دُنیا بھر میں کورونا کے وار جاری ہیں ۔ہرسُو کورونا سے متعلق ہی خبریں گردش کرتی پائی جاتی ہیں۔ہر ملک اپنے تئیں ،اس وباء سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔زمین کے ہر خطہ کے انسان اس وباء کی بدولت خوف میں مبتلا ہیں۔
یہ خوف اُس وقت وہاں دوچند ہو جاتا ہے ،جہاں کے ممالک کورونا وباء کی روک تھام میں بے بسی کا مظاہرہ یا غلط فیصلے کررہے ہوں۔یہ غلط فیصلے ،گھبراہٹ ،عجلت،بغیر منصوبہ بندی و ناقص حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر سیاسی تنازعات تعصبات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور عوام کو گہرے زخم دے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی کورونا وبا سے نمٹنے میں غلط فیصلے کیے گئے ،جس کا خمیازہ جانی و مالی خسارے کی صورت نکل رہا ہے ، مستزادخوف اور بے یقینی کا عذاب ۔ یہ وباء ہمارے ہاں دیگر ممالک کی طرح باہر سے آئی۔
جو لوگ باہر سے اس کو لے کرآئے ،اُن پر مکمل کنٹرول نہ ہوسکا،جس کے نتیجے میں یہ وائرس مقامی سطح پر منتقل ہوا ۔ کورونا کا مقامی انتقال ،بتدریج ہوا،لیکن سیاسی قیادت نے فیصلے بتدریج نہ کیے۔لاک ڈائون کا فیصلہ جلدی کر لیا گیا،کاروبار بند کرنے کا فیصلہ عجلت میں ہوا،تعلیمی ادارے بھی وقت سے پہلے بند کردیے گئے۔اس کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار طبقہ کے لیے ہمارے سینے میں ’’درد‘‘قبل ازوقت اُٹھا،یوں راشن کی تقسیم بے وقت شروع ہوئی۔جس لمحے ،باہر سے آنے والوں کو،جو کورونا وائرس لے کر آرہے تھے ، قابو کرنا چاہیے تھا،ہماری توانائیاں ،اگلے فیز پر صَرف ہوناشروع ہو چکی تھیں۔ا
گر ہماری سیاسی قیادت اُس وقت صرف اور صرف اس پہلو پر فوکس کرتی کہ کورونا وائرس کو مقامی سطح پر منتقل نہیں ہونے دینا تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔لیکن جس روز پہلا مریض کراچی اور پھر اسلام آباد میں سامنے آیا ،ہمارے ہاں پریس کانفرنسیں شروع ہوگئیں،کبھی وزیرِ اعلیٰ ،بلوچستان ،کبھی وزیرِ اعلیٰ سندھ اور کبھی ہمارے وزیرِ اعظم ٹی وی سکرین پر آتے اور قوم کو کورونا سے متعلق ’’اعتما د‘‘میں لیتے۔اس سارے عرصہ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا کہ سند ھ کے وزیرِ تعلیم سعید غنی ٹی وی سکرین پر دکھائی نہ دیے ہوں ۔
سعید غنی کے پاس ہر شعبے کی معلومات اور ہر مسئلے کا حل ہے؟جن دِنوں ،اِن کا اپنا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا،یہ اُن دِنوں بھی ٹی وی سکرین پر ہی موجود رہے ۔کہیں کوئی کیس نکل آیا،کسی کا ٹیسٹ نہیں ہوا،کسی کو وینٹی لیٹر نہیں ملا،کسی کو قرنطینہ میں جگہ نہ ملی ،سعید غنی وضاحت دینے کے لیے موجود ہوتے۔مجھے تو اِن میں صرف ایک ہی خوبی نظر آئی ،وہ ہے ،بے تکان بولنا۔
ایسا ہی معاملہ وفاقی وزیر اسد عمر کا ہے۔اب ہر شعبے کے مسئلے کا حل اِن کے پاس ہے ۔ سیاسی قیاد ت کے غلط اور بے موقع فیصلوں نے اس ملک کے عوام کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔جس لمحے لاک ڈائون سخت کرنا چاہیے تھا ،اُس وقت ،یہ مرحلہ وار کھولا جارہا ہے۔
ذرا ملاحظہ کریں کہ26 فروری کو2مریض سامنے آئے تھے،ایک کا تعلق کراچی سے جبکہ ایک اسلام آباد میں زیرِ علاج بتایا گیا،دونوں ایران سے آئے تھے۔اُسی روز بلوچستان اور سندھ کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے تھے۔اُس وقت تک ڈبلیو ایچ او نے اس کو عالمی وبا ء قرار نہیں دیا تھا۔اُس روز تک چین میں52 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
پاکستان میںیکم مارچ کومریض4تھے،جبکہ موت کوئی واقع نہیں ہوئی تھی۔12 مارچ ،کراچی میں کرونا کی وجہ سے پی ایس ایل میچز بغیر تماشائیوں کے کروانے کا فیصلہ ہواتھا۔15 مارچ کو33 مریض،جبکہ ایک بھی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔اسی دن انٹرنیشنل پروازیں منسوخ کی گئیں،چڑیا وعجائب گھر بند کیے گئے۔20 مارچ کراچی میں پہلی ہلاکت ہوئی اور تین دن کے لیے سندھ میں لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا۔اسی دن وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لاک ڈائون کا فیصلہ نہیں کیا۔
اسی روز بلوچستان میں مارکیٹ اور ٹرانسپورٹ کو بند کردیا گیا۔22 مارچ پنجاب اور بلوچستان میں فوج طلب کی گئی ،سندھ میں 15روز کے لیے لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا۔خیبر پختونخواہ میں پبلک ٹرانسپورٹ7 روز کے لیے معطل کی گئی ۔
اُسی روز وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام رضاکارانہ طورپر لاک ڈائون کر لیں۔اُس وقت تک اموات 5ہوئی تھیں جبکہ کل مریض 776 تھے۔31مارچ ، اموات24، مریض1717تھے۔15 اپریل اموات ، 106، جبکہ مریض 5976تھے ۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دوہفتے مزید لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا ،مگر کئی صنعتوں کو کھول بھی دیا گیا،ان میں سیمنٹ، بجری ،ریت بنانے والے یونٹس، ایکسپورٹ انڈسٹری، کھاد، شیشہ، کی صنعتیں اور ای کامرس سافٹ وئیر ہائوسز کو کھولا گیا۔ اُسی روز مفتی تقی عثمانی ،مفتی منیب ودیگر علماء نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کا مساجد کھولنے اور باجماعت نماز پر اتفاق ہوا ہے۔
30اپریل ،اموات343 ،مریض 15500،اسی روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کورونا کیسز ہمارے اندازے سے کم ہیں ،پابندیاں نرم ہو سکتی ہیں۔جس وقت اسد عمر کم کیسز کی ’’خوش خبری‘‘سنا رہے تھے،مریض 15ہزارسے تجاوز کرچکے تھے۔
9مئی کے دِن لاک ڈائون مرحلہ وار کھولنے کا آغاز ہوا،اُس وقت مریضوں کی تعداد27035،جبکہ اموات611تھیں۔ یہ مرحلہ وار اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ31 مارچ کے بعد ہمارے ہاں اس وباء میں شدت آنا شروع ہوئی ،جبکہ مارچ کے مہینے میں زندگی کو معمول پر چلا نا چاہیے تھا ،اس سے افراتفری بھی نہ پھیلتی اور لوگ گھروں میں بے روزگار ہو کر بھی نہ بیٹھ جاتے اور وائرس کی مقامی منتقلی کو بھی روکنے کی طرف بھرپورتوجہ دی جاسکتی۔
علاوہ ازیں مسائل کو سمجھنے اور بہترین حکمتِ عملی کا موقع بھی بہم میسر آجاتا،یوں فیصلے عجلت میں نہیں ،موقع کی مناسبت سے کیے جاسکتے تھے۔جبکہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کورونا وائرس چھیاسی فیصد مقامی سطح پر منتقل ہو چکا ہے اور لاک ڈائون ختم کیا جارہا ہے ،غریب آدمی کے پاس روزگار نہیں اور راشن بھی ختم ہو چکا ہے ،اب راشن دینے والے بھی کسی حد تک تھک چکے ہیں۔چھبیس فروری سے پندرہ اپریل تک فاقوں کی خبریں نہیں تھیں،اب یہ اطلاعات مسلسل آرہی ہیں۔ کاش! سیاسی قیادت بہترین اور تعصبات سے پاک فیصلوں کی قوت کی حامل ہوتی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر