زندگی اداسی کے وائرس کا شکار ہوکر
خاتمے کے دہانے پر ہے
آج ہجر کا لاک ڈاؤن نہیں
ناہی تمھارے لمس کے قرنطینہ میں
مجھے جھونکا گیا ہے
مگر پھر بھی آنسو بہانے ہونگے
زندگی مسلم ہیں
اور ہم بت پرست مشرک جنھیں
ہر حال میں آنسوؤں کا جذیہ اپنی سلامتی کےلیے
فرش پر بہانا ہوگا
تاکہ خدا کی بنائی اسلامی سلطنت میں
سانس بحال رہے
دو آنکھیں جو میرے نام تھیں
چھین لی گئیں
دو آنکھیں جو خواب میں دکھائیں گئیں
جھوٹ ثابت ہوئیں
موت کے سوا
سب جھوٹ بن گیا ہے
مگر موت بھی اداسی میں زندگی پر
ہنستی ہے
اپنی قبر کے نام
جہاں شاید سکون میسر ہو
مگر وائرس پھر بھی
ختم نہیں ہوگا
حسن مرتضی
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
محبوب تابش دی درگھی نظم، پاݨی ست کھوئیں دا ||سعدیہ شکیل انجم لاشاری