دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راشد رحمان: تیرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی۔۔۔سید علی نقوی

یہ واحد موقع تھا کہ میں نے راشد رحمان کو بے بس پایا واپسی پر وہ کہتے کہ پاکستان پچاس سالوں میں یہاں پہنچا ہے

میرے والد کے رحمان فیملی سے تقسیمِ ہند سے پہلے کے تعلقات تھے تقسیم کے بعد میرے والد آئی اے رحمان اور اطہر رحمان صاحب کے گھر کچھ دن قیام پذیر بھی رہے اور پاکستان ہجرت کے بعد یہ تعلقات مزید گہرے ہوگئے، آئی اے رحمان کے چھوٹے بھائی انکل اطہر رحمان ملتان میں قیام پذیر ہوئے اور میرے والد سے انکی قربت کی وجہ دونوں کا وکالت کے شعبے سے منسلک ہونا تھا، گو کہ دونوں سیاسی طور پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے لیکن باہمی ادب و احترام کی جو حد میں نے اپنی اور رحمان فیملی میں دیکھی اسکی مثال نہیں ہے۔ میرے والد سے آئی اے رحمان کی قربت کا عالم یہ تھا کہ جب وہ والد صاحب کی رحلت کے بعد تعزیت کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے کہا تھا کہ میرا اور نقوی صاحب کا ساٹھ سال کا تعلق ہے اتنی تو لوگوں کی کُل عمر نہیں ہوتی۔

نوے کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے کہ میرے بڑے بھائی سید افتخار علی نے HRCP (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) جوائن کیا میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار میرے بڑے بھائی مجھے ایک میٹنگ میں لے کر گئے اور وہاں پہلی بار میری ملاقات راشد رحمان سے ہوئی یہ وہ وقت تھا کہ جب HRCP نے دو صوبائی ٹاسک فورسز بنائیں ایک ملتان میں اور دوسری حیدرآباد میں ملتان ٹاسک فورس کا کوآرڈینیٹر جنابِ راشد رحمان کو بنایا گیا اور اس کا پہلا دفتر ڈیرے اڈے کے ساتھ بنا جوکہ بعد میں کچہری روڈ پر شفٹ ہو گیا راشد رحمان رشتے میں آئی اے رحمان کے بھتیجے اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے، پہلی ہی ملاقات میں راشد بھائی سے بے تکلفی ہوگئی اور دوسری تیسری ملاقات تک وہ میرے بڑے بھائی اور دوست بن چکے تھے ملتان ٹاسک فورس چونکہ نئی نئی بنی تھی اس لیے بہت زیادہ لوگ تو اس سے واقف نہیں تھے لیکن ملتان کے جتنے بھی پروگریسیو لوگ تھے میں اپنے سکول کے زمانے میں ان سے واقف ہوگیا تھا اور اسکی وجہ صرف HRCP ملتان کی ہفتہ وار میٹنگز تھیں راشد بھائی ہر میٹنگ میں مجھے ضرور بلاتے آہستہ آہستہ میں نے کچھ کام کرنا بھی شروع کیا راشد بھائی نے ہی مجھے میٹنگ کے منٹ لینے سکھائے، انسانی حقوق سے متعلق ایشوز کا پتہ چلا انٹرنیشنل ہیومن رائٹس چارٹر اسی دفتر میں بیٹھ کر پڑھا ہوتے ہوتے 1997 کے الیکشنز آگئے اور HRCP نے الیکشن واچ کا کام شروع کر دیا ہمیں بتایا گیا کہ الیکشن واچ کی جائے گی ملتان اور گردونواح کے حلقوں کی تفصیلات جمع کی گئیں اور الیکشن کے دن میں، جنابِ سہیل جاوید، عمرانہ کومل صاحبہ اور محترمہ آسیہ نورین ہم راشد صاحب کے ساتھ حلقہ حلقہ گھومے تقریباً ملتان کے ستر فیصد پولنگ اسٹیشنز کو آنکھ سے دیکھا اور رپورٹس بنائیں، میں سکول کا طالب علم تھا میرے لیے سب کچھ بہت نیا اور دلچسپ تھا، اس سب میں سیکھنے کو بہت کچھ تھا، میرے آرٹیکلز جن احباب نے پڑھے ہیں وہ نوٹ کر سکتے ہیں کہ میں نوے کی دہائی کی سیاست میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں یہ دلچسپی راشد رحمان کی دین ہے ،کیونکہ وہ ایک متحرک سیاسی کارکن تھے جس کو سیاست کی سمجھ بوجھ کئی سیاست دانوں سے زیادہ تھی ۔مجھے یاد ہے کہ 97 کے الیکشنز سے مہینہ ڈیڑھ پہلے ہی راشد بھائی نے ایک دن دفتر میں بیٹھے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف اس بار بھاری اکثریت سے جیتے گا اور یہ بات تو اسی دن واضح ہوگئی تھی جس دن بی بی کی حکومت کو چلتا کیا گیا تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں راشد بھائی نے ضلعی نظام کی بحالی اور بلدیات کے الیکشن کرانے کے لیے ایک واک کی کال دی اور شاہ محمود قریشی جو کہ بعد میں ضلعی ناظم بنے اس میں شریک ہوئے۔

2005 کا زلزلہ آیا تو میں نے راشد صاحب کو ایف ایم 103 پر بلایا اور ان سے پوچھا کہ یو این ایجنسیز کہہ رہی ہیں کہ ساٹھ ہزار اموات ہو چکیں ہیں جبکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اٹھارہ ہزار اموات ہوئی ہیں حکومت اعدادوشمار غلط کیوں بتا رہی ہے؟؟ راشد بھائی نے کہا کہ بریک لے لیں اس کے بعد اس پر بات کرتے ہیں، میں نے بریک لی تو کہنے لگے کہ اس جواب کے بعد تمہیں کال آ سکتی ہے سنبھال لو گے؟؟ میں تھوڑا گڑبڑایا تو کہنے لگے کہ اگر کال آجائے تو کہنا کہ یہ تو مہمان کی رائے تھی ان سے پوچھیں، ہم آن ایئر گئے تو میں نے سوال دہرایا تو راشد رحمان نے کہا کہ صاف سی بات ہے کہ اگر صحیح تعداد بتائیں گے تو اس ستر فیصد کا حساب دینا پڑے گا کہ جو پاکستان فوج پچھلے ساٹھ سالوں سے لے رہی ہے کہ آپکے پاس ایک نیشنل کرائسس میں پندرہ ہیلی کاپٹر نکلے کہ جو دور دراز علاقوں میں پھنسے لوگوں کی مدد کو پہنچ سکیں، جبکہ بلوچستان کے علاقے وانا میں اس وقت ڈیڑھ سو ہیلی کاپٹر اپنے ہی لوگوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں، پروگرام ختم ہوتا ہے اور دس منٹ بعد ایف ایم کے دفتر میں گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں باقی روداد پھر کبھی۔۔

راشد رحمان ہی وہ پہلے آدمی تھے جو مختاراں مائی کے گھر اُس وقت پہنچے کہ جب جتوئی کو پکی سڑک بھی نہیں جاتی تھی یہ HRCP ملتان ٹاسک فورس ہی تھی کہ جس کی رپورٹنگ نے اس معاملے کو اتنا اٹھایا کہ گورنر خالد مقبول ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر جتوئی پہنچنے پر مجبور ہوئے اور اس سے نہ صرف مستوئیوں کی گرفتاری عمل میں آئی بلکہ جتوئی تک پکی سڑک بھی راتوں رات بن گئی اسکے بعد راشد رحمان کی دعوت پر آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، ماروی سرمد اور کئی نامور انسانی حقوق کے کارکن اور صحافیوں سمیت ڈیڑھ دو سو لوگوں کاروان کی صورت جتوئی مختاراں مائی کے گھر گئے اور مختاراں مائی کیس ایک انٹرنیشنل کیس بن گیا پرویز مشرف جہاں بھی دنیا میں جاتے ان سے مختاراں مائی سے متعلق سوال کیا جاتا جس سے وہ زچ ہو چکے تھے۔

یہ راشد رحمان ہی تھا کہ جس نے پرویز الہی گورنمنٹ کو اینٹیں بنانے والے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حق میں قانون سازی کرنے پر مجبور کیا راشد رحمان کو بھٹہ مزدوروں سے بیحد ہمدردی تھی، ایک بار ہم راشد بھائی کے ساتھ ایک بھٹے پر پولیس ریڈ پڑوانے کے لیے گئے اطلاع یہ تھی کہ وہاں مزدوروں سے جبری مشقت کرائی جا رہی ہے پولیس نے ریڈ کی اور چالیس مزدور بازیاب کرائے ان چالیس مزدوروں کے مدعیت میں کیس دائر ہوا اور راشد رحمان نے وہ کیس اکیلے لڑا میں اکثر راشد رحمان سے پوچھا کرتا تھا کہ کبھی پیسوں سے بھی کیس لڑا ہے تو آگے سے ہنس کر کہا کرتے کہ جس کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں وہ اچھا وکیل کرتا ہے میرے پاس تو وہی آتا ہے کہ جس کے پاس واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا اور جو لوگ راشد صاحب کو دور سے بھی جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ جب بھی انکے کچہری والے یا HRCP والے دفتر گئے تو وہ مزدوروں سے بھرا ہوا ہی ملا کسی غریب کی بیٹی اغوا ہوئی تو وہ راشد رحمان کے پاس آیا، کسی کا بیٹا جھوٹے کیس میں اندر ہوا تو اس نے راشد رحمان کا دروازہ کھٹکھٹایا، کسی کا باپ، بھائی، بیٹا مارا گیا تو وہ راشد رحمان کے پاس آیا، سدو سام کے علاقے کے بارے ایک بار راشد صاحب کو کسی نے بتایا کہ وہاں ایک مدرسے کے مولوی نے بچوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر انکو محبوس کیا ہوا ہے ہوا یہ تھا کہ ایک جانباز بچہ وہاں سے بیڑیوں سمیت بھاگ کر باہر آگیا تھا اسکو کوئی راشد رحمان کے پاس لے آیا راشد صاحب اکیلے ٹوپی پہن کر اس مدرسے پہنچے حالات دیکھے واپس آئے اور ریڈ پڑوائی جس میں ساٹھ سے زیادہ بچے بازیاب ہوئے۔

میں نے انکے ساتھ بہت سفر کیا انکے ساتھ میں نے دو بار AGM Annual General Meeting میں لاہور شرکت کی، اسلام آباد میں سیمینارز اٹینڈ کیے، جنوبی پنجاب کے کئی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں ہم گئے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کس کس طرح کا کیس راشد بھائی کے ساتھ سنا کس کس طرح کی ظلم کی داستانیں لوگ ان کو سنایا کرتے تھے اور وہ کس تحمل سے ان کو سنتے تھے یہ حوصلہ صرف اسی آدمی کا تھا ایک بار ہم خانیوال کے نواحی گاؤں گئے ایک آدمی کی گرفتاری کا معاملہ تھا پتہ چلا کہ اس نے اپنی زندہ بیوی کا پیٹ پھاڑ کر اسکا خون پیا تھا اور اسکو تڑپتا چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے جب پورا واقعہ سنا تو مجھے قے آگئی تھی راشد بھائی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ اس پر تو خون کی الٹی کرنی چاہیے تھی۔

ایک بار ہم نشتر کے برن یونٹ گئے تو وہاں پر ایک مریض تھا کہ جس کو ڈاکٹروں نے چھت سے باندھ کر لٹکایا ہوا تھا، اسکو لٹایا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اسکو اسکے بھٹہ مالک بھٹے میں ڈال جلا دیا تھا لیکن معلوم یہ ہوا کہ اسی رات اسکی موت ہوگئی۔

شانتی نگر ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں 1997 ستمبر یا اکتوبر کی بات ہے کہ خانیوال کے ساتھ ایک عیسائیوں کی بستی تھی جس کا نام شانتی نگر تھا کچھ ہوا اور اس بستی میں موجود مسیحی برادری کے گھروں کو آگ لگا دی گئی کئی جان سے گئے اور درجنوں جھلس کر رہ گئے ہم کچھ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ وہاں پہنچے تو ایک دلخراش منظر دیکھنے کو ملا کہ دیواروں پر لکھا تھا کہ ” مسیحی برادری کو پاکستان کی گولڈن جوبلی پر تحفہ شانتی نگر نظرِ آتش”۔
یہ واحد موقع تھا کہ میں نے راشد رحمان کو بے بس پایا واپسی پر وہ کہتے کہ پاکستان پچاس سالوں میں یہاں پہنچا ہے اور جنہوں نے یہ کیا ہے کوئی انکا کچھ نہیں کر سکتا انکی بات حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوئی کہ آج یہ واقعہ کسی کو یاد بھی نہیں۔

راشد رحمان اس خطے کی وہ آواز تھے کہ جو مزدور ، کسان اور عورتوں کے حقوق کی آواز تھی جس نے پوری زندگی سفید پوشی میں گزاری کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس نے اپنے پیچھے اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا اگر وہ چاہتے تو بہت پیسے کما سکتے تھے لیکن جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ کہا کرتے تھے کہ جس کے پاس کیس لڑنے کے پیسے ہوتے ہیں وہ مجھے وکیل نہیں کرتا میں اگر یہ کہوں کہ راشد رحمان وہ شخص تھا کہ جس کے دروازے صرف غریبوں کے لیے کھلے تھے تو یہ بالکل ٹھیک ہے امیر لوگوں سے انہیں باقاعدہ کوفت ہوتی تھی ہم نے HRCP کی میٹنگز میں بڑے سے بڑے سیاستدان کو جج کو، چیمبر آف کامرس کے بڑے بڑے عہدے داروں کو بڑے بڑے سرکاری افسران کو ڈی سی او، ڈی پی او، ڈی آئی جیز کو آتے دیکھا کیا جاوید ہاشمی تو کیا یوسف رضا گیلانی تو کیا فخر امام تو کیا مشاہد حسین سید لیکن کبھی راشد رحمان کو ان لوگوں کے آگے پیچھے ہوتے نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ان کو بھٹہ مزدوروں کے یا انسانی حقوق کے کارکنوں کے جھرمٹ میں دیکھا اور کبھی افسردہ اور مایوس نہیں پایا۔

میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ آپ ہر روز اتنی دکھی کہانیاں سنتے ہیں مایوسی نہیں ہوتی تو کہنے لگے کہ جب بھی میں ظلم دیکھتا یا ایسی کوئی کہانی سنتا ہوں تو مجھ میں اور توانائی آ جاتی ہے کہ ابھی میرے کرنے کا بہت کام باقی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میری زندگی میں حالات اچھے ہو جائیں یہ ممکن نہیں ہے نہ جانے کون سی نسل اچھے حالات دیکھے گی لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم جدوجہد ترک کر دیں ہمارا حصہ صرف یہی ہے کہ جس زمانے میں ہم ہیں اس میں کمزور لوگوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے رہیں اور اگر آج آپ اس آدمی کی زندگی کو دیکھیں تو وہ صرف جدوجہد سے عبارت نظر آئے گی۔2013 اپریل کے آخر کی بات ہے کہ جب میں ان سے آخری بار ملا ہم ایک کورس شروع کرنا چاہتے تھے کہ جس میں مختلف موضوعات پر ملتان کی مختلف شخصیات کے لیکچرز کا ہم نے اہتمام کرنے کا سوچا تھا میں انکے دفتر گیا خوب گپ لگی اور ان سے درخواست کی کہ ہمارے بچوں کو کچھ انسانی حقوق کے حوالے سے بتائیں جس پر انہوں نے ہمیشہ کی طرح کہا کہ ہاں جب کہو گے آجاؤں گا۔

اپنی شہادت سے چند دن پہلے انہوں نے ایک کیس کہ جس کو لڑنے کی پاداش میں ان کو شہید کیا گیا (یہ وہی کیس تھا کہ جس کو لڑنے کی کسی وکیل کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اور یہ کام راشد رحمان نے اپنے ذمے لیا) سماعت کے حوالے سے فیس بک پر ایک سٹیٹس  دیا کہ آج جیل میں سماعت تھی مخالف پارٹی کے وکیل نے مجھے کہا کہ آپ اگلی پیشی پر نہیں آئیں گے جب میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ آپ ہوں گے تو آئیں گے نا۔۔. میں نے جج صاحب سے کہا کہ دیکھیں یہ کیا کہہ رہے ہیں تو جج صاحب نے فرمایا مزاق کر رہے ہیں، لیکن چھ مئی کو ٹی وی پر خبر آئی کہ مسلح افراد نے انکے دفتر میں گھس کر ان پر گولیوں کی برسات کردی اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے جب میں نے انکی میت دیکھی تو انکا ماتھا پھٹ چکا تھا لیکن راشد رحمان مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ جو بھی ہو جائے جدوجہد ترک نہ کرنا۔

مجھے یقین ہے کہ کل جب کوئی بچہ ظلم کے خلاف جدوجہد کی تاریخ مرتب کرے گا تو وہ تاریخ راشد رحمان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو پائے گی!

About The Author