رنگ برنگ قمقے.. زرگ برگ لباس.. گُلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مہکتے چوبارے.. پنواڑیوں کی صدائیں.. ہوا کے دوش پر سفر کرتی طبلے اور سارنگی کی آواز میں .. نسوانی قہقوں…خوبصورت جھروکوں سے لہراتے جھلک دِکھلاتے رنگین آنچلوں کے بیچ.. لکڑی کے فرش پر تھرکتے قدموں کی دھمک کے ساتھ کھنکتے گھنگروؤں اور چھن چھن چھنکتی چوڑیوں کے شور میں بھلا کوئی کسی بچے کی آواز کیوں کر سُنے…؟ اور وہ بھی خاص کر تب, کہ جب وہ بچہ ایک لڑکا ہو….
جی ہاں.. میں وہ بچہ ہوں کہ جِسے آپ عُرفِ عام میں رنڈی کی اولاد کہتے ہیں.. رنڈی کی اولاد بھلے ہی آپ کے لئے گالی ہووے گی مگر میرے لئے تو یہی میری پہچان ہے.. ساری زندگی لوگوں نے مُجھے اِسی نام سے تو پُکارا ہے… اب تو میں اِس نام کا اتنا عادی ہو چُکا ہوں کہ اپنا اصل نام بھی یاد نہیں رہا.. اکثر سوچتا ہوں کہ مرنے سے قبل اپنا کُتبہ خود تیار کرواؤں اور اُس پر جلی حروف میں لکھواؤں کہ یہاں ایک رنڈی کی اولاد سو رہی ہے… لیکن پھر سوچتا ہوں کہ آخر کسی رنڈی کی اولاد کو بھلا کسی کتبے کی کیا ضرورت؟ اِس حوادث آباد عالم میں مُجھ جیسی کتنی ہی رنڈی کی اولادیں فناء ہو گئیں مگر کیا کسی نے کبھو یہ کُتبے والا چونچلا کیا؟.. اور بالفرض اگر میرے مرنے کے بعد کبھی کسی کو کتبے کا خیال آ بھی گیا تو بھلا وہ اس کے سوا لکھواوے گا بھی کیا؟… بس پھر اِسی خیال کے تحت کُتبہ بنوانے کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیتا ہوں اور یوں اُس دِن کی دارو کا انتظام ہو جاتا ہے..
خیر تو میں کہاں تھا… ہاں یاد آیا.. وہ ایک رنگین شام تھی… رنگین اور دُکھی کر دینے والی پررونق شام… اسی شام میں نے ایک رنڈی خانے کے تنگ و تاریک کمرے میں آنکھ کھولی.. ایسا کمرہ کہ جس کی بوسیدگی قرنوں کے افسانے.. اور صدیوں کے قصے سُناتی تھی… کمرے کی سیلن زدہ دیواروں کے بیچ, دواؤں اور سپرٹ کی پھیلی بو میں, میں نے زندگی سے خراج وصولا اور اپنا پہلا سانس کشید کیا…. دائی جہانی کے مطابق.. میری ماں.. جو شاید روز چوبارے کی سیڑھیاں چڑھ کر آنے والے نت نئے مردوں کی مردانگی سے اتنی خائف تھی, کہ اُس نے میری ننھی ناتواں ٹانگوں کے درمیان لٹکتی میری مردانگی کی علامت پر نظر پڑتے ہی مُجھے نفرت اور حقارت سے پڑے دھکیل دیا…
مُجھے اِس بات کا ہرگز کوئی قلق نہیں کہ میری ماں نے مُجھے کبھی نہ اپنایا.. قلق آخر کو ہو بھی کیوں؟ کیا کسی رنڈی کے یہاں پیدا ہونے والا لڑکا کُچھ اِس سے مختلف قسمت بھی لکھوا کر لایا ہے کبھی..
بھلے ہی میری ماں نے مُجھے اپنے آپ سے دور کر دیا اور مُجھ سے بے انتہا نفرت بھی کی.. مگر پھر بھی وہ کبھی مُجھ سے قطعی غافل نہ ہوئی…. وہ مہینے میں ایک مرتبہ ضرور دائی جہانی کے کمرے میں آتی اور اُسکی مُٹھی میں کُچھ روپے پکڑا کر جاتے ہوئے ایک حقارت بھری نظر مُجھ پر ڈالنا ہرگز نہ بھولتی.. یقین جانئے کہ وہ حقارت بھری نظر بھی مُجھ رہینِ رنج و تعب کے لئے کسی نظرِ التفات سے کم نہ ہوتی تھی.. میں لمحہ لمحہ گن کر گُزرتا کہ کب ماں آئے.. اور ایک بار پھر مُجھے حقارت بھری سے دیکھے.. مُجھے اُسکی نفرت میں بھی اپنے لئے مُحبت کا بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مارتا دِکھائی دیتا تھا…
اگر کبھی ایسا ہوا کہ ماں کو دائی جہانی کے کمرے کی دانگ آتے دیر ہوئی اور میرا دل ماں کی دید کو زیادہ ہی بیقرار ہوا تو میں اکثر دائی جہانی سے نظر بچا کر دالان میں جا لٹکتا اور نیچے صحنچی میں بیٹھی ماں کو بال سُکھاتے دیکھا کرتا.. ایسے میں اگر کبھی ماں سے نظریں چار ہو جاتیں تو اُسکی آنکھوں میں میرے لئے جلنے والے نفرت کے شعلوں کو میری آنکھوں میں اُسکے لئے مُحبت کا ساغر لحظہ بھر کے لئے ٹھنڈا کر دیتا اور وہ مُسکرا دیتی.. یوں ایک لحظے میں میری تمام محرمیاں اُڑن چھو ہو جاتیں اور میں ماں کی اُس ایک مُسکراہٹ کو سینے سے لگائے کئی راتیں چین سے سوتا..
زندگی ایک صحرا کی مانند تھی تھی.. اور میں ایک بھولا بھٹکا مُسافر.. جو ایک لاحاصل منزل کی جستجو میں آگے سے آگے بڑھے چلے جا رہا تھا.. ایسے میں دائی جہانی کا وجود کسی نخلستان کی مانند تھا.. مگر یہ نخلستان بھی ایک سراب ہی ثابت ہوا.. اور جب میں محض دس برس کا تھا تو دائی جہانی اللہ کو پیاری ہو گئی.. اب بادِ سموم کے جھونکے تھے.. لک و دق صحرا تھا.. اور میرا وجود.. دائی جہانی کا کمرہ.. جو کبھی میرے لئے کُل جہان تھا اب مُجھ سے چھین لیا گیا. مُجھے رات کو چوبارے کی سیڑھیوں کے نیچے ایک دڑبے نما کوٹھری میں تنہا سونا پڑتا. ایسے میں جب رات کو ڈر لگتا تو میں باہر صحن میں لگے علم کو سینے سے چمٹائے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی اونگھ جاتا. کوئی کھانے کو دیتا تو کھا لیتا ورنہ امام حُسین کی بھوک پیاس کو یاد کر کے خود کو تسلی دئیے رکھتا. کئی مہینے یونہی گُزر گئے اور پھر ایک دِن میری زندگی میں چاچا فضل آیا..
چاچا فضل پنواڑی تھا اور ہمارے کوٹھے کے سامنے ایک لکڑی کی صندوقچی میں پان کے لوازمات اور بڑی سی چھابڑی میں موتیے کے گجرے سجائے بیٹھا رہتا تھا. چاچا رات کو آتا اور پھر دِن چڑھے تک وہیں رہتا تھا. دوپہر کے چند گھنٹے گُزارنے کے لئے وہ صندوق کو تالا لگائے چھابڑی سر پر رکھے آس پڑوس کے کسی کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہیں کہیں کونے کھدرے میں سر لپیٹ کر سوئے رہتا. وہ پوری ٹکسالی کی رنڈیوں کا چاچا تھا. عموماً رنڈیاں پان فروشوں کو کوٹھوں کے سامنے نہیں بیٹھنے دیتی تھیں مگر چاچا کا سب احترام کرتی تھیں. ہفتے میں ایک ادھ بار چاچا ہمارے کوٹھے کا بھی رُخ کرتا اور سیڑھیوں کے نیچے میری ہی کوٹھری میں دوپہر گُزارتا. دائی جہانی کے بعد چاچا میرا واحد غمخوار تھا جس سے میں دل کی باتیں کیا کرتا تھا.
چاچا بھی میری طرح بھری دُنیا میں تنہا تھا. کبھی کسی دور میں یہیں کی ہی کسی رنڈی کے عشق میں مُبتلا ہوا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا. چاچا کی بڑی خواہش تھی کہ وہ حافظِ قُرآن بنتا مگر عشق کے روگ نے اُسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا. اب اُسکی خواہش تھی کہ میں اُس کی جگہ حافظِ قُرآن بنوں اور کسی مسجد کا مولوی بن کر باعزت زندگی گُزاروں. اِس خواہش کا اظہار چاچا گاہے بگاہے کرتا رہتا تھا. مُجھے بھی اپنی زندگی کا کوئی مقصد دِکھائی نہیں دیتا تھا اِس لئے میں نے بھی ایک دِن چاچا کے خواب کو تعبیر دینے کا فیصلہ کر لیا.
اگلے دِن ہی چاچا نے میری ماں سے اجازت لی اور مُجھے پاس کی مسجد کے مولوی کی سرپرستی میں دے آیا. اب میرا روز مرہ کا معمول بدل گیا. میں دِن بھر مسجد میں رہتا, شام کو مغرب کی نماز مسجد میں ہی پڑھ کر چاچا کے پاس آن بیٹھتا. اور وہیں بیٹھے بیٹھے پان کے پتے سیدھے کر کر کے چاچا کو پکڑاتا جاتا اور چاچا پان بنا بنا کر گراہکوں کو دیتا رہتا. رات کو وہیں کوٹھے کے صحن میں نصب علم کے سائے میں بازو کو سرہانا بنائے ڈھے جاتا.
کئی دِن یونہی گُزر گئے. شروع شروع میں تو مولوی مُجھے سبق یاد نہ ہونے پر دوسرے بچوں کی طرح خوب رزکوب کیا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ اُس کا رویہ تبدیل ہونے لگا. اب وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر دیگر بچوں کو تو پہلے کی طرح دھنک کر رکھ دیتا تھا مگر میری بڑی سے بڑی غلطی کو بھی نظرانداز کر دیتا. پہلے پہل تو مُجھے یہ سب بہت اچھا لگا, میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنے لگا کہ مولوی مُجھے باقی بچوں پر فوقیت دینے لگا ہے. وہ مُجھے اپنے قریب بِٹھانے لگا ہے. میں اِس قرب پر پھولے نہیں سماتا تھا. مگر آہستہ آہستہ اُس کا رویہ عجیب سے عجیب تر ہونے لگا. سبق پڑھانے کے دوران وہ مُجھ سے بہت قریب ہونے کی کوشش کرتا. کبھی سبق صیحح سُنانے پر مُجھے اپنے سینے سے بھینچ لیتا تو کبھی بیٹھے بیٹھے میرے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگتا. میں بچہ ضرور تھا مگر اتنا بھی کمسن نہ تھا کہ اُس کے عزائم نہ سمجھ پاتا. اب میں نے مسجد جانے سے کنی کترانی شروع کر دی تھی. مسجد کے اوقات شروع ہوتے ہی میں پاس کے دربار پر چلا جاتا اور پورا دن وہاں گزار شام کو معمول کے مطابق چاچا کے پاس پہنچ جاتا. چاچا جب بھی مسجد سے متعلق سوال پوچھتا تو میں صاف جھوٹ بول دیتا.
ایک دن میں حسبِ معمول سارا دن مزار پر گُزار کر چاچا کے پاس آن کر بیٹھا ہی تھا کہ مولوی چلا آیا. آتے ساتھ ہی مُجھ سے پوچھنے لگا کہ تم مسجد کیوں نہیں آتے ہو. چاچا اُس وقت گراہک کے ساتھ مصروف تھا اِس لئے مولوی کی بات نہ سُن سکا. مولوی نے میرا ڈر بھانپ لیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا کہ وہ طبعیت کی ناسازی کی بِناء پر کل مسجد نہیں جائے گا, چونکہ میرا پہلے ہی کافی حرج ہو چُکا ہے اِس لئے مُجھے کل ہی مسجد سے مُتصل اُس کے مکان میں آ کر اُسے سبق سُنانا ہو گا. میں نے بڑی مُشکل سے چاچا کے ڈر کے پیشِ نظر مولوی کے کہے مُطابق کل اُس کے مکان پر جانے کے وعدے کے ساتھ اُسے وہاں سے رخصت کیا.
میں سوچتا ہوں کہ کاش اُس دِن چاچا مولوی کی بات سُن لیتا یا میں خود ہمت کر کے مولوی کو وہیں انکار کر دیتا تو آج میری زندگی کا احوال کُچھ مختلف ہوتا.. مگر خیر قسمت کا لکھا بھی تو ٹالے نہیں ٹلتا.. بالکل اسی طرح اگلے دن نہ چاہتے ہوئے بھی میں مقررہ وقت پر مولوی کے مکان کے باہر دق الباب کر رہا تھا.. چند ساعتوں کے بعد مولوی نے دروازہ کھول دیا. عموماً مولوی کے مکان میں اُس کے گھر والے ہوتے تھے مگر اُس روز شاید وہ سب لوگ کہیں گئے ہوئے تھے. میں نے حسبِ معمول آنگن میں لگے نلکے سے وضو کیا اور سپارہ لئے کونے میں لگے سُکھ چین کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سبق دھرانے لگا. مولوی مجھے تنہا چھوڑ کر کمرے میں جا چُکا تھا. تھوڑی دیر بعد مولوی نے مُجھے اندر آنے کو کہا. میں نے سپارہ وہیں تخت پوش پر رکھا اور کمرے میں چلا گیا. جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا مولوی نے پُشت سے مُجھے اپنے آہنی ہاتھوں میں دبوچ لیا. وہ زبردستی میرے لبوں کو چومنے لگا اور میرے کپڑے اُتارنے لگا.. میں چیختا رہا.. چِلاتا تھا.. مگر وہاں میری آہ و بُکا سُننے والا کوئی نہ تھا..
جب میں مولوی کے مکان سے نکلا تو رات کے سائے گہرے ہو چلے تھے. میں پررونق گلیاں چھوڑ کر اندھیرے گلیاروں سے گرتا پڑتا اپنی کوٹھری میں پہنچ گیا. میں شدید نڈھال تھا اور درد کی وجہ سے پُشت پر سونا ممکن نہ تھا. میں اُلٹا لیٹ گیا اور رات کے کسی پہر نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہو گئی.
اگلے روز اپنے ارد گرد کسی انجانے شور پر میری آنکھ کُھلی. آنکھ کُھلنے پر میں نے دیکھا کہ اماں کوٹھری کے کونے میں بیٹھی رو رہی ہے اور کوٹھے کا تقریباً ہر فرد میری کوٹھری کے باہر موجود ہے. رات کے کسی پہر کوئی ماما میری کوٹھری میں چلی آئی تھی اور میری خون آلود شلوار دیکھی تو گھبرا کر اُس نے میری ماں کو جا اطلاع کی.. ہر نظر سوالیہ تھی اور شخص سوالی.. مُجھے بیدار ہوتے دیکھ چاچا نے مجھے سہارا دے کر بٹھایا. ماں دوڑ کر میرے پاس چلی آئی اور آ کر مجھے سینے سے بھینچ لیا.. زندگی میں پہلی مرتبہ ماں کا لمس اور خوشبو محسوس ہونے پر میری آنکھوں کے تمام بند ٹوٹ گئے. میں ہچکیوں لے لے رونے لگا. میں نے روتے ہوئے چاچا اور اماں کو اپنے اوپر بیتی افتاد کی روداد سُنائی.
سب کچھ سُننے کے بعد چاچا نے مجھے گود میں اُٹھایا, ماں اور کوٹھے کے چند اور لوگوں کے ساتھ مسجد کی راہ لی. مسجد کے باہر پہنچ کر چاچا نے مولوی کو آواز لگائی. تھوڑی دہر بعد مولوی باہر چلا آیا. باہر آ کر اُس نے یوں تاثر دیا کہ جیسے اُسے کچھ معلوم ہی نہ ہو. وہ الٹا ہمدردی دِکھانے لگا کہ میرے ساتھ ناجانے کس نے ایسا گھناونا کام کیا ہے. مولوی کی اِس دیدہ دلیری پر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں ہیسٹریائی انداز میں چیخ چیخ کر سب کو مولوی کے کرتوت بتانے لگا. لوگوں کو میری باتوں کی جانب متوجہ ہوتے دیکھ مولوی زور زور سے چِلانے لگا. اُس نے اُلٹا ہم پر الزام دھر دیا کہ لوگو دیکھو یہ رنڈی اور اسکی اولاد کیسے مجھ عزت دار آدمی پر کیچڑ اُچھال رہی ہے. پتہ نہیں اِس کا بیٹا کہاں سے منہ کالا کروا کر آیا ہے اور اب یہ اس کا الزام میرے سر دھر کر پیسے وصولنے کے چکر میں ہے. ہمارے معاشرے میں چونکہ مولوی کی بات ایک سند کی حثیت رکھتی ہے تو ایسے میں ایک رنڈی کی بھلا کون سُنتا.. مولوی نے ہمیں وہاں سے دھکے دے کر نکلوا دیا اور ہم تینوں چُپ چاپ اپنے کوٹھے پر واپس چلے آئے..
اُس دن کے بعد سے میری زندگی میں سب کچھ اتھل پتھل ہو گیا. مجھے ماں کی ہمدردی اور قرب تو میسر آ گیا تھا مگر دُنیا سے میں کٹ کر رہ گیا. سارا سارا دِن کوٹھری میں پڑا دیواروں کو تاکتا رہتا. جی جب زیادہ ہی گھبراتا تو ماں کے کمرے میں جھانک لیتا. ماں تب تک میری دلجوئی کرتی رہتی جب تک کہ نائیکہ آ کر اُسے ڈانٹ نہ دیتی. کوٹھے کے ماحول سے بیزار ہو کر اگر کبھی بھولے سے بھی باہر کا رُخ کر لیتا تو ٹکسالی کے لڑکے بالے اوچھے اوچھے اشارے کرتے اور طنزیہ قفرے کستے. چند ایک نے تو مُجھے مفعول کہنا شروع کر دیا تھا.. بس حالات کی اِس ستم ظریفی کے پیشِ نظر میں نے کوٹھری سے نکلنا ترک کر دیا. سارا سارا دِن اپنی جھلنگہ چارپائی پر لیٹا چھت کو تاکتا رہتا. شب و روز ہونہی گُزرتے رہے. اور میں نے عمر کے بیسویں برس میں قدم رکھا. زندگی کی بیس بہاریں دیکھ چُکنے کے باوجود اب تک میری حقیقی زندگی میں بہار کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا.
ایک دِن یونہی کوٹھری میں چِت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا کہ ماں کا بُلاوا آ گیا. میں جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر ماں کے کمرے میں پہنچا تو یہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا کہ نائیکہ وہاں پہلے سے ہی موجود تھی. یہ اب تک کا پہلا موقعہ تھا کہ جب اماں نے نائیکہ سے ڈرے بغیر اُسکی موجودگی میں مُجھ سے مُلاقات کی. خیر میں اماں کے پاس جا کر بیٹھ گیا. اِس تمام عرصے میں نائیکہ اماں کے کان میں کچھ کُھسر پُھسر کرتی رہی اور میرے بیٹھتے ہیں ایک نظر مُجھ پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی. اب کمرے میں صرف میں اور اماں تنہا رہ گئے. اماں کُچھ دیر مُجھے دیکھتی رہی پھر گویا ہوئی.. ‘میرے بیٹے آب وقت آ گیا ہے کہ تو اِس بات کو سمجھ لے تو ایک رنڈی کی اولاد ہے.. اور رنڈی کے اولادیں کوئی سونے کا چمچ مُنہ میں لے کر پیدا نہیں ہوتیں. بدلتے وقت کا تقاضہ ہے کہ جن کوٹھوں کی شمعیں روشن دِن کو بھی فروزاں رہا کرتی تھیں آج وہاں ویرانیوں کے ڈیرے ہیں.. تیری ماں کی بھی اب عمر ڈھلنے لگی ہے.. اب وقت آ گیا ہے کہ تو بھی اپنی زمہ داری کو سمجھ.. اور وہ کام کر کہ جس کے لئے تو اِس دُنیا میں آیا ہے’. یہ کہہ کر ماں خاموش ہو گئی. میں نے ناسمجھنے والی نگاہوں سے ماں کی جانب دیکھا.. ماں پھر گویا ہوئی.. ‘مجھ جیسی حراماں نصیب رنڈی کے یہاں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اُس کی زندگی کا مقصد پہلے سے ہی طے ہوتا ہے.. میرے بچے تیری زندگی کا مقصد بھی وہی ہے.. توں ایک رنڈی کی اولاد ہے اور ایک رنڈی کی اولاد کو ایک نہ ایک دِن دلال بننا ہی ہوتا ہے…’
اُس روز میں اپنی ماں کے پہلو سے اُٹھا.. مُجھے اُسکے لئے پہلا گراہک لانا تھا.. میرا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا.. مُجھے اپنے ارد گرد کا ہوش نہ تھا.. میرے اُٹھے قدم خودبخود کسی انجان منزل کی جانب گامزن ہو گئے.. کبھی واپس نہ لوٹنے کے لئے… اُس دِن کے بعد سے آج تک میں ہر راہ چلتے بندے کو روک کر پوچھتا ہوں.. اوپر چلو گے؟ میری ماں انتظار کر رہی ہے.. اور ہر بندہ مُجھے یہ کہہ کر جھڑک دیتا ہے.. ہٹ رنڈی کی اولاد.. آج زندگی کی ساٹھ خزائیں دیکھنے کے بعد میں اِس نام سے مانوس ہو چُکا ہوں.. مُجھے نہیں معلوم کہ میرے یوں چلے آنے کے بعد میری ماں کا کیا ہوا ہو گا اور وہ کب تلک زندہ رہی ہو گی.. مگر مجھے یقین ہے وہ کبھی کبھی یہ سوچ کر ضرور مُسکرا دیتی ہو گی کہ واقعی کوئی رنڈی کی اولاد تھا…
اے وی پڑھو
اشو لال: تل وطنیوں کا تخلیقی ضمیر||محمد الیاس کبیر
لفظ کہاں رہیں گے؟۔۔۔||یاسر جواد
آباد ہوئے، برباد ہوئے۔۔۔||یاسر جواد