ہم نے مسلم دانشور اسکالر انجینئر محمد علی مرزا پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153-اے کے تحت درج مقدمے میں گرفتاری کی شدید مذمت کی اور تحریک منھاج القرآن کی مرکزی قیادت تک پیغام بھی پہنچایا کہ وہ اپنے کارکنوں کو تکفیر اور بلاسفیمی کارڈ کھیلنے سے منع کرے-
میں نے اُس وقت تک انجنیئر محمد علی مرزا کے چند ایک ہی وڈیو لیکچرز سُنے تھے- اور میرا خیال تھا کہ وہ جیسے خود استدلال اور غیرجذباتی انداز میں کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوں گے، اُن کے پیروکار بھی ایسا ہی شائستہ طرز عمل رکھتے ہوں گے- لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایک تو مرزا صاحب کی اب کئی ایک اور وڈیو لیکچرز کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مرزا صاحب کے ہاں زعم علم اتنا ہے کہ وہ غرور و تفخر میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں- اُن کے ہاں دوسرے اہل علم، دانشور، علماء، اسکالرز اور دیگر مکاتب فکر کے ماننے والے سب کے سب بے عقل، جاھل، عقل سے کورے اور انتہائی فضول لوگ ہیں- اُن کے آفیشل یوتیوب چینل سے ایک نئی ویڈیو جاری ہوئی ہے جس کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی عقل و دانش رکھنے والا شخص مرزا صاحب اور اُن کے ادارے کی سوچ اور اس حرکت کی شدید مذمت کیے بغیر نہیں رہے گا-
اس ویڈیو میں اُن کا ایک نوجوان پیروکار جس طرح سے بریلوی، دیوبندی اور اھلحدیث عوام الناس اور اُن کے علماء کی تضحیک کررہا ہے اور جس اشتعال انگیزی کے ساتھ وہ گفتگو کررہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے-
مرزا صاحب مسلم علم کلام، حدیث، فقہ اور تاریخ کے باب میں اپنی تحقیقات کی روشنی میں کوئی بھی رائے رکھنے میں آزاد ہیں- لیکن جاری کردہ ویڈیو میں حماد چیمہ نامی نوجوان جس طرح کی اشتعال انگیزی اور قابل نفرت ہیٹ سپیچ کررہا ہے وہ تو خود قرآن پاک کے تصور جدال اور تصور موعظت کے صریحاً منافی ہے اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافی ہے- مرزا صاحب کتابی مسلم ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن حماد چیمہ کو وہ یہ درس نہ دے پائے کہ قرآن کہتا ہے
و جادلھم بالتی ھی احسن والموعظۃ الحسنۃ……
بلکہ انھوں نے ایک جاھل شخض کی گفتگو کو اپنے سرکاری یو ٹیوب چینل سے جاری کردیا-
اب اگر جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری، مولانا الیاس قادری، اور ایسے ہی دیوبندی اور اھلحدیث فرقوں کے ماننے والے جذباتی لوگ ایسی ہی باتیں کریں گے تو پھر مرزا اور اُن کے ماننے والے خود کو مظلوم ثابت کرنے لگ جائیں گے-
مرزا تصوف اور اس کے نظام کو اپنی علمی تنقید سے رد کریں، شائستہ اور علمی انداز میں مذاھب اربعہ کے فقہی سٹرکچر کی ڈی کنسٹرکشن کریں، تاریخ میں مختلف مسلم سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے قائم کردہ بیانیوں اور کلامیوں کی کمزوریاں عیاں کریں، یہ اُن کا حق بنتا ہے، ہم اُن سے یہ حق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وہ مذاھب اربعہ کے ماننے والوں کے شعائر اور اُن کے خیالات کی زلت آمیز تحقیر کرنے اور اُن کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کو بھی اپنا حق قرار دینے پر مصر ہوں گے تو پھر اُن کو جواب میں بھی ایسے ہی ردعمل کے لیے تیار رہنا ہوگا-
علمی گفتگو، مدلل مجادلے، استدلال اور عقلیت پر مبنی محاکمے کا اپنا ایک مقام ہے جو مرزا نے جہاں جہاں اختیار کیا وہاں وہاں غیر متعصب اور اہل دانش نے اُن کو داد دی، اُن کے حق اختلاف کو تسلیم کیا، لیکن اب جب کہ وہ راہ اعتدال ترک کرکے فرقہ پرستی کے اُس ڈسکورس پر چل پڑے ہیں جو ہمارے ہاں جاھل فرقہ پرست، تخریبی ذھنیت رکھنے والے مولویوں اور اُن کے پیروکاروں کا رہا ہے تو پھر اُن کو سرپھٹول کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے-
مرزا صاحب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور فہم شائستہ انداز میں پبلک کے سامنے رکھ دیں اور اُن پر فیصلہ چھوڑ دیں کہ عوام میں سے کتنے اُن کی تحقیق کو قبول کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے- عوام پر وہ اور اُن کے ساتھی داروغہ مت بنیں اور اُن کی زلت و تذلیل، تضحیک کرنے کی کوشش مت کریں، یہی راستا امن و آشتی کا ہے-
میرا دل نہیں مانتا تھا کہ میں اپنی وال پر مرزا صاحب کے یوٹیوب چینل پر پڑی اُس ویڈیو کا لنک یہاں شیئر کروں لیکن اُس ویڈیو کو پہلے ہی ہزاروں لوگ دیکھ چُکے ہیں- اس لیے کمنٹ میں وہ لنک شیئر کررہا ہوں-
مجھے نجانے کیوں علامہ ابن تیمیہ یاد آرہے ہیں جو بلاشبہ زبردست علوم کے شناور تھے لیکن اُن کی طبعیت کی حدت اور جذبات کی شدت اکثر اُن کے علم پر حاوی ہوجایا کرتی تھی اور علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ابن تیمیہ کا علم اُس کی عقل سے کہیں زیادہ تھا، اس لیے پیمانہ بار بار چھلک جاتا تھا- علامہ ابن تیمیہ تاریخ اسلامی کے ابتدائی صدی ھجری کے اپنے کچھ ممدوحین کو ہر حال میں بچانے کے لیے اسقدر بے چین ہوئے کہ اُن سے. منھاج السنۃ جیسی کتاب لکھی گئی جس میں وہ مولا علی المرتضٰی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے حق میں مستند فضائل و اکرام کی احادیث تک کا انکار کربیٹھے تھے اور پھر وہ اپنی فکر کے نفاذ اور لوگوں سے اُسے منوانے کے لیے اتنے اتاولے ہوئے کہ اُن کے بعض فتوؤں نے تکفیر کا دروازہ کھول دیا اور خوارج کی فکر کو نئی زندگی بخش دی اور پھر محمد بن عبدالوہاب نے اُن کی کسی ویران اوطاق میں پڑی کتابوں سے نظریات لیکر وہابی تحریک کی بنیاد رکھی اور آج تک تکفیری عسکریت پسند فتنے نے عالم اسلام کو لہولہان کررکھا ہے- کسی اہل علم کی زبان بگڑتی ہے تو فتنہ کی خشت اول رکھی جاتی ہے- میں امید پرست ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اور اُن کے عقل مند دوست مستقبل میں ایسی حرکتوں سے گریز کریں گے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر