دسمبر 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولا اداس رکھ مگر، اتنی بے بسی نہ دے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی

پھر خیال آتا ہے کہ اگر دکھ کو کوئی رنگ اپنانا ہوتا تو شاید یمن شام فلسطین لبنان کشمیر افغانستان روہنگیا کی بے بسی اور بے کسی کا رنگ اپناتا

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ دکھ کا رنگ ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیسا ہوتا کیا یہ آنکھوں کو چبھتا؟ یا پھر دل کو چیرتا یا پھر کچھ ایسا پکا رنگ ہوتا جو ہاتھوں پر کسی رستے داغ کی طرح رہ جاتا۔ یا پھر ایسا کوئی رنگ ہوتا جو روح پر ہمیشہ کے لیے انمٹ گھاؤ چھوڑ دیتا لال ہوتا، کالا ہوتا، سفید ہوتا نیلا ہوتا، پیلا ہوتا یا پھر ہرا ہوتا۔ لیکن جو بھی رنگ ہوتا رہتا ہوتا تو درد ہی جو کبھی کسی کچے دوپٹے کے رنگ جیسا اٹا اٹا سا آنکھوں سے بہتا چلا جاتا۔

یا پھرکوئی ایسا دل کو لہو لہو کرکے چیردیتا۔ کبھی یہ بھی خیال آتا ہے کہ دکھ کی آنکھیں ہوتیں تو کیسی ہوتیں؟ کیا سیاہ رات کی طرح ایسی اندھیری ہوتیں جس میں کچھ نہ دکھائی دیتا یا پھر سمندر کے طوفان جیسی ہوتیں جو سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ لیکن جیسی بھی ہوتیں رہتیں تو بہرحال درد کی آنکھیں جو شدت غم سے بے حال ہی رہتیں۔ پھر سوچتی ہوں کہ اگر درد کو کبھی زبان مل جائے تو کیسی ہوگی؟ درد کی فریاد کسی ہوگی کون سا لہجہ ہوگا جو درد کو بیان کرسکے گا۔

پھر خیال آتا ہے کہ اگر دکھ کو کوئی رنگ اپنانا ہوتا تو شاید یمن شام فلسطین لبنان کشمیر افغانستان روہنگیا کی بے بسی اور بے کسی کا رنگ اپناتا۔ اگر دکھ کی آنکھیں ہوتیں تو وہ یقیناً ان معصوم بے سہارا بے کس بچوں کی ہوتیں ان ستم گزیدہ عورتوں کی ہوتیں ان مردوں کی ہوتیں جو پناہ گزین کیپموں میں سسک رہے ہیں کرونا کے عفریت نے ان کو کیا نگلنا ان کے مقدر میں تو زندہ موت لکھی ہے دکھ کی آنکھیں ہوتیں تو ان مظلوم قیدیوں کی ہوتیں جو عقوبت خانوں میں بند زندہ درگور ہیں انصاف کی اندھی دیوی کی طرف دیکھ رہی ہوتیں ہیں۔

دکھ کے رنگ دکھ ان دہاڑی دار مزدوروں کی شکل میں بھی ہوسکتے ہیں جو آج بھوکے مرنے پر مجبور ہیں۔ دکھ کی آنکھیں تو ان سفید پوشوں کی بھی ہوسکتی ہیں جن کو کسی خاموش محسن کی آہٹ کی امید ہو۔ دکھ کی زبان تو ان مسیحاوؤں کی بھی تو ہوسکتی ہے جو اس وقت اپنا آپ بھول کر کسی کی جان بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہاں مگر دکھ کے رنگ کسی فرعون وقت کے تو نہیں ہوسکتے جسے اب بھی مظلوموں کی فریاد سنائی نہ دے رہی ہو۔ دکھ کی آنکھیں دکھ کی زبان کسی نمرود کی نہیں ہوسکتیں جسے اب بھی زمین پر خدا بن کر معصوموں کی مجبوریوں پر رحم نہ آئے۔ ہاں مگر دکھ کا رنگ جو بھی ہوتا تڑپ کی آنکھیں جیسی بھی ہوتیں ہیں تکلیف کی زبان جیسی بھی ہوتی خدا سے یہ فریاد ضرور کرتیں
مولا اداس رکھ مگر، اتنی بے بسی نہ دے
کوئی کہے، خدا ہوں مٙیں، اور مجھے ماننا پڑے

About The Author