نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امت مسلمہ کا مخمصہ ۔۔۔۔ شکیل نتکانی

سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا سمیت کئی مسلم ممالک میں عقائد کی بنیاد پر احمدیوں کو کسی حد تک حکومتی سطح پر ہراساں کیا جاتا ہے

مرزائی کافر ہیں یا نہیں اس بات پر ابھی تک امت مسلمہ اختلاف کا شکار ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جہاں ریاستی سطح پر احمدیوں (مرزائی خود کو احمدی کہلواتے ہیں) کو کافر قرار دیا گیا ہے  بہت سے مسلم ممالک میں احمدیوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر  تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے جب کہ بہت سے مسلمان ممالک کے لوگ انہیں مسلمان جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان ویمبلڈن میں احمدیوں کی ایک مسجد کے افتتاح کی تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلام کا مثبت پہلو یورپ میں اجاگر کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کا اعلان بھی کیا۔

ہندوستان میں ایک عدالتی فیصلے کی رو سے احمدیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ قرار دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں احمدیوں کو حکومتی سطح پر کافر قرار دلانے کی تحریک کامیابی سے ہم کنار نہ ہو سکی ہے۔ سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا سمیت کئی مسلم ممالک میں عقائد کی بنیاد پر احمدیوں کو کسی حد تک حکومتی سطح پر ہراساں کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں انہیں ریاستی سطح پر سخت مذہبی پابندیوں کا سامنا ہے اور انہیں کافر قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان سے کوئی احمدی سعودی عرب حج یا عمرہ کرنے کے لئے نہیں جا سکتا کیونکہ پاکستان میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کے لئے ختم نبوت کا حلف نامہ جمع کرنا ہوتا ہے باقی دنیا بھر سے خاص طور پر یورپ اور امریکہ سے احمدی حج و عمرہ ادا کرنے ایک بار نہیں کئی بار آ جا سکتے ہیں اور آ جا رہے ہیں۔

پاکستان کی اسمبلی نے انیس سو چوہتر میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا لیکن آج تک اسمبلی میں ہونے والی بحث کو پبلک نہیں کیا گیا۔ ایک طرف اسمبلی میں مختلف مسالک کے علماء کرام قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے تو دوسری طرف احمدیوں کا اس وقت کا خلیفہ مرزا ناصر اور لاہوری گروپ کے سرکردہ رہنما اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث، فقہ, اصول اور دیگر اسلامی مذہبی کتابوں کے حوالہ جات کے ساتھ دلائل کے انبار لگا رہے تھے۔

اسمبلی میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی تھی جب یہ کہا گیا کہ اگر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا ہے تو پہلے اس دائرے کا تعین تو کرنا چاہیے یعنی مسلمان کی تعریف کیا ہے یا کون مسلمان ہے۔

مولوی حضرات جو بھی مسلمان کی تعریف بتاتے تو اس حساب سے انہیں میں سے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے کا خواہشمند کوئی نہ کوئی مسلک/گروہ بھی کافر ثابت ہوتا تھا، کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہ آ سکی کہ جس کو کسوٹی بنا کر قادیانیوں کو کافر دیا جا سکے مرزا ناصر انہیں کی کتابوں سے ملتے جلتے حوالہ جات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتا تھا۔

لاہوری گروپ کا کیس مزید پیچیدہ تھا کہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے آخرکار اسمبلی میں بری طرح پھنسی مولویوں کی اس ٹرین کو حکومت نے ایک زور کا دھکا لگایا اور دونوں مرزائی اور لاہوری گروپ اسمبلی سے کافر قرار پائے تاہم تاحال اس ساری کارروائی کو پبلک نہیں کیا گیا جبکہ اس ساری کاروائی کو خصوصی طور پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اب مرزائی سرکاری طور پر کافر قرار ہو چکے تھے لیکن ان کے معاملات زندگی زیادہ متاثر نہ ہوئے تھے 1977 کا الیکشن ہوا مرزائیوں نے اس الیکشن میں ووٹ بھی ڈالا اور حصہ بھی لیا۔

ان کے لئے اصل مسائل کی ابتدا 1984 کے ایک صدارتی  آرڈیننس کے اجراء کے بعد شروع ہوئی جب ان پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکیں گے، اسلامی شعائر اختیار نہیں کر سکیں گے، قرآن کی تلاوت نہیں کر سکیں گے کلمہ نہیں پڑھ سکیں گے اور خود مسلمان نہیں کہلوا سکیں گے۔

1985 کے انتخابات پہلے انتخابات تھے جس میں قادیانیوں نے حصہ نہیں لیا اور ووٹنگ کے عمل سے خود کو دور رکھا کیونکہ اقلیتی اور مسلم ووٹر لسٹیں الگ بنا کر مسلم اور نان مسلم کے لئے علیحدہ انتخاب کا طریقہ کار لاگو کر دیا گیا تھا اور وہ کسی صورت خود کو اقلیتوں کی صف میں شامل کرنے کو تیار نہ تھے۔

وہ دن اور آج کا دن پاکستان میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں احمدیوں نے اس سے لا تعلقی اختیار کر  رکھی ہوئی ہے۔ اب حکومت کی جانب سے قادیانیوں کو اقلیت کے خانے میں شامل کرنے کی خبروں کے بعد ملک میں بحث و تمحیص کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

اگر مرزائیوں کو اقلیت کے خانے میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے طور پر سامنے آئیں گے، نادراکے 2012 کے اعداد و شمار کے مطابق عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد مرزائی پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں جبکہ اس سے ایم سال قبل نامور پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر اشتیاق احمد نے 2011 میں اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ آزاد سٹڈیز کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد مجموعی آبادی کا دس فیصد ہے جبکہ ہندوں، احمدیوں اور عیسائیوں کی آبادی چالیس چالیس لاکھ کے قریب ہے۔

اب اگر قادیانیوں کو اقلیتوں کے خانے میں شامل کر دیا جاتا ہے تو وہ اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے اور سرکاری  نوکریوں میں بھی ان کا کوٹہ ہو گا جو کہ پاکستان میں مذہبی سوچ کے حامل لوگوں کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے لیکن کیا یہ مجوزہ عمل خود قادنیوں کے لئے قابل قبول ہے کہ نہیں اس حوالے سے اس تجویز پر قادنیوں کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن قوی امکان یہی ہے کہ وہ بھی اس تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ ایک تو ایسا کرنے سے وہ خود مان لیں گے کہ پاکستانی قومی اسمبلی کا ان کو کافر قرار دینے کا فیصلہ ٹھیک تھا جس کی وہ آج تک مخالفت کرتے آئے ہیں

دوسرے پاکستان میں کسی حد تک نمائندگی اور حقوق ملنے سے وہ دنیا کو یہ تاثر دے کر کہ پاکستان میں ان کے حقوق سلب ہو رہے ہیں جو ہمدردی سمیٹتے ہیں اس سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ مسئلہ جلد ہی بغیر کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچے دم توڑ جائے گا۔ پاکستان میں کسی کو معاشرے میں ذلیل کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود ہو تو اس پر مرزائی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے لیکن ایک پہلو اہم ہے وہ یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے پڑھے لکھے دینی رحجان رکھنے والے لوگوں کو اپنے نظریات سے زیادہ متاثر کیا یہی وجہ ہے کہ علامہ  اقبال جیسا اسلام شناس اور قرآن فہمی کا دعویٰ رکھنے والا شخص بھی مرزا کی تعلیمات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور کچھ تاریخی حوالہ جات کے مطابق اپنے والد کے ساتھ جا کر مرزا کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی اقبال جماعت احمدیہ سے مرزا کی وفات کے بعد بھی منسلک رہا ہے وہ تو جب دوسری گول میز  کانفرنس میں شرکت کے لیے جماعت احمدیہ نے اقبال کی خواہش کے برعکس سر ظفر اللہ خان کا نام تجویز کیا تو اقبال نے جماعت احمدیہ سے اپنے روابط منقطع کر  لئے۔

دیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور، سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر نعیم بلوچ جو آج کل علیل ہیں اور دوستوں کی محفلوں میں کافی عرصے سے اپنی بیماری کی وجہ سے شریک نہیں ہو رہے تونسہ شریف کی کسی بستی سے تعلق رکھنے والے کسی ڈتو (اللہ ڈتہ) نامی کسان کی ایک دلچسپ بات اکثر سنایا کرتے تھے کہ ڈتو سے اس بستی کے کسی بندے نے پوچھا ‘ہائیں وے ڈتو آ، سنڑے سے توں مرزائی تھی گئیں’ (دتو، سنا ہے تم مرزائی ہو گئے ہو) اس پر ڈتو نے ایک تاریخی جواب تھا جب ڈاکٹر صاحب وہ جواب سناتے تو ساری محفل میں قہقہے گونج پڑتے’ ڈتو جواب دیتا ‘ادا میکوں پتہ کئے نی، خیرا بھرا شاہر گیا ودا ہوندے اوکوں پتہ ہوسی’ (بھائی مجھے پتہ نہیں ہے میرا بھائی خیرا شہر آتا جاتا رہتا ہے اسے پتہ ہو گا)

About The Author