دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے زبان۔۔۔ احمد علی کورار

نرم گفتاری ،سادہ لوحی  اور شائستگی اس کی پہچان،دراز قا مت،گھنے بال اور سانولا رنگ اس کے  جسمانی خدو خال تھے ۔اسکی  زندگی کا معمول بکریو ں کی ہمراہی میں گزرتا تھا۔بکریو ں سے انھیں بے  حد  پیار تھا، اس نے پیار سے  ان کے نام رکھے تھے ۔وہ نام سے انھیں پکارتا وہ اس کے پاس دوڑی چلی آتی۔وہ علی الصبح  بکریو ں کو کھیتو ں میں چر نے  لے جاتا اور غروب آفتاب گھر لوٹتا۔
یہی اس کا معمول تھا ۔اسے زندگی کی چکا چوند سے کوئی سرو کار نہ تھا ۔اس کا بچپن جنگل اور کھیت کے ماحول میں گزرا تھا۔لیکن اس کے لب و لہجے میں ایسا اثر تھا کہ ایسا لگتا تھا کے وہ کسی ادبی  گھر انے  کا چشم و چراغ ہے۔وہ گاؤں میں سمندر کے نام سے مشہور تھا ۔وہ واقعی میں محبت کا ساگر تھا ۔ایک مرتبہ سمندر اپنی بکریا ں چرا تے چرا تے قریب کسی دوسرے گاؤں  نکل گیا۔پیاس کی شدت کا احساس ہوا ۔اسے  ایک کنواں دکھائ دیا  وہ  پیاس بجھا نے کی غرض سے کنو یں کی جانب چلا۔جہاں اس کی نظرکنویں پر پانی بھرتی ہوئ دو شیزہ پر پڑی ۔زندگی میں اس نے بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تھا مگر کسی نے بھی اسے مائل نہیں کیا تھا ۔مگر سند ر ی اسے لبھا ئی۔
سندر ی بے خبر تھی کہ کوئ اسے بڑے  ادب و انہماک  سے دیکھے جا رہا ہے ۔اب اس کی پیاس کی شدت کا احساس ختم ہوا ۔اس نے پانی نہیں پیا اور سندر ی کے خیالوں میں گم سم لوٹا ۔یہ کسی کو بھی،کسی سے بھی،کب کیوں کر کیسے بس ہو جاتی ہے نہ اس کا مذہب نہ فرقہ نہ ذات نہ قبیلہ نہ زبان ۔یہ تو بس گہرا احساس ہے اور اس احساس کا نام محبت ہے ۔سمندر ہر روز سندر ی کے گاؤں آتا سندر ی کو دیکھتا  پانی پیے بغیر کنویں سے واپس ہوتا ۔
سندر ی بات نہیں کر سکتی تھی وہ گونگی تھی ۔۔۔
وہ اشا روں سے بات کرتی تھی ۔
سمندر کی محبت کا زوایہ محدود تھا ۔
وہ سندر ی سے محبت کا اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ایک سال سمندر سندر ی کو دیکھنے اس کے گاؤں آتا رہا ،لا پر وہی کی وجہ سے اس نے کافی بکر یاں کھو دیں۔ایک دن  کافی انتظار کے بعد بھی سندری کنویں پر نہیں آئی ۔سممندر مایوس بیٹھا تھا۔
اچانک اس کی نظر لوگوں کی بھیڑ پر پڑی ۔
جو ایک میت کو قبر ستا ن لے کے جا رہے تھے ۔
سمندر کو خیال آیا کہ وہ بھی ثواب کی نیت سے میت کو کندھا دے وہ اٹھا اور اس جانب گیا ۔
میت کی تدفین کے بعد لوٹا کنویں سے ھاتھ منہ دھو یا سندری کو بن دیکھے اپنے گاؤں واپس ہوا
اگلے دن وہ سندری کو دیکھنے پہنچا ۔
تو سندری آج بھی کنویں پہ نہیں آئی تھی
سمندر اس کا انتظار کرنے لگا،قریب ہی عورتیں باتیں کر  رہی تھی کہ کم بخت سانپ کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا ایک بے زبان لڑکی کو ڈسا اور اس کی جان لے لی۔جب سمندر نے یہ سنا  وہ خاموشی سے اٹھا بکریو ں کو  کنویں پر ہی چھوڑا ۔
اور گھنے جنگل کی طرف چلا گیا اور واپس کبھی نہیں آیا۔

About The Author