میں گزشتہ چار پانچ دنوں سے جس آفت کا سامنا کررہا ہوں تو ایسے میں فیس بُک کو کم ہی وقت دے پارہا ہوں- آج بھی سارا دن میں کچہری میں مصروف رہا، میرے وکلاء دوستوں کی محبت کہ سب میری طرف سے اپنے وکالت نامے پر دستخط کے خواہش مند تھے۔
مہر افتخار نکیانہ ایڈووکیٹ نے بصد اصرار میرے دستخط لیے اور رانا آصف سعید جو ملتان ہوتے ہیں نے اپنے چیمبرز کے سب وکلاء کو میری کیس کی پیروی کرنے کو کہا، سابق اور موجودہ صدور و جنرل سیکرٹری بار محبت میں پیش پیش تھے اور ساتھ کے ساتھ سب کے سب مجھے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میں نے درخواست برائے اندراج مقدمہ میں واقعی صورت حال کو ایسی افسانوی صورت حال میں بدل کیوں نہ دیا جس سے ایف آئی آر میں زیادہ سخت دفعات لگنے کے امکانات یقین میں بدل جاتے،
میرا جواب بس یہی تھا کہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا ہے ایسا کچھ کرنے کو، یہ سب کچھ کرتے اور سوچتے ہوئے آج جب میں سحری کے وقت سے کچھ دیر پہلے گھر داخل ہوا تو یونہی کچھ دیر کے لیے فیس بُک اکاؤنٹ کھولا تو سب سے پہلے سامنے بزرگ دوست حیدر جاوید سید کی ایک تحریر اور ساتھ کچھ اسکرین شارٹ نظر آئے اور ساتھ ہی میں نے جاکر اُس شخص کی اپنے بارے میں پوسٹ پڑھی تو میں سوائے ملال اور افسوس کرنے کے اور کچھ بھی نہ کرسکا-
میں نے گزشتہ دو عشروں میں پاکستان کے جن سُلگتے اور آ بیل مجھے مار والے مسائل پر قلم اٹھایا تو ہمیشہ اپنے خیرخواہوں کی اکثریت کو یہی کہتے پایا:
کیا ضرورت ہے خدائی فوجدار بننے کی؟ کیا ضرورت ہے سارے جہاں کا درد سینے میں پالے رکھنے کی؟
میں نے ان دو عشروں میں کبھی نہ تو اپنے آپ کے در بدر ہونے، یہاں وہاں سے نکالے جانے اور اختیار کردہ راہ کے صلے میں ملنے والی دھمکیوں، تنبہیات اور انتقامی کارروائیوں کا اشتہار نہیں بنایا، اوکھلی میں سر دینے کے بعد پڑنے والے موصلوں کی دھمک کسی کو سُنانے کا قصد نہیں کیا اور نہ ہی ان سب کو وجہ بناکر کہیں بھی پولیٹکل اسائلم کی درخواست نہیں دی جبکہ سپانسر شپ کی پیشکشیں میرے دوست اور عزیز رشتے دار کرتے رہے- میں نے اپنی کوششوں کو کوئی جعلی ٹرسٹ بناکر برائے فروخت کا اشتہار نہیں لگایا، اور جن کی آواز میں بنا، اُن کی مظلومیت، اُن کے لہو کو کہیں بیچا نہیں، ایک واقعہ اس دوران رونما ہوا تو اُس کی اطلاع دوستوں کو دی تو مقصد کسی شہرت کا حصول نہ تھا…… لیکن یہ دیکھ کر کہ میرے ساتھ بیت جانے والے ایک واقعہ کو لیکر ایک نا عاقبت اندیش نے میرے بزرگ دوست پر کیچڑ اچھالا تو میرے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے، جسے آسانی سے میں برداشت نہیں کرپارہا ہوں-اپنے بزرگ دوست کے نام عُرفی کا یہ شعر کرتا ہوں
از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسمان مخواہ
(عرفی شیرازی)
مجھ سے عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی خواہ مخواہ مول لے لے۔
اے وی پڑھو
میڈیا منڈی اور عامل صحافی||عامر حسینی
پاکستانی اردو فکشن اور کم مائیگی کا مسئلہ۔۔۔ ||عامر حسینی
مقدمہ بھٹو اور بھگت سنگھ کا ||عامر حسینی