میری مسعود دھوتے سے کوئی ملاقات بھی نہیں رہی پھر بھی میں اسے جانتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان نیشنل بینک چوک جیسے بعد میں کلمہ پڑھا کر کلمہ چوک کر دیا گیا تھا پر واقع برگر شاپ پر محفلیں لگا کرتی تھیں شہر بھر سے چیدہ چیدہ سیاسی ورکر اور رہنما، شاعر، ادیب، صحافی اور میرے جیسے کچھ سامعین کم و بیش بلاناغہ اکٹھے ہوتے ملکی اور شہر کی سیاست گفتگو کا محور ہوتی تھی لیکن دیگر موضوعات بھی زیر بحث ہوتے ساتھ ساتھ گپ شپ اور ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا۔
ڈاکٹر نعیم بلوچ، شیخ عثمان فاروق، نذیر شاہ، لالہ عبدالقادر چوہان میں سے اگر کوئی بیٹھا ہوتا تو اور لوگ بھی ساتھ جا کر بیٹھنا شروع کر دیتے اور اگر ان چاروں میں سے کوئی نہ ہوتا تو ہم جیسے سامعین بازار کا ایک اور چکر لگانے نکل جاتے اور پھر جب واپسی ہوتی تو محفل عروج پر ہوتی۔
عموماً ڈاکٹر نعیم سب سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے جبکہ شیخ عثمان عشاء کی نماز پڑھ کر محفل میں شامل ہوتے تھے۔
ڈاکٹر نعیم بلوچ دھوتے کا ذکر کیا کرتے تھے اور دھوتے کے تین ڈی کے ساتھ عشق کا بھی جو دھوتا خود اپنے ملنے والوں کو بتایا کرتا تھا۔ وہ تین ڈی تھے
(لیڈی) ڈیانا
ڈن ہل سگریٹ
اور
ڈان (اخبار)۔
پھر میں ملتان آ گیا، استاد محمود نظامی سے تسلسل سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک دوست نے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب دھوتا بے روزگاری کاٹ رہا تھا اور منصور کریم کے گھر رہ رہا تھا استاد نظامی، منصور کریم اور ایک خاتون اس بات پر روز میٹنگ کرتے کہ دھوتا کسی دماغی خلل کا شکار ہے اور اسے ماہر نفسیات کو دکھانا چاہیے لیکن یہ سب اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ وہ دھوتے کو کیسے کہیں کہ اس کو ماہر نفسیات کو دکھانا ہے اس طرح تو وہ غصہ ہو گا اور کہے گا کہ میں کوئی پاگل ہوں جو تم مجھے ماہر نفسیات کے پاس لے جانا چاہتے ہو۔
آخرکار صلاح مشورے کے بعد یہ لوگ پہلے جا کر ڈاکٹر سے مل آئے اور اسے بتایا کہ ہم دھوتے کو کہیں گے کہ اس کے گھٹنے پر جو چوٹ لگی ہے اس کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے اور آپ نے پہلے اس سے اس چوٹ کے بارے میں پوچھنا ہے۔
دوسرے دن وہ سب دھوتے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے ڈاکٹر نے پہلے دھوتے سے گھٹنے کی چوٹ کے بارے پوچھا اور بعد میں جس مقصد کے لیے اسے لایا گیا اس بارے سوالات بھی کر لئے اور دوا تجویز کر دی۔
جاتے ہوئے منصور کریم نے ڈاکٹر سے فیس کا پوچھا تو اس نے کہا چار سو روپے۔ یہ سن کر وہ سب حیران ہوئے اور بقول شخصے نظامی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی فیس سو روپے نہیں ہے؟ ڈاکٹر نے تسلی سے جواب دیا کہ جی سو روپے ہے تو پھر آپ چار سو کیوں مانگ رہے ہیں استاد نظامی نے فوراً پوچھا جس پر ڈاکٹر نے پہلے سے زیادہ اطمینان بخش انداز سے کہا کہ میں نے مریض بھی تو چار چیک کئے ہیں آپ سارے یہی ایک دوا استعمال کر سکتے ہیں۔
دھوتا چلا گیا اس سے ملاقات نہ ہو سکی، استاد محمود نظامی اور ڈاکٹر فاروق کاکا بھرپور اظہار تعزیت۔ فیض صاحب نے اپنے بڑے بھائی کی وفات پر ایک نوحہ لکھا تھا جو کچھ یوں شروع ہوتا تھا
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
بھائی کسی کا بھی فوت ہو عمر گزشتہ کی کتاب ساتھ لے جاتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر