ہندوستان کی تاریخ دلچسپ ہے۔
رعایا بادشاہوں کی عزت دہشت اور خوف سے کرتی‘ جبکہ درویشوں سے انہیں عقیدت تھی ‘جہاں جا کر وہ سکون تلاش کرتے تھے۔
جہاں بڑے شہنشاہ اور بادشاہ گزرے وہیں بڑے اولیا بھی گزرے جو بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینا تو درکنار انہیں اپنی خانقاہ میں آنے تک کی اجازت نہ دیتے تھے۔ بادشاہوں اور فقیروں کے درمیان ہمیشہ تعلقات خراب رہے۔ بادشاہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ ان کے گیت گائیں‘ ان کی شان میں قصیدے پڑھیں‘ لیکن یہ فقیر ایسے بے نیاز تھے کہ اپنے در پر بادشاہ کا سایہ تک نہ پڑنے دیتے۔
بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ بخارا گئے تو حضرت اجل شیرازیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اجل شیرازیؒ اپنے دور کے بڑے بزرگ تھے‘ خدا کی محبت میں اتنے غرق کہ دنیا کی بڑی سے بڑی ہستی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ سلاطینِ وقت اور اُمرائے زمانہ سے ملاقات کو حرام سمجھتے تھے۔
یہی حال حضرت بابا فریدؒ کا تھا۔ ان کا ایک مرید تھا مولہ سید۔ اسے شوق چرایا کہ وہ دلی جائے گا‘ بابا فریدؒ نے کہا: تمہارے اندر جو خواہشات جنم لے رہی ہیں ان سے بچو‘ حکمرانوں سے ہم فقیروں کو دور رہنا چاہیے۔ مولہ سید نہ مانے‘ اجازت کے لیے اصرار کیا تو بابا فرید بولے: کیوں اپنی جان کا دشمن ہورہا ہے‘ دلی جا کر تُو مارا جائے گا۔ مولہ سید نے بابا فریدؒ کی وارننگ پر کان نہ دھرے‘ خواہشات انہیں دلی لے گئیں اور ایک دن بادشاہ کے ہاتھوں مارے گئے۔
حضرت بابا فریدؒ اکثر کہتے تھے کہ فقیر کے لیے سب سے نقصان دہ چیز دولت کی محبت ہے۔
اگرچہ بلبن اس وقت تک بادشاہ نہیں بنا تھا لیکن اوچ جاتے ہوئے وہ بابا فریدؒ کی خدمت میں اجودھن (پاک پتن) حاضر ہوا تھا۔ بلبن اس وقت بھی ہندوستان کا طاقتور ترین آدمی تھا۔ وہ سوالی کے روپ میں بابا فرید کے ہاں گیا ۔ سلطان ناصرالدین محمود بھی بابا فرید کے پاس حاضری دینا چاہتا تھا لیکن بلبن کو بتایا گیا تھا کہ بابا فریدؒ حکمرانوں سے دور رہتے ہیں‘ وہ پہلے جا کر کچھ اہتمام کرے تاکہ وہ ملنے پر راضی ہو جائیں۔بلبن نے بابا فریدؒ سے ملاقات سے پہلے اجودھن اور گردونواح کے دیہاتوں کی معافی کا پروانہ حاصل کیا‘ پھر قیمتی تحائف لے کر اجودھن روانہ ہوا۔ جب بابا فریدؒ کو بلبن کے آنے کی اطلاع ہوئی کہ ان کے ساتھ فوجی لشکر بھی ہے تو اپنے مریدوں سے کہا کہ انہیں کہو واپس چلے جائیں‘ درویش کو ان سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
بلبن کے دل میں بادشاہ بننے کی خواہش تھی اور وہ بابا فرید ؒسے دعا کرانا چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے بابا فریدؒ نے ملنے کی اجازت دی۔ جب بلبن سامنے آیا تو بابا فریدؒ نے ایک رباعی پڑھی جس کا مطلب تھا کہ شہنشاہِ ایران فریدوں آسمان سے نہیں اترا تھا لیکن جب اس نے سخاوت سے کام لیا تو اس درجے تک پہنچ گیا‘ تُوبھی سخاوت اور بخشش سے کام لے تو ایک دن فریدوں ہو جائے گا۔
بلبن سناٹے میں آگیا کہ بابا فریدؒ نے دل کی بات پڑھ لی تھی۔ بلبن بولا: دل سے مجبور ہوں‘ ہر شخص بادشاہ بننے کی خواہش رکھتا ہے‘ دعا کریں یہ غلام زادہ بھی ہندوستان کا بادشاہ بن جائے۔ بابا فریدؒ بولے: سخاوت اور رحم سے کام لیا کرو کیا پتہ یہ فیاضی تمہارے کام آ جائے۔ اور پھر ناصرالدین کے انتقال کے بعد بلبن بادشاہ بن گیا۔
ایک حاجت مند بابا فریدؒ کے پاس گیا کہ بادشاہ بلبن سے میری سفارش کر دیں۔ بابا فریدؒ بولے کہ بلبن کی عقیدت اپنی جگہ لیکن میں حکمرانوں اور امیروں سے کوئی رغبت نہیں رکھتا۔
دلی کے تخت پر بیٹھے بادشاہوں کو ہمیشہ ان فقیروں سے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ لوگ ان کے دربار میں آنے کی بجائے فقیروں کی خانقاہوں میں جاتے ہیں۔
یہ فقیر دراصل عام ہندوستانیوں کے نزدیک بادشاہوں کی اپوزیشن کا رول ادا کرتے تھے۔اس حوالے سے حضرت نظام الدین اولیاؒ مشہور تھے۔ دلی کے ہر بادشاہ کی خواہش ہوتی کہ وہ ان کے دربار میں پیش ہوں لیکن نظام الدین اولیاؒ نے بادشاہوں کے درباروں میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ بات بادشاہ علاء الدین خلجی تک بھی پہنچ چکی تھی کہ لوگ اس کے دربار کی بجائے ان کے ہاں جاتے ہیں اور نظام الدین اولیاؒ کو ہندوستان کا بے تاج بادشاہ کہا جانے لگا ہے۔ خلجی کو بتایا گیا کہ کسی دن یہ بھی آپ کے لیے خطرہ بنیں گے۔آخر خلجی نے ایک خط لکھا کہ آپ مجھے گائیڈ کریں کہ سلطنت کے کام کیسے چلائوں‘ اور اپنے بیٹے خضر خان کو یہ خط دے کر بھیجا۔بادشاہ کے بیٹے سے خط لیے بغیر حضرت نظام الدینؒ بولے: ہم درویش ہیں اور درویشوں کو شہنشاہی کاموں سے کیا غرض۔ایک فقیر کی حیثیت سے شہر میں رہتا ہوں ‘ اگر بادشاہ کو اعتراض ہے تو شہر چھوڑ جاتا ہوں۔
خلجی نے جواباً لکھا کہ میں آپ سے ملنے خود آنا چاہتا ہوں‘ دعا کرانی ہے۔
جواب لکھ بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ غائبانہ دعا کر دوں گا اس میں زیادہ اثر ہوتاہے۔
علاء الدین خلجی کی خواہش بڑھی تو کسی نے کہا کہ وہ امیر خسرو سے سفارش کرائیں تو شیخ نظام الدینؒ اپنی خانقاہ آنے دیں گے۔ خلجی نے امیر خسروؒ سے کہا: میری سفارش کرو اپنے مرشد کو۔ ایک دن شیخ کو مسکراتے دیکھ کر خسروؒ نے بادشاہ کی عرضی ڈال دی۔ حضرت نظام الدین ؒبولے: تُرک تم مجھے بہت عزیز ہو لیکن حکمرانوں سے ملنا میرا مزاج نہیں‘ آئندہ سفارش نہ کرنا۔ان حکمرانوں کا راستہ الگ ہے اور میرا الگ‘اگر میں نے ایک دفعہ بادشاہ کو اجازت دے دی تو پھر ہم درویشوں کی خانقاہوں میں بادشاہوں کی آمد ایک رسم بن جائے گی۔
اس انکار سے خلجی بہت مایوس ہوا اور خسرو سے کہا کہ اب آخری طریقہ یہ ہے کہ میں بغیر اطلاع وہاں پہنچ جائوں۔
اب خسرو مشکل میں پھنس گئے کہ اگر وہ اپنے مرشد کو نہیں بتاتے تو وہ ناراض اور اگر بتا دیتے ہیں تو بادشاہ ناراض۔ خسرو نے جا کر مرشد کو بتادیا کہ کل بادشاہ ان کے پاس چپکے سے آئے گا‘
حضرت نظام الدینؒ نے فوراً دلی چھوڑی اور حضرت بابا فریدؒکے مزار پر حاضری دینے پاک پتن آ گئے۔
بولے: اگر حکمران میری خانقاہ کے ایک دروازے سے داخل ہوں گے تو یہ درویش دوسرے دروازے سے باہر نکل جائے گا۔
خلجی کے بعد بادشاہ مبارک شاہ کو نظام الدین اولیاؒ سے دشمنی ہوگئی تھی ۔
اس نے پیغام بھیجا تھا کہ شیخ تم دلی چھوڑ کر چلے جائو‘ تمہارا قیام میری سلطنت کے لیے مستقل خطرہ ہے۔نظام الدین اولیاؒ نے انکار کر دیا‘ جس پر مبارک شاہ نے گستاخی شروع کر دی۔ ایک دن بیمار ہو گیا تومبارک شاہ کی ماں نظام الدینؒ کے پاس دعا کے لیے گئی۔ وہ اس شرط پر دعا کے لیے راضی ہوئے کہ پہلے وہ ہندوستان کی سلطنت سے دستبرداری کی سند لکھ کر دے۔ درد کے ہاتھوں مجبور مبارک شاہ نے سلطنت سے دستبرداری لکھ کر دے دی۔ جب وہ دستاویز نظام الدین اولیاؒ کو دی گئی تو انہوں نے کہا: مبارک شاہ سے کہو اس دستاویز پر پیشاب کردے‘ ٹھیک ہوجائے گا۔
اس طرح ایک دفعہ بادشاہ غیاث الدین تغلق نے دھمکی بھجوا دی کہ میرے دلی پہنچنے سے پہلے دلی چھوڑ جائو ورنہ میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔ سب عقیدت مند پریشان ہوئے۔ امیر خسرو روتے تھے۔ حضرت نظام الدین ؒ نے وہ شہرۂ آفاق جملہ کہا :” ہنوز دلی دور است‘‘۔ وہی ہوا‘
واپسی پر دلی سے پانچ کلو میٹر باہر رات کو ایک محل میں غیاث الدین کے بیٹے محمد تغلق نے باپ کی دعوت کی‘ کچھ کہتے ہیں کہ ہاتھی چھت پر سلامی دینے چڑھے تو کمزور چھت گرگئی اور غیاث الدین مارا گیا‘ کچھ کہتے ہیں آسمانی بجلی گری۔ کچھ کا خیال ہے اس کے بیٹے نے باپ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔
دلی کے یکے بعد دیگرے پانچ بادشاہ ہر قیمت پر نظام الدین اولیاؒ کو دربار میں بلوانا یا خود حاضر ہونا چاہتے تھے مگر نظام الدینؒ انکاری تھے۔بابا فریدؒ ہوں یا نظام الدین اولیا ؒ‘ان درویشوں نے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ بلبن جیسا بادشاہ بابا فریدؒ کے در پر کھڑا تھا تو علاء الدین خلجی جیسا طاقتور بادشاہ نظام الدین اولیاؒ سے ملنے کیلئے امیر خسرو ؒکی سفارشیں ڈھونڈ رہا تھا ‘ جبکہ فقیر یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارا بادشاہوں کے درباروں میں کیا کام۔
کئی صدیاں گزرنے کے بعدبابا فریدؒ اور نظام الدین اولیاؒ کی خانقائیں آج بھی آباد ہیں ‘مگر کوئی نہیں جانتا کہ ہندوستان کی تاریخ کے طاقتور ترین بادشاہ علاء الدین خلجی اور بلبن کہاں دفن ہیں۔بس یہ فرق ہے ایک درویش اور بادشاہ میں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر