زندگی اداسی کے وائرس کا شکار ہوکر
خاتمے کے دہانے پر ہے
آج ہجر کا لاک ڈاؤن نہیں
ناہی تمھارے لمس کے قرنطینہ میں
مجھے جھونکا گیا ہے
مگر پھر بھی آنسو بہانے ہونگے
زندگی مسلم ہیں
اور ہم بت پرست مشرک جنھیں
ہر حال میں آنسوؤں کا جذیہ اپنی سلامتی کےلیے
فرش پر بہانا ہوگا
تاکہ خدا کی بنائی اسلامی سلطنت میں
سانس بحال رہے
دو آنکھیں جو میرے نام تھیں
چھین لی گئیں
دو آنکھیں جو خواب میں دکھائیں گئیں
جھوٹ ثابت ہوئیں
موت کے سوا
سب جھوٹ بن گیا ہے
مگر موت بھی اداسی میں زندگی پر
ہنستی ہے
اپنی قبر کے نام
جہاں شاید سکون میسر ہو
مگر وائرس پھر بھی
ختم نہیں ہوگا
حسن مرتضی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب