نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کا نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کا مشورہ۔۔۔ حیدر جاوید سید

مسلم فلسفہ کے باوا آدم ابن رشد کیساتھ کیا ہوا؟ یعقوب الکندی، ابن سینا پر کیا بیتی۔ تاریخ وسیاست کے طلباء اس سے بخوبی واقف ہیں،

طالب علم کی حیثیت سے میں اور فقیر راحموں جناب وزیراعظم کی طرف سے نوجوانوں کو مطالعہ کے مشورہ سے تو متفق ہیں مگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ نئی نسل کو تقابلی مطالعہ کرنا ہوگا۔
خصوصی مقاصد ذہن میں رکھ کر خاص بیانیے کو پروان چڑھانے والی کتب کی بجائے انہیں شعوری ارتقا میں معاون بننے والی کتب پڑھنا چاہئے،
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تہذیب وتمدن اور تاریخ اقوام سے مشروط ہیں مذاہب وعقیدوں سے نہیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی پھر سے ہمیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں واپس دھکیلنا چاہتا ہے؟
ہم اس دورپُرفطن کے عذاب اب تک بھگت رہے ہیں۔
یہ ترکی کا ڈرامہ اُردو میں ڈب کرنے دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔
عباسی خلافت کے کھنڈرات پر اٹھی عثمانی خلافت ملوکیت کا دوام تھی۔ ہم کیوں اپنی نئی نسل کو تاریخ کی صداقتوں سے ناواقف رکھنا چاہتے ہیں۔
خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد کی چاروں خلافتیں
(اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی) مسلم خلافتیں تو ہیں اسلامی ہرگز نہیں۔
مسلم حکمرانوں کے ادوار کو اسلامی ادوار حکومت کے طور پر پیش کرنا صریحاً زیادتی ہے،
یہ ادوار عظیم بادشاہتوں سے عبارت تھے لیکن عوام کے حق حکمرانی کے ابدی اصول سے محروم
ان ادوار میں خاندانی حکومتوں کے پیدا کردہ سماجی، انتظامی، مذہبی مسائل سے مسلمان آج بھی جان نہیں چھڑا پائے۔
یہ بجا ہے کہ ان چار میں سے دو ادوار عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں میں دنیا بھر کے علوم خصوصاً رومن فلسفہ سمیت دیگر علوم کے تراجم ہوئے، مسلم خلافتوں کی حدود میں اپنے اہل علم (مسلم دانشوروں) پر ان کے افکار وخیالات کی وجہ سے جو بیتی وہ مسلم تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں۔
مسلم فلسفہ کے باوا آدم ابن رشد کیساتھ کیا ہوا؟ یعقوب الکندی، ابن سینا پر کیا بیتی۔ تاریخ وسیاست کے طلباء اس سے بخوبی واقف ہیں،
یہ وہ دو تین بنیادی نکات ہیں جن کی وجہ سے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ اسلامی تاریخ کے نام پر دستیاب کتب تواریخ درحقیقت مسلم حکمران خاندانوں کی تاریخ ہے،
عثمانیوں کے شیخ الاسلام نے تو پرنٹنگ پریس کیخلاف فتویٰ دیدیا تھا، تاویل یہ تھی کہ پرنٹنگ پریس لگنے سے کاتب بیروزگار ہو جائیں گے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم کا نوجوانوں کو مطالعہ کرنے کا مشورہ ہے تو درست لیکن نوجوانوں کو کیا پڑھنا چاہئے اس پر حتمی رائے غیرضروری ہے۔
ہماری نئی نسل کو قدیم تاریخ اور علوم کیساتھ جدید تاریخ وعلوم سے استفادہ کرنا چاہئے، مولانا وحیدالدین، ڈاکٹر علی شریعتی، علی عباس جلالپوری، سید سبط حسن، حسن جعفر زیدی (زیدی صاحب نے12جلدوں پر مشتمل تاریخ پاکستان کی ترتیب وتدوین کی زاہد چوھدری کے اشتراک سے) اور دیگر علمی شخصیات موجود ہیں، پھر نسیم حجازی فہم کے ملکی وغیرملکی ادیبوں کو کیوں پڑھا جائے۔
زندگی بہت آگے بڑھ چکی، خواب بونے اور خوابوں کی تجارت ہر دو کی اب ضرورت نہیں، تاریخ کا حقیقت پسندانہ مطالعہ ضروری ہے۔ تقسیم شدہ برصغیر کے تینوں ملکوں میں تاریخ عالم پر جواہر لعل نہرو کی تصنیف سے بہتر شاید ہی کوئی کتاب ہو۔
تلوار بدست ہیرو کے کافرحسینہ کے فدا ہو جانے کے قصے نہیں بلکہ سرکار! ہماری نئی نسل کو روشنی کی ضرورت ہے یعنی علم کی اور علم وہی ہوتا ہے جو تعصبات سے محفوظ ہو، زندگی کے اگلے مراحل میں رہنمائی کر سکے۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو دو باتیں بتانا سمجھنا ہوں گی اولاً یہ کہ تعلیم فقط ملازمت کے حصول کیلئے ہی حاصل نہیں کی جاتی بلکہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہوتا ہے کہ اپنے لئے خاص علمی شعبہ کا انتخاب، تاکہ تحقیق وآگہی میں حصہ ڈالا جائے۔
مثال کے طور پر میرے بس میں ہو تو میں نئی نسل سے کہوں کہ وہ تین کتابیں ضرور پڑھے۔ جواہر لعل نہرو کی ”تاریخ عالم پر ایک نظر“ فیض احمد فیض کی ”ماہ وسال آشنائی“ اور ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ”اگر مجھے قتل کر دیا گیا“
یہ بھی عرض کروں کہ یہ تینوں کتب حرف آخر بالکل نہیں لیکن ان کے مطالعہ سے نئی نسل میں روایتی بیانئے سے آگے بڑھ کر پڑھنے کا شوق بیدار ہوگا۔
ہماری نئی نسل کو ایسے مطالعہ کی ضرورت نہیں جو دولے شاہ کے چوہوں کے لشکر میں اضافہ کرے بلکہ ویسے ہمہ گیر مطالعہ کی ضرورت ہے جو زندگی کی جدوجہد میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرنے کیساتھ اس جذبہ کو پروان چڑھائے کہ اس نسل کو اپنے عہد کی تعمیر وترقی اور فکری ارتقا میں حصہ ڈالنا چاہئے۔
لاریب نئی نسل کو اپنی تہذیبی روایات اور تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے مگر یہ بھی سچ ہے کہ دونوں چیزیں اسی خطے سے تعلق رکھتی ہیں،
دیگر اقوام کی تہذیبی روایات، سماجی ومعاشرتی اور سیاسی تاریخ کے مطالعہ کی ضرورت سے انکار نہیں مگر اپنے اصل سے عدم آگاہی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ اپنے اصل سے عدم آگاہی نے ہی ہمارے لئے مسائل پیدا کئے۔
72سال بعد بھی ہم ایک روشن خیال، انسان دوست اور ترقی پسند سماج اور نظام حکومت قائم نہیں کرسکے۔ یقیناً بہت سارے اہل دانش اور مطالعہ کے شوقین مجھ طالب علم سے اختلاف کریں گے لیکن صاف سادہ لفظوں میں عرض کروں کہ آپ اطلاعات کے دونوں مراکز الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کو دیکھ لیجئے کیا نشر ہو رہا ہے اور کیا شائع کیا جا رہا ہے اور یہ کہ کیا اس سے سماجی شعور پروان چڑھا ہے یا عدم برداشت کی آبیاری ہورہی ہے؟
اس سادہ سے سوال کا جواب بہت سارے سوالات کا جواب ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ شوکت صدیقی مرحوم کے ناول ”جانگلوس“ کے معیار کا ناول اگلے چالیس برسوں میں کیوں نہیں لکھا گیا۔
ہمارے سماجی شعور نے ہمیں نئے فیض، فراز، جی ایم سید، سبط حسن، علی عباس جلالپوری کیوں نہیں دئیے؟
دو وجوہات ہیں اس کی اولاً یہ کہ ہمارا نصاب تعلیم (بدقسمتی سے ایک ہی وقت میں اس ملک میں پانچ طرح کے نصاب تعلیم ہیں)
جدید خطوط سے ہم آہنگ نہیں،
یہ نصاب تعلیم ملازمتوں کی خواہش مند نسلیں پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا،
ثانیاً تاریخ۔
تاریخ کے نام پر ہمارے یہاں رومانی ناول لکھے گئے۔ وزیراعظم عمران خان اس ملک کی نئی نسل کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کروائیں اور رجعت پسندی کی بجائے روشن خیالی کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈالیں۔

About The Author