جسکو دیکھو قصوروار غریب اور مجبور عوام کو ٹہراتا ہے کیوں ؟ طارق جمیل (حوروں والی سرکار) جواب دو عوام کو اللہ سے معافی مانگو اپنے جھوٹ کی
کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ پاکستان کے مجبور محکوم طبقے کی اپنے اللہ سے آخری امید کو ختم کرنے کی جسارت کرے ان کی دل آزاری کرے آمروں اور طاقتور کی خوشنودی کےلئےعوام کی مصیبتوں پر انہیں مجرم ٹہرائے لعن طعن کرے ۔بدعائیں نکالے اور اللہ سے امید کی آخری کوشش کو بھی ناامیدی میں ڈھالنے کی کوشش کرے ۔
یہ کیوں نہیں کہتے کہ عوام پر یہ عذاب ان کرپٹ اور ظالم حکمرانوں کی وجہ سے ہے طاقتور امیر طبقے کی وجہ سے ہے ۔ کیا کبھی امیر طبقے کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ہے ؟ اسلامی ریاست میں ہر جرم ہر بدکاری کا زمہ دار حاکم وقت طاقت اور اقتدار والا طبقہ ہوتا ہے ریاست ذمہ دار ہوتی ہے خلیفہ وقت ذمہ دار ہوتا ہے۔
یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ کا عذاب غریب اور مجبور لاچار انسانوں کے اعمال سے نہیں بلکہ ظالم حکمران بدعنوان طبقہ کی اپنے عوام پر ظلم کے نتیجہ میں اللہ ان سے ناراض ہے مگر تم جس کی کھاتے ہو اسکی گاتے ہو۔
عمران ہو یا نوازشریف یا راحیل شریف کے لئے تم دعائیں کرتے ہو عوام کو گنہگار اور بدکار کہتے ہو شرم نہیں آتی اس عوام کو گنہگار کہتے ہو جس میں تم بھی شامل ہو۔
کیا تم ٹی وی کے سامنے سب سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو سزا دینے کی پہل کروگے ؟ سزا خود کو دوگے ؟ اعتراف کروگے گے ٹی وی کے سامنے کہ میں گناہ گار ہوں اور فلاں گناہ فلاں دن کیا ہے ؟
اگر تم خود کو سزا نہیں دے سکتے تو غریب مجبور پاکستانی عوام کو تمہاری چرب زبانی کو دعا یا بد دعا کیوں سمجھیں ۔۔ جاؤ اللہ سے توبہ کرو کہ تم مجبور مظلوم غریب انسانوں اور اللہ کے درمیان جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہو۔ اللہ تمہیں معاف کرے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر