نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عامر حسینی پرحملےکی کوشش ۔تازہ اپڈیٹ

سوچتا ہوں جن کے حق میں اتنی آوازیں نہ ہوں جتنی میرے حق میں آٹھ رہی ہیں اور اٹھتی رہیں گی تو اُن کے ساتھ یہ ریاست کیا سلوک کرتی ہوگی-

رات کے پونے بارہ بج چُکے ہیں، مجھے پہلے ڈی ایس پی صدر سرکل خانیوال کا فون موصول ہوا اور پھر ابھی تھانہ مخدوم پور خانیوال سے فون آیا اور بتایا گیا کہ کل صبح 10 بجے ڈی ایس پی صدر سرکل کے پاس میری دی گئی درخواست پر تفتیش ہوگی، چک والوں کی نشاندہی پر مبینہ تین ملزمان میں سے شناخت ہونے والے ملزم مقبول گجر کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ 11/ اے ایچ چک کا رہائشی ہے اور مبینہ ٹاؤٹی پر اُس کا تھانہ مخدوم پور کی حدود میں داخلے پر پابندی لگی رہی ہے- یہ بھی پتا چلا ہے کہ اُس کا کزن مسعود گجر ڈی پی او کے اسکواڈ میں شامل پولیس گاڑی کا ڈرائیور ہے_
میں کبھی زندگی میں مقبول گجر نامی شخص سے نہ تو ملا، نہ ہی کبھی کسی قسم کا اُس سے میرا کبھی انٹریکشن ہوا، اس وقوعے میں اُس کا شامل ہونا خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ مجھے باوثوق زرایع سے پتا چلا ہے کہ وہ ایسے گروہوں سے تعلق میں رہا ہے جن پر میرا قلم کبھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوا- میرا نامزد کردہ شخض بقول ڈی ایس پی کے اب یہ کہانی گڑھ رہا ہے کہ اُس کا مجھ سے چار ایکٹر باغ کا تنازعہ چل رہا ہے جبکہ میں تو سرے سے اس قسم کی کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث ہی نہیں ہوتا، نہ میری اس شخص سے کبھی دو بدو یا فون پر کوئی بات ہوئی ہے…. میرے کسی بھائی یا کسی اور جاننے والے نے اس شخص سے کوئی کاروباری ڈیل تک نہیں کی…. مقبول گجر نامی ملزم کی یہ خودساختہ کہانی مزید خطرے کا احساس دلاتی ہے کہ دال بہت ہی کالی ہے….. دن دیہاڑے مجھ پر حملہ کرنے کے بعد لین دین کے تنازعے کی کہانی گھڑلینا یہ بتاتا ہے کہ معاملہ میری سوچ سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے-

مجھے مقامی پولیس کے رویے پر بہت افسوس ہے کہ وہ مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرکے تفتیش کرنے کی بجائے درخواست کی جانچ کرنے میں لگی ہوئی ہے، میں نے ڈی پی او خانیوال اور ڈی ایس پی صدر سرکل خانیوال کو کہا بھی تھا کہ کیا وہ شناخت کردہ ملزم کے بیک گراؤنڈ بارے جانتے ہوئے بھی یہ سمجھتی ہے کہ پرچہ درج کرنے سے پہلے انکوائری کی ضرورت ہے؟ کیا ملزم نے مبینہ تنازعے بارے کوئی دستاویزی ثبوت یا مجھ سے پہلے تعلق بارے کوئی کال وغیرہ کا ریکارڈ پیش کیا ہے؟ کوئی ثبوت دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک خودساختہ کہانی کو لیکر ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟

میرا ریکارڈ سامنے ہے، آج تک میں نے کسی ایک شخص کے خلاف زاتی طور پر ایف آئی آر درج نہیں کروائی، میں کسی مقامی تھانے میں کسی ایف آئی آر کا مدعی نہیں ہوں، سوائے سیاسی بنیاد پر گرفتاریوں کے اور وہ بھی کبھی ضلع خاانیوال کی حدود میں کبھی نہیں کبھی کسی الزام کے تحت کسی مقدمے کا نامزد ملزم بھی نہیں ہوں- کسی ایجنسی نے آج تک کسی رپورٹ میں مجھے کبھی کسی اخلاقی جرم اور غیرقانونی دھندے میں ملوث قرار نہیں دیا- اس کے باوجود کئی گھنٹے گزر گئے ایف آئی آر نہیں دی گئی اور ملزم گرفتار نہیں ہوئے-

کیا میں یہ سمجھوں کہ میرے خلاف ویسا ہی ہانکا لگایا جارہا ہے جو اس ملک میں ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے لیے لگایا جاتا رہا اور وہ لوگ قتل ہوگئے؟

مقامی پولیس بجائے معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے اسے مبینہ ملزم کے کہنے پر گھٹیا قسم کے ڈومیسٹک /بزنس تنازعے میں بدلنا چاہتی ہے…… میرے جیسے قلم کے مزدور ایسی گھٹیا پریکیٹیسز جانتے ہوتے تو وہ حرام کی کمائی سے کب کے دنیاسنوار چُکے ہوتے…….

میں یہ سب دیکھ کر قطعی مایوس نہیں ہوا ہوں نہ اپنے نظریات و افکار اور اپنے ایکٹوازم سے پیچھے ہٹنے والا ہوں-

مقامی، صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی، ادبی، سیاسی و سماجی شخصیات اور تنظیموں نے بروقت جو ردعمل دیا اور میرے ساتھ کھڑے ہیں، اور عام لوگ جس محبت اور اپنائیت کا میرے ساتھ اظہار کررہے ہیں، میں اُس پر اُن سب کا ممنون و مقروض ہوں-

مجھ سے بے انتہا محبت، پیار کرنے والے ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنھوں نے مجھے برملا پیغام بھیجا ہے کہ میں کچھ وقت کے لیے خاص طور پر بلوچ ایشو، شیعہ نسل کُشی، اسٹبلشمنٹ کے اندر بیٹھے thugs بارے اپنی بے باک اور بے لاگ تحریریں بند کردوں……. مجھے اُن دوستوں کی خیرخواہی، محبت اور پیار پر زرا شک و شبہ نہیں ہے لیکن میں فقط اتنا کہوں گا کہ اگر کسی طرف سے کوئی ہانکا لگا بھی دیا گیا ہے تو میں اُس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں- ضمیر کی آواز نہ سُننے کی میرے اندر نہ تو استعداد ہے اور نہ ہی میری سوچ کے فریم ورک میں یہ فٹ بیٹھتی ہے- سوچتا ہوں جن کے حق میں اتنی آوازیں نہ ہوں جتنی میرے حق میں آٹھ رہی ہیں اور اٹھتی رہیں گی تو اُن کے ساتھ یہ ریاست کیا سلوک کرتی ہوگی-

عامر حسینی

About The Author