بہت سے امروہے والے اپنے گھر کے ایک گوشے کو شاہ نشین بنادیتے ہیں۔ شاہ نشین امام بارگاہ میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں علم، جھولا، تابوت یا ضریح کی شبیہہ رکھی جاتی ہے۔ گھر میں شاہ نشین جیسا مقام ہو تو اس کے قریب نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہیں گھر کی مجلس بپا ہوتی ہے۔ کوئی مشکل درپیش ہو تو وہاں کھڑے ہوکر دعا کی جاتی ہے۔ مشکل کب درپیش نہیں ہوتی؟ زندگی بھر امام حسین سے رابطہ برقرار رہتا ہے۔
ہمارے دادا سید ظفر حسن زیدی 1920 کی دہائی میں امروہے سے خانیوال منتقل ہوئے ہوں گے تو انھوں نے گھر میں ویسی ہی شاہ نشین بنائی ہوگی۔
یہ میرا خیال ہے۔ اس لیے کہ دادا جدی پشتی مولوی نہیں تھے۔ خانیوال میں انھوں نے حکومت سے مسجد یا امام بارگاہ کے لیے پلاٹ نہیں لیا یا چندہ جمع نہیں کیا۔ بلدیہ میں ملازمت اختیار کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد کچہری میں بیٹھ کر عرضی نویسی کرتے رہے۔
بابا بتاتے تھے کہ کچہری میں اسٹامپ پیپرز کی فروخت کا کنٹریکٹ نیلام کیا جاتا تھا۔ وہ برسوں دادا کے پاس رہا۔ اس کام میں کافی آمدن تھی۔ دادا نے بہت کمایا لیکن کچھ نہیں بچایا۔ ایک کنال کے پلاٹ پر بچوں کے لیے کوٹھی بنانے کے بجائے شاہ نشین پر امام بارگاہ تعمیر کروادیا اور ساتھ مسجد قائم کردی۔ خود ڈیڑھ کمروں میں باقی زندگی گزار دی۔
دادا مسجد میں خود سال بھر نماز پڑھاتے اور محرم میں مجلسیں پڑھتے رہے۔ جلوس بھی اٹھاتے۔ اب بھی خانیوال میں محرم کا مرکزی جلوس بلاک گیارہ کے اسی امام بارگاہ سے اٹھتا ہے۔
تایازاد بھائی علی عباس نے ایک بار بتایا کہ امام بارگاہ میں رکھی ضریح دادا رامپور سے بنواکر لائے تھے۔ وہ شیشے میں بند ہے اور اسی گوشے میں رکھی ہوئی ہے۔
دادا کا 1966 میں انتقال ہوا تو انھیں وصیت کے مطابق امام بارگاہ میں دفن کیا گیا۔ بعد میں سارا خاندان دوسرے شہروں کو منتقل ہوگیا لیکن دادا وہیں ضریح امام حسین کے سائے میں سورہے ہیں۔
میں جب شیعہ سنی علما کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ میرے بزرگوں نے کتنی آسانی سے اس مسجد اور امام بارگاہ کو چھوڑ دیا حالانکہ اسے مستقل کمائی کا دھندا بنایا جاسکتا تھا۔
ورنہ یہاں تو یہ ہے کہ کسی ملا کو مسجد مل گئی تو اس کے خاندان کا نماز پر قبضہ ہوگیا۔ کسی علامہ نے ہزاروں کے عوض مجلس پڑھنا شروع کی تو اس کی اولاد لاکھوں کے عشرے پڑھنے لگی۔ کوئی مولوی سیاست میں آگیا تو اس کی اولاد سیاست کی وارث ہوگئی۔
ہمارے بڑے تایا شجر حسن دادا کی زندگی میں خانیوال چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ایک تایا محبوب علی شادی کے بعد حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ بابا نیشنل بینک کے ملازم ہوئے اور منیجروں کے سر پھاڑتے رہے۔ انھیں سزا کے طور پر دور دراز کے شہروں میں بھیج دیا جاتا اور اس وقت تک تبادلہ نہ کیا جاتا جب تک نیا سر نہ کھول دیتے۔
تایا بوعلی شاہ نے دادا کے کام سنبھالے۔ وہ بیمار ہوئے تو عرضی نویسی کی۔ نماز بھی پڑھائی اور مجلسیں بھی پڑھیں۔ دادا کے انتقال کے بعد مسجد و امام بارگاہ کے لیے ٹرسٹ بنادیا اور پھر سب چھوڑ چھاڑ کے کراچی منتقل ہوگئے۔
میں جب شیعہ سنی علما کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ میرے بزرگوں نے کتنی آسانی سے اس مسجد اور امام بارگاہ کو چھوڑ دیا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر