نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئے روز وزارتی تبدیلیاں۔۔۔ رؤف لُنڈ

محنت کش طبقے کیلئے چہرے بدلنا ان کی ذلتوں اور اذیتوں کے عرصے کو دراز کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

آئے روز وزارتی تبدیلیاں ، منو بھائی کا سنایا ہوا لطیفہ اور کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کا ایک مقبول جملہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

جو لوگ اس طبقاتی نظامِ سرمایہ میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی معاملات کو صرف ناک کی سیدھ میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں تو ایک دھوکے کے بعد ایک نیا دھوکہ کھانا ہمیشہ ان کے مقدر میں لکھا ہوتا ھے۔ ویسے تو مملکتِ خداداد اپنے جنم سے ہی حکومتی و وزارتی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک نا قابلِ شکست ریکارڈ رکھتی ھے۔ پاکستان نے اپنے جنم کے بعد کی تقریباً پہلی ایک دہائی کے اندر اتنی حکومتوں کو بدلتا دیکھا کہ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کے ایک پردھان کو کہنا پڑا کہ اتنے مختصر وقت میں ہمارے لوگوں نے اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنا پاکستان میں حکومتیں بدلی گئی ہیں "۔ سیاست و حکومت میں چہرے بدلنا کسی بہتری کیلئے نہیں ہوتا اور اگر کچھ فائدہ ہوتا بھی ہے تو صرف اور صرف بالادست طبقے کا ہوتا ھے اس ناٹک کو چلاتے ہیں۔۔۔۔۔

محنت کش طبقے کیلئے چہرے بدلنا ان کی ذلتوں اور اذیتوں کے عرصے کو دراز کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ محنت کشوں کی بہتری اور بھلائی صرف طبقاتی سماج کے خاتمے سے مشروط ہوتی ھے۔ اگر ہم چہرہ بدلنے کی اس تاریخ کے مختصر عرصے کے مضمرات اور مقاصد کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئیگی کہ اس استحصالی نظام کی بقاء کیلئے نوازشریف وہ سب کچھ نہیں کر سکتا تھا جو مشرف نے آ کے کیا۔ اور مشرف وہ سب کچھ کر سکنے سے عاری ہوگیا تھا جو پیپلز پارٹی حکومت سے کرایا گیا۔ پیپلز پارٹی جو نہ کر سکتی تھی اس کی تکمیل کیلئے اقتدار کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھ دیدی گئی ھے۔ دیکھیں کب تک چابک جان پر پڑتے ہیں اور کب تک یہ چوپٹ دوڑ سکتا ھے؟ لیکن بار بار ہانپ جانے کی رفتار کا سفر کٹنے کی رفتار سے کوئی تال میل لگتا نہیں۔ تبھی تو وزارتوں کی تبدیلی کے گھن چکر پہ گزارا چل رہا ھے۔۔۔۔

اس کیفیت میں منو بھائی کا سنایا لطیفہ کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران لام بندی (جبری بھرتی ) کے قانون کے تحت ایک مراثی کے بیٹے کو بھرتی کیا گیا۔ (میری طرف سے مراثیوں سے دلی اور دست بستہ معزرت )۔ مراثی لڑکے کا باپ کہیں گیا ہوا تھا۔ واپس گھر آیا تو بیٹے کا پتہ کیا۔ اسے بتایا گیا کہ اسے فوجی بھرتی کیلئے لے گئے ہیں۔ مراثی دوڑا دوڑا بھرتی آفس پہنچا۔ فوجی آفیسر سے پوچھا کہ میرے بیٹے کو کیوں بھرتی کیا ھے؟ آفیسر نے جواب دیا کہ ہماری ہٹلر سے لڑائی چل رھی ھے تو اس لئے۔ مراثی نے فوجی آفیسر سے کہا کہ ” اگر آپ میرے بیٹے کے آسرے پہ لڑائی لڑ رھے ہیں تو میرا مشورہ ھے کہ ہٹلر سے صلح کر لیں”۔۔۔۔ اب کون ،کسے، کب ،کیا مشورہ دیتا ھے ہمارا اس سے کیا ؟

لیکن استحصالی نظام بچانے کیلئے چہرے بدلنے کے ناٹک کی قدیمی رسم کی ہر بار نا کامی کو عظیم انقلابی کامریڈ ٹیڈ گرانٹ اپنے ایک جملے میں اس طرح دہراتے تھے کہ "بہرحال یہ جو بھی کریں گے غلط کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

About The Author