دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ رنگ لائبریری ، مسلم بازار، ڈیرہ۔۔۔ عباس سیال

یہ اَسّی کی دھائی کی ایک بلیک اینڈ وائٹ جھلک تھی کہ جہاں ملک بھر میں کھلی لائبریریاں اُس عہد کے سماجی اُپچ کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی تھیں

”میڈا ہک کم تاں کرچا۔۔ کیرا کم؟ ہولے الا۔ اچھا ڈسا کیرا کم؟۔ ایویں کر، پنج رنگ لائبریری تے ونج کے اِیں مہینے دا پاکیزہ تے شعاع تاں گھن آ۔ ٹھیک ہے میں تیڈے رسالے تاں گھن آساں مگر میکوں اٹھ آنے ضرور ڈیسیں“۔۔

میری آنکھوں کے پردے پر آج بھی ماضی کی بلیک اینڈ وائٹ فلم چل رہی ہے۔ گھر کا آنگن ہے، اماں رات کے کھانے کے برتن سمیٹ چکیں، برآمدے میں بان کی چارپائیاں بچھائی جا چکیں اورچارپائیوں کی دائیں بائیں جانب گھومتا گھر ر گھرر کی آوازیں نکالتا پنکھا اپنے اپنے حصے کی ہوا بکھیرنے لگا، اسی اثناء میں میری باجی اپنی سفید چُنی کے کونے میں لگی گانٹھیں کھول کر اڑھائی روپے نکال کر مجھے تھماتی ہے،جسے مٹھی میں دبائے میں گھر سے باہر نکل آتا ہوں۔ شام کے دھندلکے میں بازار کا منظردکھائی دے رہا ہے، ماما مٹھو اپنی بچی کھچی سبزیوں کو سمیٹ کر دکان کے اندر سونے کی تیاری کر رہا ہے اور چاچے سدُو کی دکان پر بیٹھے بٹیرے باز خوش گپیوں میں مصروف ہیں، میں گلی جمنداں کے سامنے سے گزر کر ڈاکٹر امان اللہ کلینک تک پہنچتا ہوں اور پھر وہا ں سے سیدھی کروٹ لے کر مسجد نظام خان(پتھری مسیت) والی گلی میں داخل ہو جاتا ہوں۔

وہی گلی جس کے دائیں جانب تھلی پر صادق صبح سویرے اپنے چھولوں کا جستی تھال سجائے بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔میں چند قدم چل کر مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے والی دکان کے اندر داخل ہوتا ہوں اور شوکیس کے سامنے کھڑا ہو جاتاہوں۔

شوکیس کے پیچھے کھڑا کوئی نفیس شخص کسی گاہک کو کتابیں دینے کے بعد رجسٹر پر اندراج کررہا ہے، قلم چلانے کے ساتھ ساتھ ا س کے صبیح چہرے پر دھیمی سی مسکان دکھائی دے رہی ہے۔

گاہک کے چلے جانے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوتاہے، میں جلدی سے اپنی بند مٹھی کھول کر تُرڑے مُرڑے نوٹ اس کے سامنے شوکیس پر بکھیر دیتا ہوں، اسی اثناء میں ایک اٹھنی شوکیس سے پھسل کر نیچے گر جاتی ہے۔ وہ شخص کھنکھناتے سکے کی پرواہ کیے بغیر مجھ سے پوچھتا ہے، کتنے پیسے ڈَٹھے گین؟ ہک اٹھانی ڈھے گئی ہے تے اے باقی دے ڈُوں روپے۔ کوئی گال نیں میں اٹھانی بعد وِچ گول گھنساں۔

غرض اڑھائی روپے کے عوض میں نئے ماہ کا پاکیزہ، شعاع اور ساتھ ہی بچوں کی کہانی لے کر واپس گھر میں داخل ہوتا ہوں اوربہن کے ہاتھوں میں رسالے تھما کربڑے مزے سے یونس پنکھے کے سامنے بچھی چارپائی پرلیٹ کر عمرو عیار کی زنبیل میں قید ہو جاتا ہوں۔

یہ اَسّی کی دھائی کی ایک بلیک اینڈ وائٹ جھلک تھی کہ جہاں ملک بھر میں کھلی لائبریریاں اُس عہد کے سماجی اُپچ کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی تھیں۔ ہمارا دور اس لحاظ سے واقعی خوش بخت تھا کہ جب پانچ رنگ لائبر یری بالمقابل مسجد نظام خان ڈیرہ اسماعیل خان جیسے چھوٹے سے شہر کی علمی و ادبی پہچان گردانی جاتی تھی، جہاں مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد ایک،دو روپے کے عوض کتابیں ادھار لے کراپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔خلیل نشتر صاحب اس لائبریری کے روح رواں تھے، جو پیشے کے اعتبار سے میٹر ریڈر تھے مگر اندر سے ایک پرخلوص انسان تھے کہ جنہوں نے اپنی تنخواہ سے کچھ بچت کرکے پانچ رنگ لائبریری کے نام پر ایک علمی و ادبی پوائنٹ کی بنیاد رکھی تھی اور وہ کسی مادی نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر اُس عہد کی نوجوان نسل کی ذہنی نشو ونما کر رہے تھے اوراسی غرض سے وہ سرِشام اپنی لائبریری کھول کر بیٹھ جایاکرتے تھے۔وجیہہ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ اور دھیمے مزاج کے نرم خو، شرمیلے خلیل صاحب ڈیرہ کی پہلی شخصیت تھے جنہیں کلین شیو واقعی جچتی تھی۔

پانچ رنگ لائبریری کے شیلفوں پردھری بچوں کی کہانیاں، جاسوسی و تاریخی ناولز، تفاسیر سے لے کر احادیث، نثر سے شاعری تک غرض اردو کے نامور ادیبوں کی سینکڑوں کتابیں وہاں موجود تھیں۔ اپنے انتخاب کے حوالے سے یہ ایک شاندار لائبریری تھی جہاں ہر عمر اور جنس کیلئے اس کی پسند کی پڑھنے کی کتاب موجود تھی۔

پرائمری سکول کے دور تک ہم جیسے بچوں کا علم صرف درسی کتب تک محدود تھا اور وہ بھی استاد شیرو کے خوف سے ہم درسی کتب پڑھا کرتے تھے مگر پانچ رنگ لائبریری واحد مقام تھا کہ جہاں ایک اٹھنی سے ادھار پر لی گئی کہانیوں نے ہمیں نہ صرف طلسماتی دنیا کی سیر کروائی تھی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوق پروان چڑھنے لگا تھا۔واقعی ڈیرہ میں ادب کی نگہداشت کا سہرا پانچ رنگ لائبریری کے سر جاتا ہے کہ جس کے طفیل غیر ارادی طور پرشہر کے باسیوں کے ا دبی سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔

طلسم ہوشربا،جادو نگری،حاتم طائی،چلوسک ملوسک، دیواور شہزادی،دو جڑواں بھائی آنگلو بانگلو اور ٹارزن کی ساری کہانیاں پڑھنے کے بعد ہم سب وظیفے کے امتحان میں غرق تھے کہ ایک دن اپنے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھے کلا س فیلو غلام سرور کو درسی کتاب کے اندر ایک موٹا رسالہ چھپا کر پڑھتے دیکھا تو مارے تجسس کے اس سے پوچھ لیا۔ سرور اے کیری کتاب ہے؟۔ سرور نے استاد سعید کے خوف سے سر اوپر اٹھا کر پہلے ادھر ادھر دیکھا اور پھر دھیرے سے بولا۔اے ہک یسوسی ناول ہے۔اے یسوسی کیا ہوندے؟ عمران سیریز دا ناول ہے جیندے وِچ عمران ہک یسوس ہے تے اوہ بہوں چلاک بندے۔ سرورکیا تم مجھے یہ ناول دے سکتے ہو؟۔غلام سرور اگرچہ میرا اچھا دوست تھا مگر اس کی مجبوری کہ وہ شیخ تھا، اسی لئے اس نے مجھے ناول دینے کی بجائے مفت مشورہ دیا۔ توں پنج رنگ لا ئبریری تے ونج کے ادھاری کتاب گھن چا۔اُسی دن میں نے بھی ٹھان لی کہ اب عمران سیریز پڑھ کر ہی دم لوں گا۔ سکول کیلئے جو پیسے ملتے تھے اسے جمع کرکے تین دن بعد پانچ رنگ لائبریری سے عمران سیریز کا ناول لے کر آیا اور پھر یہی ناول مجھے طلسم ہوشربا سے نکال کر ایڈونچر کی دنیا میں لے گیا، لیکن عمران سیریز کے ایک دو ناولز پڑھنے کے بعد دل بھر گیا کیونکہ مجھے تجسس سے زیادہ تاریخ سے دلچسپی تھی،چنانچہ نسیم حجازی کے سارے ناولز آخری چٹان، شاہین، داستان مجاہد اور تلوار ٹوٹ گئی پڑھ لئے، غرض اسلامیہ سکول پہنچنے تک سال ڈیڑھ کے عرصہ میں پانچ رنگ لائبریری میں اپنی پسند کی کچھ کتابیں پڑھ لیں۔

خلیل صاحب خاص رعایت کرتے ہوئے یہ کتابیں ایک دو روپے میں دیتے تھے اور پھر اسلامیہ سکول کی لائبریری کے انچارچ صادق تبسم صاحب کہ جن کے طفیل سکول کی لائبریری سے بھی کتابیں مستعار لے کر پڑھنے کا موقع ملا۔فکشن سے تاریخ، تاریخ سے عنایت اللہ کی سچی اور حقیقی کہانیوں پر مبنی ماہنامہ حکایت۔۔ یہ سفر آہستہ آہستہ چلتا رہا۔

اُس دور میں خواتین ڈائجسٹوں کی بھی بڑی مانگ تھی۔ پاکیزہ، کرن، حنا، شعاع، آداب عرض، جواب عرض، سسپنس ڈائجسٹوں کیلئے عورتیں بے تاب ہوجایاکرتی تھیں۔ خواتین نئے ماہ کا نیا نکور ڈائجسٹ خلیل کی لائبریری سے ادھار لیتیں اور وہی ڈائجسٹ محلے بھر میں گھوم پھر کر خلیل صاحب کی دکان پرانتہائی ضعیف حالت میں واپس پہنچتا، چونکہ وہ نفیس طبع انسان تھے اسی لئے جرمانہ وصول کئے بغیرڈائجسٹ واپس لے لیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ ان کی طبیعت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے اور کتابیں واپس نہ کرتے۔انہیں کئی بار اپنی سائیکل پر قارئین کے گھروں میں جا کر کتابیں بازیاب کرتے بھی دیکھا گیا، بالآخرتنگ آکر انہوں نے کتابوں پر تنبیہی نوٹس چپکادیا جس میں قاری کو کسی حدیث کا حوالہ دیا جاتا کہ کتاب ایک امانت ہے اور امانت میں خیانت مسلمان کا شیوہ نہیں، لیکن چونکہ ان دنوں عوام کی گردنوں پر ضیائی طوق مسلط تھا اور حکومت سماجی ترقی، کتاب اور علم دوست معاشرے کو پروان چڑھانے اور معالعے کو فروغ دینے کی بجائے کلاشنکوف کلچر پر اندھا دھند انوسٹمنٹ کر رہی تھی، اسی لئے خوف خدا، حقوق العباد اورکتاب دوست سماج آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔بالآخر نہ وہ نسل باقی بچی، نہ پانچ رنگ لائبریری اور نہ ہی مطالعہ کرنے والے قارئین۔پانچ رنگ لائبریری کب اور کیسے ختم ہوئی پتہ نہ چل سکا۔۔کچھ دن پہلے وٹس ایپ گروپ ”باب العلم“کی ایڈمن اورہماری ادبی بہن ثناء نوشین صاحبہ نے خلیل نشتر صاحب کا ذکر کیا تو مجھے پانچ رنگ لائبریری کی یاد آئی کہ جسے عنقا ہوئے عشرے بیت گئے۔ اس موقع پرہمارے ایک عزیز دوست بشیر سیماب جو اس قسم کے سماجی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں انہوں نے کافی تگ و دو کے بعد خلیل صاحب کو کھوج نکالا۔۔خلیل صاحب آج کل اسلامہ کالونی میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم ہیں۔بشیر سیماب کی مرہون منت خلیل صاحب سے بات چیت کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ پا نچ رنگ لائبریری جو ایک زمانے میں ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ اور خلیل صاحب کی پہچان ہوا کرتی تھی بدقسمتی سے معاشی مسائل کی بھاگ دوڑ میں انہیں لائبریری کو ختم کرناپڑااور ہم سب ایک قیمتی اثاثے سے محروم ہو گئے۔اس موقع پر میں نے انہیں برملا کہا کہ اندرون شہر ڈیرہ کی ادبی تاریخ پانچ رنگ لائبریری اور خلیل نشتر صاحب کے حوالے کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم جیسے کئی لوگ آج جن ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑ کر کچھ نہ کچھ لکھنے کے قابل ہوئے ہیں یہ سب پانچ رنگ لائبریری کی مرہون منت ہے۔نہ جانے کیسی کیسی شاندار روائتیں تھیں جو ایسے غائب ہو ئیں کہ گویا کبھی تھی ہی نہیں۔

About The Author