وفاقی وزارت اطلاعات میں پونے دوسال کے دوران تیسری بار تبدیلی ہوئی۔ آپا فردوس عاشق اعوان رخصت کر دی گئیں۔سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز وفاقی وزیراطلاعات ہوں گے اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ معاون خصوصی اطلاعات۔
اطلاعات کے میدانوں میں پچھلی شام تبدیلیوں کی خبر پھیلتے ہی سابق مشیر اطلاعات کیخلاف الزامات کی دھول خوب اُڑی، دونوں ہاتھوں سے دھول اُڑانے والوں میں دو ایسے سیاپا فروش بھی شامل تھے جو تین چار دن قبل وزیراعظم ہاؤس میں انہیں (فردوس عاشق اعوان کو) یقین دلا رہے تھے کہ اُن کا مرتبہ بڑی بہن کے برابر ہے۔
جواباًآپا نے ایک کا کاندھا تھپتھپایا اور دوسرے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا،
کہا جارہا ہے کہ آپا نے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کے واجبات کی ادائیگی کیلئے10 فیصد کمیشن طلب کیا تھا۔10فیصد کمیشن والی بات میدان میں اسی چھوٹے بھائی نے چھوڑی جس کے سر پر انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں شفقت سے ہاتھ پھیرا تھا۔
ایک دعویدار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ وفاقی وزارت اطلاعات کے پی آئی او طاہر حسن اور اشتہاری ایجنسیوں اور بعض اطلاعاتی اداروں سے کمیشن کیلئے مذاکرات کرنے والے مڈل مین وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے تیار ہیں۔
ان(سابق مشیر اطلاعات) پر دو الزام اور اُچھالے گئے۔ اولاً یہ کہ انہوں نے اختیارات سے تجاوز کر کے ایک کی بجائے تین گاڑیاں اپنے زیراستعمال رکھیں۔
ثانیاً یہ کہ انہوں نے پی ٹی وی میں مالی بحران کے باوجود متعدد افراد کو ملازمتیں دیں۔
پی ٹی آئی کے ٹائیگر نے انہیں سوشل میڈیا پر خوب آڑے ہاتھوں لیا اور جو جو ارشادات ٹویٹ اور پوسٹوں کی صورت اُچھالے گئے یہاں لکھنے سے حد ادب مانع ہے۔
ایک الزام البتہ ایسا ہے جو ٹرینڈ کی صورت وائرل ہوا، وہ یہ ہے کہ
”آپا زرداری کی شاگرد ہیں اس لئے10فیصد طلب کیا“۔
سیاست اور سیاسی حلقوں کے سینوں میں دل نہیں ہوتا، یہ رشتے پل بھر میں تعمیر اور زمین بوس ہوتے ہیں۔
ہر دو مواقع پر خوشامد کرنے اور بھڑاس نکالنے والے اخلاقیات سے محروم ہوتے ہیں،
انہیں (سابق مشیر اطلاعات) رخصت کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں اولاً یہ کہ وہ خودستائی وخودنمائی کے جنون میں ایسی ایسی باتیں بھی کہہ جاتی تھیں جو حکومت کیلئے مسائل پیدا کر دیتیں۔
ثانیاًیہ کہ وہ اُس پرانی لڑائی کو نئے دور میں بھی توانائی کیساتھ نبھاتے دیکھی گئیں جو اُس وقت شروع ہوئی تھی جب وہ پیپلزپارٹی کی وزیراطلاعات تھیں۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر دو باتیں اہم ہیں ایک یہ کہ بطور مشیر اطلاعات وہ میڈیا اور عوام میں حکومت اور اس کی کارکردگی کو بنا سنوار کر پیش کرنے میں ناکام رہیں۔
ثانیاًیہ کہ انہوں نے اشتہارات کے اجرا کیلئے ایسی غیراعلانیہ پالیسی پر عمل کروایا جس سے مقبول میڈیا کا ایک بڑا حصہ براہ راست متاثر ہوا اور علاقائی اخبارات کریا کرم کے نزدیک پہنچ گئے۔
تکبر اور رعونت ان میں پیدائشی ہے، دُکھی بھی بہت جلد ہو جاتی ہیں، رونے میں بھی دیر نہیں کرتیں۔
بہرطور تادم تحریر ان کیخلاف الزامات ہی الزامات ہیں، ایک خیالی درخواست جس کے بارے میں ان کے منہ بولے چھوٹے بھائیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ وزیراعظم کی میز پر پڑی ہے،
انکوائری کے دعوے البتہ درست نہیں۔
ہاں یہ درست ہے کہ انہوں نے بعض مواقع پر کچھ ایسی باتیں کیں جن کی وجہ سے میڈیا کے ایک حلقہ نے سیاسی حکومت کو چھوڑ کر ریاستی اداروں کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا۔
غالباً آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کو اطلاعات کیلئے وزیراعظم کا خصوصی معاون اسی لئے بنایا گیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں اور میڈیا کے ایک حصہ میں پیدا ہوئی دوریاں ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔
ان کا کردار کتنامؤثر ہوسکتا ہے اس کا اندازہ پچھلی شام سے نصف شب تک الیکٹرانک میڈیا کے اُن سیاپا فروشوں کے چہروں پر پھیلی خوشی اور جالندھر سویٹ مارٹ کے موتی چور لڈوؤں جیسی تعریفوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
شبلی فراز دھیمے انداز میں گفتگو کرنے والے شخص ہیں لیکن سیاسی طور پر وہ تحریک انصاف کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں جو مخالفین کو رعایت دینے کا قائل نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیراطلاعات اور مشیر اطلاعات دونوں میڈیا اور عوام میں حکومت اور اداروں کی ساکھ کو بحال کرانے اور روشن چہرہ بنا کر پیش کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز بارے کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں البتہ نئے مشیر اطلاعات ”رام“ کرنے کے فن میں یکتا ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر انہوں نے میڈیا میں درجنوں مداح پیدا کئے یہ مداحین پچھلی شب سے آمدبہارنوپر بہت خوش ہیں۔
قوی اُمید ہے کہ داستان گو خلیفہ ہارون الرشید پھر سے مقام ومرتبہ حاصل کر پائیں گے، آخر برادری بھی تو معنی رکھتی ہے اور گزرے سالوں میں دونوں کے تعلقات بہت مثالی تھے۔
شبلی فراز کیلئے یہ نئی دنیا ہے، اس نئی دنیا کے پرانے لوگ شبلی سے اس کے مرحوم والد احمد فراز کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ حضرت علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کی طرح عقیدت مندوں کو مایوس کرتے ہیں یا محبتوں کا بھرم رکھنے کیساتھ اپنی شناخت بنا پاتے ہیں۔
آپا فردوس عاشق اعوان کا مستقبل کیا ہوگا؟
میڈیا، تحریک انصاف، اسلام آباد کی موقع شناس اشرافیہ اور خود وفاقی کابینہ (اس میں کچن کابینہ بھی شامل ہے) میں انہوں نے سال بھر میں جو دشمن پیدا کئے وہ انہیں پھلنے پھولنے دیں گے یا اب وہ قصہ ماضی ہوئیں؟
اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پچھلی شب کوششوں کے باوجود وزیراعظم نے ان کا فون نہیں سنا، ان کی خواہش تھی کہ رخصتی کے اعلان سے قبل وزیراعظم سے ان کی ملاقات کی ایک تصویر میڈیا کو جاری کروا دی جائے۔
خیر چلتے چلتے ایک بات ہے لطیفے جیسی عرض کئے دیتا ہوں۔ آپا اکثر شکوہ کرتی رہتی تھیں ان سے اپنے چینل اور اخبار کیلئے مراعات لینے والے بھی تجزیوں اور کالموں میں ان کے بارے میں مناسب رائے نہیں دیتے۔
خیر اب ان کے پاس وقت ہے ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ اگر انہوں نے زبان پر قابو رکھا ہوتا تو ان کی رخصتی پر کوئی ایک شخص تو دو بول ہمدردی کے ہی بول دیتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر