیا ہے۔
عجیب نفسا نفسی ہے، کوئی بھی (حکومت اور شہری) اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ اگر انفرادی اور اجتماعی طور پر سنجیدگی اور احتیاط کا مظاہرہ نہ ہوا تو جو نتائج برآمد ہوں گے ان کا ذمہ دار کون ہوگا اور یہ کہ اصلاح احوال کی صورت کیا ہوگی۔
نرم سے نرم الفاظ میں عرض کروں تو فی الوقت ایک ملک میں نصف درجن ممالک دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
وفاق اور صوبوں خصوصاً وفاق اور سندھ کے درمیان تو پانی پت کا معرکہ برپا ہے
اس معرکہ کا رانا سانگا کون ہے اور احمد شاہ ابدالی کون، فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں البتہ یہ عرض کر دینا ازبس ضروری ہے کہ جب سندھ کا گورنر ہاؤس اپنی ہی صوبائی حکومت کو ہر قیمت پر ناکام بنانے کیلئے مخالف فریق کی چھاؤنی بنا دیا گیا ہو تو شکوہ کس سے؟
خیر چھوڑیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں، پچھلے دو دنوں کے دوران کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں پاکستان 24ویں نمبر سے 22ویں نمبر پر آگیا ہے۔ صرف جمعہ 8مئی کو ملک میں حکومتی رپورٹ کے مطابق 1908 اور صحافتی ذرائع کے مطابق 2039نئے مریض سامنے آئے۔ حال ہی میں خصوصی پروازوں کے ذریعے بیرون ملک سے لائے گئے پاکستانیوں میں 78فیصد کورونا وائرس کے متاثرہ نکلے۔
مجموعی طور پر 27ہزار کورونا مریض ہیں اس وقت ملک میں جمعہ کو 22افراد جان کی بازی ہار گئے، اب تک 615اموات ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں لاک ڈاؤن مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا
”اگر شہریوں نے احتیاط نہ کی، کورونا وائرس پھیلا تو ہم دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جاسکتے ہیں“۔
بہت ادب سے کہوں ابتداء سے اب تک لاک ڈاؤن پر اس کی روح (تقاضوں) کے مطابق عمل نہیں ہوا، پچھلے مرحلے میں جب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا تھا تو ملک میں مریضوں کی تعداد 10ہزار کے قریب تھی، اب مزید مرحلہ وار لاک ڈاؤن کھولنے کے اعلان پر عملدرآمد کے دن 27ہزار مریض ہیں۔
یعنی بارہ دنوں میں 17ہزار مریض بڑھے۔
ان حالات کے باوجود اگر لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے تو یقیناً ارباب اختیار نے کچھ تو سوچا ہی ہوگا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ ملک میں کورونا وائرس کے مریضوں میں سے مجموعی طور پر 84فیصد کو یہ وائرس مقامی طور پر لگا ہے، مقامی طور پر پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بے احتیاطی ہے۔
طبی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ علامات کے بغیر مقامی طور پر سامنے آنے والے کیسز زیادہ ہیں، دوسری طرف ہم وزیراعظم کے اس اعلان کہ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کی جا رہی ہے کو چاراور کے حالات کی روشنی میں دیکھیں تو بلوچستان اس اعلان سے قبل ہی لاک ڈاؤن میں 15دن کا اضافہ کر چکا تھا۔
اب بھی پنجاب حکومت صوبہ کے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی پر آمادہ نہیں۔
سندھ محدود پیمانے پر آمادہ ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان بھی محدود شہری وکاروباری سرگرمیوں کی اجازت دینے سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں۔
یہاں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی داروں اور دوسرے کچلے ہوئے طبقات کے حالات کی داستان الم سنائی جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت نے حالیہ دنوں میں سرمایہ داروں کو ریبیٹ اور ریلیف پر جو اربوں روپے کی ادائیگی کی وہ کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کر دی جاتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو حکومت ماچس تک پر ایک عام صارف سے ٹیکس وصول کرتی ہو اس نے اب تک اپنے شہریوں کیلئے کیا کیا ہے؟
ہمیں کھلے دل سے یہ بات تسلیم کرلینا چاہئے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان عدم اعتماد اور چند دوسرے مسائل کی وجہ سے یکسوئی دیکھنے میں نہیں آئی، اس عدم تعاون کے شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
خود شہریوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، وہ اب بھی اسی چورن کی پھکی پر گزارا کر رہے ہیں کہ گرمی بڑھنے سے کورونا وائرس مرجائے گا۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وزیراعظم نے دس بارہ دن قبل خود یہ بات کہی تھی کہ کورونا وائرس کے حوالے سے 10مئی سے 25مئی تک کا عرصہ خطرناک ہے۔
پھر 9مئی سے لاک ڈاؤن مرحلہ وار کم کرنے کا فیصلہ کیوں؟ لاک ڈاؤن کے اثرات سے انکار نہیں مگر کیا مرحلہ وار کمی کئے جانے سے اور وہ بھی خطرے والے دنوں میں اس کے پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے؟
خاکم بدہن صورتحال بگڑی تو کیا ہوگا۔ ان دنوں فقط کورونا وائرس ایک مسئلہ نہیں دوسرا مسئلہ بدترین مہنگائی ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں سو فیصد عدم توازن سے پریشان حال شہری اگر شکوہ کرتے ہیں تو درست ہے۔
مکرر عرض ہے لوگ یہ کیوں محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت نے انہیں کورونا اور حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے؟
وزیراعلیٰ پنجاب نے وفاقی حکومت کو تحریری طور پر کہا ہے کہ بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی نہ کی جائے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں وفاق کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے فکر ہورہی ہے لیکن عمل کریں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ کورونا اور لاک ڈاؤن نے سماجی وکاروباری معمولات کو متاثر کیا ہے، خوش آئند بات ہے کہ ان حالات میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے ادارے اور مخیر حضرات میدان عمل میں ہیں۔
بہت ادب کیساتھ ہم وطنوں سے یہ درخواست کرنا ازبس ضروری ہے کہ امسال عید الفطر سادگی سے منائیں، عید کی خریداری کی بجائے اس رقم سے کسی مستحق بہن بھائی کی مدد کیجئے۔
زکوٰۃ وصدقات اور فطرانہ روایتی اداروں کو دینے کی بجائے اپنے چاروں طرف نظر دوڑا کر کسی مستحق خاندان کی مدد کیجئے، یہ وقت ہے ایک دوسرے کے کام آنے کا حق بندگی ادا کرنے کا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر