آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب کبھی آپ مظلوم قوم کے کسی فرد یا گروہ کے ساتھ ہونے والے جبر، ظلم، زیادتی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھائیں تو اس واقعے پر مذمت کرنے کی بجائے فوری طور پر کوئی صاحب یا صاحبہ آپ کی پوسٹ کے نیچے کمنٹ کرنے آجائے گی کہ فلاں دوسری قوم کے لوگوں کے ساتھ یہ ہوا تھا تو آواز کیوں بلند نہ ہوئی
جبکہ کمنٹ کرنے والا /والی یہ تک نہیں جانتی کہ جس آدمی کی پوسٹ کے نیچے وہ کمنٹ کرنے آگئے ہیں، اُس کی ٹائم لائن پر بلوچستان کے اندر جب بلوچ قومی تحریک کے ایک سیکشن نے بلوچستان میں بندوبست پنجاب سے تعلق رکھنے والے آبادکاروں کو بے دخل کرنے، مزدوروں اور ملازمین پر حملے کے واقعات رونما ہوئے تو یہ صاحب پوسٹ پاکستان کے اُن ترقی پسند لکھاریوں میں سے ایک تھا جس نے بلوچ عسکریت پسندوں گروپوں کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملازمین، مزدوروں اور چھوٹی موٹی دکانداری کرنے والوں پر حملے کرنے اور اُن کو بے دخل کرنے جیسے اقدامات کو قومیتی شاؤنزم/تعصب پر مبنی ظلم قرار دیا اور اس کی کھلے لفظوں میں مذمت بھی کی اور یہیں فیس بُک پر بھی بلوچ دانشوروں،لکھاریوں، سیاسی کارکنوں سے بحث مباحثہ بھی ہوا-
اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے آبادکاروں سے ہونے والی زیادتی پر آواز نہیں اٹھائی یہ غلط بات ہے اور موجودہ واقعہ کو دبانے کی کوشش ہے-
دوسری بات یہ ہے کہ موسوف گھوٹکی سندھ کے رہنے والے ہیں، میں ان کی وال پر ٹائم لائن چیک کرکے آیا ہوں، انھوں نے گورنر سندھ کی طرف سے سندھیوں کو جاھل کہنے پر ایک پوسٹ بھی مذمت کی نہیں لگائی؟ جس سندھ میں یہ رہتے ہیں اُس کی عوام کو جاھل کہنے پر ان کی غیرت جوش میں نہیں آئی، کیوں؟ یہ سندھ میں رہتے ہیں سندھ کے اندر اس وقت بھی 365 سے زائد افراد جبری گمشدہ ہیں جبکہ گزشتہ دس سالوں میں درجنوں سندھی قوم پرست سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، میں نے تو ان کی وال پر سندھ کے اندر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، ہندؤ لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذھب اور جبری شادیوں کے ایشوز پر کوئی معمولی سا سماجی ایکٹوازم نہیں دیکھا-
مجھے شک ہے کہ یہ بلوچ ایشو کو ٹھیک سے سمجھتے بھی ہیں یا نہیں؟ بلوچستان میں پہلا آپریشن 1948ء میں ہوا اور تب سے ابتک یہ بارہواں فوجی آپریشن چل رہا ہے- بلوچ قوم اپنے علاقے کے وسائل، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کے حوالے سے جو مقدمہ پیش کرتی ہے اُس مقدمے کے سچ ہونے سے پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے آج تک انکار نہیں کیا، یہاں تک کہ پاکستان فوج کے سب سے بڑی اتحادی سمجھے جانے والے پنجابی سیاست دان چودھری شجاعت بھی بلوچ قوم کے ساتھ ہورہی ظلم و زیادتی کو افسانہ خیال نہیں کرتے………. بندوبست پنجاب سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کو جب تک بلوچستان کی لینڈ اسکیپ، اس کی عوام، اس خطے کے وسائل اور نوآبادیاتی دور سے لیکر نئے نوآبادیاتی دور تک کی حقیقت پر مبنی تاریخ سے آگاہی نہیں ہوگی وہ تو ایسے ہی خیالات کا اظہار کرے گا جیسے یہ موصوف کررہے ہیں- آپ زرا یہی دیکھ لیجیے کہ جب آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا بندوبست پنجاب کے بلوچستان میں رہنے والوں کے ساتھ کیا ریاستی بربریت کے برابر سلوک ہوا ہے؟ تو جواب تھا : ہاں ریاستی بربریت بلکہ اس سے بھی زیادہ…
اس ایک فقرے سے آپ گھوٹکی سندھ میں بندوبست پنجاب کے ایک آبادکار کے سیاسی شعور کی پسماندگی کا اندازہ لگاسکتے ہیں- میں شرط لگاکر کہہ سکتا ہوں کہ سندھ میں رہتے ہوئے اس شخص نے نہ تو کامریڈ سوبھوگیان چندانی کو پڑھا ہوگا، نہ ابراہیم جویو کو، نہ کامریڈ حیدربخش جتوئی کو نہ جی ایم سید کو، نہ شیخ ایاز کو، نہ ہی اس نے کامریڈ جمال بخاری کو پڑھا ہوگا اور نہ ہی کامریڈ جام ساقی سمیت مقدمہ بغاوت میں گرفتار سیاسی کارکنوں کے ملٹری کورٹ کے سامنے بیانات کو پڑھا ہوگا- یہ شخص کیا سنجیدگی سے پاکستان کے اندر ون یونٹ کے خلاف بنگال سے لیکر سندھ تک اور آگے لنڈی کوتل تک چلنے والی سیاسی جمہوری تحریک کی تاریخ پڑھ چُکا ہوتا، ایم آرڈی کی تاریخ سے واقفیت لے چُکا ہوتا تو میں شرط لگاکر کہتا ہوں کہ یہ کبھی بلوچ قوم کے مقدمے پر اس طرح سے رائے زنی نہ کرتا- بندوبست پنجاب میں رہنے والے اور سندھ کے شہری علاقوں کے اردو اسپیکنگ کی مڈل کلاس طبقے کی نوجوان اکثریت کا سیاسی شعور انتہائی مسخ شدہ ہے اور یہ سرے سے شعور کہلانے کے قابل ہی نہیں ہے، یہ تو پاکستان کے حکمران طبقات کے غالب پنجابی اشرافیہ کی پروگرامنگ ہے جسے اس پروگرامنگ کو واش کرکے اور پاکستان کی عوامی تاریخ سے روشناس کرکے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے –
بندوبست پنجاب سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ درمیانہ طبقے کی اکثریت یہ سوال کرتی ہے کہ بلوچستان کے بلوچ اکثریت علاقوں میں بندوبست پنجاب کے رہنے والوں سے نفرت کا اظہار کیوں ہوتا ہے؟ تو اس کا سب سے حقیقی جواب یہ بنتا ہے کہ وہ بندوبست پنجاب کے اندر رہنے والوں کی بلوچ قوم کے ساتھ ریاست اور اس کے اداروں کے زمہ داروں کے ظلم، جبر، بربریت اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی اور ان کے صوبے کے وسائل کی مسلسل لوٹ مار اور بلوچستان کا استحصال کرنے کے لیے اُسے عملاً ایک چھاؤنی میں بدل دینے کے عمل پر مکمل خاموشی اور چند ایک آوازوں کا احتجاج کرنا ہے- قوموں کے درمیان ایک وفاق میں برادرانہ تعلقات تب قائم ہوتے ہیں جب اقوام اپنے دکھ درد سانجھے رکھیں- اگر دوسری قوم کا کوئی بڑا سندھیوں کو جاھل کہے، بلوچ کو گنوار اور غلام کہے، سرائیکیوں کو کام چور کہے، بنگالیوں کو ‘بھوکے بنگالی’ کہے اور بار بار سیکورٹی ادارے لاؤ لشکر سے لیس ہوکر حملہ آور ہوں اور پی ایچ ڈی ڈاکٹرز جعلی مقابلوں میں تڑی پار کردیے جائیں اور حقوق مانگنے پر غداری کے سرٹیفیکیٹ دیے جائیں اور بندوبست پنجاب میں نہ تو اس پر احتجاج ہو، نہ بازار بند ہوں اور نہ ہی ورکنگ کلاس ہڑتال پر جائے بلکہ جو جبری گمشدہ ہو اور جو مسخ شدہ لاش کی شکل میں ملے تو اس بارے میں انتہائی کٹھورپَن اور ظالمانہ انداز میں یہ تبصرہ زبان زدعام ہوجائے:
"کچھ کیا ہی ہوگا، تبھی مارا گیا-”
یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو ھتیار اٹھانے والوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کو نہیں مانتے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کیے ہوئے ہیں-
میں اُن سب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جب کسی بلوچ/پشتون/سندھی-اردو اسپیکنگ شخض کو جبری گمشدہ کردیا جاتا ہے یا اُس شخض کو ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے تو اُس وقت اسے اغواء کہنے یا اسے غیرقانونی قتل کہنے کی بجائے مغوی یا مقتول کے خلاف کسی مفروضہ ‘کچھ نہ کچھ کرنے’کی سوچ کہاں سے جنم لیتی ہے؟
سانحہ ساھیوال پر اگر بندوبست پنجاب سے شدید ردعمل آتا ہے تو ایسے واقعات کے دوسرے صوبوں میں رونما ہونے پر شدید ترین ردعمل کہاں غائب ہوجاتا ہے؟
اگر بندوبست پنجاب کے شہروں میں رہنے والی پڑھی لکھی مڈل کلاس بلوچستان اور بلوچ قوم کو مجبور و محکوم و مقہور واقعی سمجھتی ہوتی تو پنجاب کے پریس کلب، پروفیشنل ٹریڈ باڈیز، بار ایسوسی ایشن، تجارتی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں کبھی تو اجتماعی ہڑتال پر جاتیں، کبھی تو وہ اجتماعی طور پر اپنے ضمیر کے جاگتے رہنے کا ثبوت دیتے-اگر بلوچستان سے پیدل مارچ کرنے والی بلوچ مظلوم نوجوان عورتوں کی ریڑھی پر دھری تصویروں اور جبری گمشدگان کی تصویروں کے پیچھے ہزاروں، لاکھوں کا ہجوم ہوتا تو کبھی یہ سوال زہن میں پیدا نہیں ہوتا کہ بلوچ بندوبست پنجاب کے لوگوں سے نفرت کی حد تک بے زاری کیوں دکھاتا ہے –
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر