ساری زندگی مشقت کی نذر ہوگئی۔ پریشانیوں سے مگر دل کو گھبرانے کی عادت نہیں رہی۔ کھیل کود کا بچپن ہی سے عادی نہیں تھا۔ پرانے لاہور کے تمام دروازوں کے باہرباغ ہوا کرتے تھے۔ وہاں کے ایک کونے میں محلوں کے چند مخیرحضرات جسمانی ورزش کے آلات رکھ دیتے۔نوجوانوں سے اُمید لگاتے کہ وہ صبح اُٹھ کر تھوڑی ورزش کے ذریعے ’’جان بنایا‘‘ کریں۔
میں نے کبھی شغلاََ بھی ورزشی سامان کو ہاتھ نہیں لگایا۔کم عمری میں نظر کمزور ہوجانے کے باعث عینک لگانا ضروری ہوگیا تھا۔اس عینک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے کھیلوں یا ورزش کی خواہش مکمل طورپر ختم ہوگئی۔کالج پہنچنے کے بعد وہ تمام عادات بہت تیزی سے اپنالیں جنہیں صحت کے لئے خطرناک حد تک نقصان دہ تصور کیا جاتا ہے۔جماندرو لاہوری ہوتے ہوئے خوش خوراک بھی نہ ہوا۔ ان تمام عادات کے باوجود سنگین بیماریوں سے بچا رہا۔ آج سے تقریباََ دس برس قبل مشتاق منہاس کے ساتھ بیٹھا اپنے ٹی وی شو کی تیاری کررہا تھا۔میرا چہرہ دیکھ کر وہ بہت متفکر ہوگیا۔اسے یقین تھا کہ میرا ضرورت سے زیادہ سرخ ہوا چہرہ بلڈپریشر کی علامت ہے۔میرا گلہ بھی خشک ہورہا ہے۔مجھے ہنگامی بنیادوں پر چیک اپ کی ضرورت ہے وگرنہ دل کا دورہ پڑنے کے امکانات نمودار ہورہے ہیں۔اس کی ضد کے آگے زچ ہوگیا۔
اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال کی ایمرجنسی میں گئے۔وہاں زندگی میں پہلی اور ابھی تک آخری بار ECGکے مرحلے سے گزرا۔ دل کی دھڑکن نارمل تھی۔ ڈاکٹر نے البتہ یہ دریافت کرلیا کہ میں بلڈپریشر کا مریض ہوچکا ہوں۔یہ دریافت کرنے کے بعد وہ میرے طرز زندگی کے بارے میں سوالات کرنا شروع ہوگیا۔
بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ کم خوابی کی عادت نے مجھے بلڈپریشر کا مریض بنادیا ہے۔اس سے محفوظ رہنے کے لئے اس نے روزانہ استعمال کے لئے نسبتاََ کمزور Doseکی ایک گولی نسخے میں لکھی۔
مجھے متنبہ کیا کہ اسے بغیر کوئی ناغہ کئے ہر روز استعمال کرنا ہے۔اصرار اس کا یہ بھی تھا کہ کسی سنگین بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے مجھے چھ سے سات گھنٹے سونا لازمی ہے۔ رات کو نیند نہ آرہی ہو تو خواب آور دوا کی ایک گولی بھی نسخے میں لکھ دی۔میں ہنستا مسکراتا مشتاق منہاس کا مذاق اُڑاتا دفتر لوٹ آیا۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق Live Showکیا اور گھر پہنچ کر سوگیا۔اس دن کے بعد سے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔میرے دانت اور مسوڑھے مگر کمزور تر ہونا شروع ہوگئے۔ان کے علاج کے لئے دندان سازوں کے کلینک میں تواتر کے ساتھ جانا پڑا۔ جوانی میں ’’انقلاب‘‘ کی خواہش پولیس تشدد کی وجہ سے کندھے کی ہڈی ٹوٹ جانے کا سبب ہوئی تھی۔ اس کے بعد تین سے چار مرتبہ محض دوسروں کی غلطی کار کے سنگین حادثوں سے دو چارکرتی رہی۔ ان حادثوں نے میری ریڑھ کی ہڈی کو مطلوبہ توانائی سے محروم کردیا۔موسم بدلے تو گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں اُٹھے درد کی وجہ سے بسترسے اُٹھنا بھی محال ہوجاتا ہے۔چند روزہ تکلیف کے بعد مگر اُٹھ کر چہل پہل شروع کردیتا ہوں۔
کالم کے آغاز میں اپنی ذاتی صحت کے بارے میں ایک طویل ’’اعلامیہ‘‘ لکھنے کی ضرورت کرونا کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں پھیلے خوف کی وجہ سے محسوس ہوئی ہے۔صحت عامہ کاہر ماہر اصرار کئے چلے جارہا ہے کہ 60سال سے زائد عمر والے افراد اس کے وائرس کا اپنے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کے سبب کماحقہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔
انہیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔عمر بڑھنے کے عمل کو میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اپنی عمر چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔بہت شادمانی سے بلکہ ربّ کا شکرادا کرتا ہوں کہ بڑھاپے کے ساتھ اس نے مجھ پر کوئی سنگین بیماری نازل نہیں کی۔ میرے کئی جوان دوست جب صحافت کے حوالے سے مجھے چند نئے آئیڈیاز آزمانے کو اُکساتے ہیں تو میں انہیں اپنے بوڑھے ہوجانے کا احساس دلاتے ہوئے اپنی جند چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔کرونا کی وباء نازل ہوجانے سے چند ہی ماہ قبل تک مگر جب بھی میں یہ عذرتراشوں تو دوستوں کی محفل میں موجود میری نوجوان ساتھی خواتین بہت مان سے ڈانٹتے ہوئے “Sixty is new Forty”والا محاورہ دہراتیں۔یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ دورِ حاضر میں میسر خوراک اور بڑھاپے کو ٹالنے والی Whole Vitaminsوالی گولیاں ساٹھ سال کی عمر میں پہنچے شخص کو بھی 40سال کی عمر والا بنائے رکھتی ہیں۔کرونا نے مگر رویوں کو قطعاََ بدل ڈالا ہے۔کرونا کی وجہ سے لاک ڈائون مسلط ہوئے اب 45دن گزرچکے ہیں۔ میں کرونا سے قبل ہی گوشہ نشین ہوچکا تھا۔میرے چند مہربان دوستوں کو یہ گوشہ نشینی برداشت نہ ہوئی۔ مختلف بہانوں سے مجھے اپنے گھر سے باہر نکالتے رہتے۔ ان سب کا اصرار رہا کہ وہ مجھے ریٹائر نہیں ہونے دیں گے۔ محض کالم نویسی انہیں قبول نہیں تھی۔یوٹیوب چینل بنانے کو مجبور کرتے رہے۔ ان میں سے اکثر دوست اب فون کرتے ہی پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ میں اپنے گھر سے باہر تو نہیں گیا۔ وہ خواتین ساتھی جو “Sixty is New Forty”کا ورد کیا کرتی تھیں اب فون کرتے ہی یادلانا شروع ہوجاتی ہیں کہ وباء کے موسم میں میری عمر کے لوگوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔وہ اس بات کو یقینی بنارہی ہوتی ہیں کہ میں اپنے گھر تو کیا کمرے سے بھی باہر تو نہیں جارہا۔ نہایت ڈھٹائی سے میں ساٹھ برس پارکرنے والے افراد کے کرونا کی وجہ سے مقرر ہوئے نئے Statusکے بارے میں دل ہی دل میں مسکراتا رہتا ہوں۔بات فقط میری ذات تک محدود ہوتی تو یہ کالم ساٹھ برس کی عمر کے مفصل ذکر کا تردد ہی نہ کرتا۔اس عمر کے بارے میں کرونا کی وجہ سے متعارف ہوئی نئی سوچ مجھے وسیع تر تناظر میں پریشان کررہی ہے۔پاکستان جیسے ممالک ٹھوس معاشی وجوہات کی بنیاد پر لاک ڈائون میں نرمی لانے کو مجبور ہورہے ہیں۔کرونا کے حتمی نگہبان بنائے وزیر اسد عمر صاحب نے اتوار کے روز ہی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر لاک ڈائون جاری رہا۔ کاروبار بتدریج نہ کھلے تو ایک کروڑ 30لاکھ لوگ نوکریوں یاروزگارسے محروم ہوسکتے ہیں۔ان کا یہ خیال بھی تھا کہ کاروبار پر لگائی بندشیں 2سے 5کروڑ افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل سکتی ہیں۔اسد عمر صاحب نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ قطعاََ بے بنیاد نہیں ہیں۔ان کے بتائے خدشات کے چند پہلوئوں کو زیر بحث لانے کے بجائے فی الوقت میں عمران حکومت کو میسر Data Collectionکے وسائل کی محدودات کے بارے میں حیرانی کا اظہار کرنے کو مجبور ہوں۔ ’’دوکروڑ‘‘ اور ’’پانچ کروڑ‘‘کے مابین بے پناہ فرق ہے۔اسد عمر صاحب کی جانب سے ’’دو سے پانچ کروڑ‘‘ کا ذکر واضح طورپر دکھاتا ہے کہ ہماری ریاست کے پاس لوگوں کے معیارزندگی اور اس کے ممکنہ طورپر بڑھنے یا گھنٹے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے ٹھوس پیمانے موجود نہیں ہیں۔پاکستان میں خطِ غربت کے نیچے موجود افراد کا نظر بظاہر Dataفی الحال وہی ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام متعارف کرواتے ہوئے 2010میں تیار ہوا تھا۔نواز حکومت کے دوران جب ماروی میمن صاحبہ اس پروگرام کی مدارالمہام مقرر ہوئیں تو انہوں نے چند عالمی اداروں کی معاونت سے اس Dataکو Updateکرنے کی کوشش کی۔یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اور نئے انتخابات کا مرحلہ آگیا۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ مذکورہ ڈیٹا کو Updateکرنے کا عمل اب کس مرحلے میں ہے۔ عمران حکومت نے کرونا پھیلنے کے بعد سرعت سے مگر یہ فیصلہ کیا کہ پرانے Dataکے مطابق امدادی رقوم کو مستحق ٹھہرائی خواتین کو یکمشت12ہزار روپے ادا کردئیے جائیں۔میری معلومات کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 15لاکھ کے قریب ہے۔
اطلاع یہ بھی ہے کہ ان میں سے 99فی صد کو امدادی رقوم فراہم کردی گئی ہیں۔سرعت سے فراہم ہوئی یہ امداد یقینا داد کی مستحق ہے۔اسے سراہتے ہوئے میں اس بحث کو نظرانداز کررہا ہوں کہ ’’بے نظیر ا نکم سپورٹ پروگرام‘‘ کو ’’احساس‘‘ کا نام دینا چاہیے تھا یا نہیں۔
امدادی رقوم کے تناظر میں اہم ترین مرحلہ مگر وہ رقوم ہوں گی جہاں ان گھرانوں تک پہنچنا ہے جو بے نظیر ا نکم سپورٹ پروگرام کے Data Registerمیں موجود نہیں ہیں۔عمران حکومت نے موبائل فون پر بنائی ایک Appکے ذریعے ان افراد کی تفصیلات جمع کی ہیں۔محسوس یہ بھی ہورہا ہے کہ امداد ی رقوم کے نئے طلب گاروں کی اکثریت کو بھی پیسے پہنچادئیے گئے ہیں۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت امدادی رقوم کے مستحق ٹھہرائے افراد کو حکومت نے صرف ایک بار کچھ رقم فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہے یا کوئی ایسی Cut off Dateبھی ہے جس کے بعد مستحق یا غیر مستحق میں تفریق برتی جائے گی۔اس ضمن میں کوئی واضح پالیسی تیار نہ ہوئی تو Dataکے حوالے سے ہم ’’دو سے پانچ کروڑ کے درمیان‘‘والی ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہیں گے۔
مستند Dataکا حصول دورِ حاضر میں جوئے شیر لانے جیسا ناممکن عمل نہیں رہا۔کرونا کی زد میں آئے افراد سے سماجی تعلق میں آئے لوگوں کا سراغ لگانے کے لئے موبائل فونز کی مدد سے Track and Tracingکا ایک مؤثر نظام ہمارے سامنے رونما ہوا ہے۔حقیقی معنوں میںکرونا کی وجہ سے غریب سے غریب تر ہوئے گھرانوں کا سراغ لگانا بھی لہذا ہماری ریاست اور حکومت کے لئے ہر صورت ممکن ہے۔اس تناظر میں Data Collectionکا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوجانا چاہیے۔ ٹھوس اعدادوشمار کی صورت حقائق ہمارے سامنے آئیں گے تب ہی ان سے نبردآزما ہونے کی قابل عمل تدابیرسوچی جاسکتی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ