نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سعادت حسن منٹو کی 108ویں سالگرہ

عورت بھی منٹو کی تحریروں کا اہم موضوع رہی ۔ وہ برائیوں پر نشتر چلاتے اور معاشرتی اتار چڑھاو کو زیب قرطاس کرتے

بے باکی، بے خوفی اور پر اثر انداز تحریر۔ منٹو نے اپنی تحریروں سے معاشرے کو آئینہ دکھایا، اس لیے باغی ٹھرے ۔ منٹو نے اردو افسانے کو نئی زندگی عطا کی ۔منٹوکی 108ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

انہوں نے ساری زندگی ، اپنے کرداروں اور افسانوں میں بانٹ دی ۔ منٹو کی مشہور تخلیقات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، نمرود کی خدائی، سڑک کنارے اور دھواں نمایاں ہیں ۔ منٹو  نے کیا خوب کہا کہ اگر ان کے افسانے قابل  برداشت نہیں تو یہ معاشرہ بھی قابلِ برداشت نہیں ۔

اردو ادب کا ذکر  سعادت حسن منٹو کے بغیر ناممکن ہے ۔ انہوں نے اردو افسانے کو نئی جہت عطا کی ۔

معاشرتی ناانصافی، ظلم اور انسانی جذبات ۔ منٹو کا قلم ان موضوعات پر اٹھا تو شاہکار تخلیق پائے ۔

چھ دہائیوں سے زائد عرصہ بیت گیا ۔ ان کی تحریریں  آج بھی سماج کے سامنے آئینہ لیے کھڑی ہیں ۔

عورت بھی منٹو کی تحریروں کا اہم موضوع رہی ۔ وہ برائیوں پر نشتر چلاتے اور معاشرتی اتار چڑھاو کو زیب قرطاس کرتے

 ان کی کئی تحریروں میں عورت کی بے بسی اور مرد کی بے حسی نظر آتی ہے ۔

برصغیر کی تقسیم کے واقعات کو بھی انہوں نے اپنی تحریروں کا حصہ بنایا اور ایسا لکھا جسے لکھنے کی جرات منٹو کے علاوہ کسی میں نہ تھی ۔  

 منٹو کا قصور صرف یہ رہا کہ انہوں نے انسان کو اس کا اصل چہرہ دکھانا چاہا ۔ اس جرم کی پاداش میں انہوں نے مقدمے بھی بھگتے ۔ انہیں فحش نگار بھی کہا گیا ۔

منٹو نے دوسروں کے غم خود کو لگا رکھے تھے اور ساری زندگی آسودگی ان سے دور دور  ہی رہی ۔

ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی جاری رہا ۔

پاکستان میں ان پر بنی فلم میں ان کی مختصر زندگی کا احاطہ کیا گیا ۔ ان پر ڈرامے بھی بنے ۔

صرف ملک میں نہیں پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان کی خدمات کو مانا گیا ۔ فلم کی صورت ان کی زندگی کو پیش کیا گیا ۔

بیالیس برس کی مختصر زندگی میں انہوں نے ڈھائی سو سے زائد افسانے ، ناول ، ڈرامے ، خاکے اور بیسیوں کالم لکھے ۔

ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائےاورمنٹونہ مرے”منٹو کے یہ الفاظ خوش فہمی پر منبی نہیں تھے،وقت نے ثابت کر دیا کہ منٹو آج بھی زندہ ہے ۔

لاہور میں آسودہ خاک منٹو نے اپنے کتبے کی تحریر بھی خود لکھی تھی ۔

اردو کےعظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو ان کے 108ویں یوم پیدائش پر گُوگل نے اپنے ڈوڈل کا حصہ بناتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

اپنے اطراف پھیلی ہوئی سچائیوں کو افسانوں اور خاکوں کا حصہ بنا کر امر ہو جانے والے سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 کو بھارت کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی۔

1921 میں ایم او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخلہ لیا۔ پاکستان بننے کے بعد منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں اور بو سمیت کئی بہترین افسانے تخلیق کیے جو اردو ادب کے افق پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔

ان کے افسانوں پر مقدمے بھی چلے لیکن منٹو اُن سے بری ہو گئے، منٹو کہتے تھے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے، اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا انتقال 42 برس کی عمر میں 18 جنوری 1955 کو ہوا مگر وہ اپنی تحریروں کے حوالے سے دنیائے ادب میں سدا زندہ رہیں گے۔

About The Author