نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ن لیگی جواب دیں، ’چچا‘ کا بی پی بڑا ہائی ہے ۔۔۔عفت حسن رضوی

خواجہ سعد رفیق نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ اپنی پارٹی میں ادارے نہ بنائے تو ہم لوگ یونہی خجل خوار ہوتے رہیں گے۔

چچا گیرو کو ہم نے کئی بار روتے دیکھا۔ وہ اپنے بھائی کی موت، بےنظیر بھٹو کی شہادت یہاں تک کہ عید کے روز کلفٹن  کے ساحل پہ ڈوبنے والے ایک ہی خاندان کے تین لڑکوں کے لیے بھی آبدیدہ ہوگئے۔

ان کی سوانح عمری شاید دنیا کی سب سے مختصر ترین تحریر ہوگی۔ ان کے والد 1965 کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے نظریاتی کارکن تھے۔ وہ کارکن جسے گلی محلے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ فاطمہ جناح کو ایک آمر کے ہاتھوں شکست دلوائی گئی اور کراچی مہاجر پٹھان فسادات کی آگ میں جھونک دیا گیا۔

بے حد و حساب سیاسی مزاج کے چچا گیرو انہی فسادات کے دوران کی پیدائش ہیں۔ گیرو نام یوں  پڑا کہ پیدائشی رنگ گیرو کا سا سیاہی مائل سرخ  تھا۔ خیر چچا گیرو نے اب وجہ تسمیہ بھی تراش لی ہے۔ کہتے ہیں ملکی سیاسی حالات دیکھ دیکھ کر بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے یوں رنگ گہرا ہوگیا۔

چچا گیرو سالہا سال سے اچھے خاصے نائن زیرو ٹائپ چل رہے تھے۔ ایم کیو ایم تتربتر ہوئی تو چچا کو بھی اپنا قبلہ بدلنے کا خیال آیا۔ کوئی دو تین سال پہلے اچانک ہی ن لیگ سے ان کا رومانس چل پڑا۔

نواز شریف کی ’مجھے کیوں نکالا ریلی‘ چچا گیرو کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھی۔ رات گئے ہر خطاب کے ساتھ نواز شریف کی آواز بیٹھ رہی تھی اور چچا گیرو کے آنکھیں چھلک چھلک رہی تھیں۔

تو قصہ کچھ یوں ہے کہ عجلتوں سے بھری  آواز کے ساتھ  کل رات چچا گیرو کا فون آیا۔ کہا اری بی بی تو نے سہیل وڑائچ کا کالم پڑھا؟ ’شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں‘ کے عنوان سے کالم میں نے پڑھا تھا بلکہ ان کے کالم پر دیگر صحافیوں کی جوابی تحریر بھی پڑھی تھی۔ چچا کی سوئی اس ایک سوال پہ اٹکی تھی جو شریف خاندان کی جانشینی کے حوالے سے تھا۔

گیرو چچا تو ہائی بی پی کے مریض ہیں، اول فول بول کر سو گئے پر ان کی جملے بازی دماغ بِھنانے کے لیے کافی ہے۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ شہباز شریف نے جانشینی کے حوالے سے بتایا کہ شریف خاندان کی ایک روایت ہے۔ میاں شریف نے اپنی وفات سے پہلے نواز شریف کو خاندان کا سربراہ بنایا اور اب اسی طرح کے تمام خاندانی فیصلے وہی کرتے ہیں۔ ’مجھے اپنی جگہ وزیر اعظم نامزد کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا تھا۔‘

الیکشن 2018 سے قبل شہباز شریف کا حکومت بنانے بلکہ اپنی کابینہ کے ناموں پر غور کے لیے طاقتور حلقوں سے ملنا کوئی انہونی نہیں۔ یہ ’جنرل‘ نالج ہے۔ پر موروثی سیاست کے مجھ جیسے شدید ترین مخالفین کے لیے کالم کا حاصل تحریر جانشینی کے حوالے سے شہباز شریف کے جواب ہیں۔

شہباز شریف کے جواب کی تفسیر یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جمہوری و سیاسی جماعت ن لیگ کے نون یعنی میاں نواز شریف فیصلہ فرمائیں گے کہ ان کے بعد جانشین کون ہوگا اور  سیاسی جانشینی کی دوڑ میں صرف شریف خون ہی اہل ہوگا۔

کمال ہے تیس تیس سال مسلم لیگ کے بینر تلے سیاست کرنے والے زیرک افراد بھی ن لیگ کی سیاسی گدی نشینی کے لیے وہ کرشمہ نہیں رکھتے جو اپنے خون کے باعث حمزہ شہباز یا مریم نواز میں ہے۔ اس دوڑ میں دور دور تک نہ احسن اقبال کا نام ہے نہ رانا ثنا اللہ نظر آتے ہیں۔ پارٹی سے پوری طرح دیانت دار رہنے والے سعد رفیق ہوئے، شاہد خاقان عباسی ہوئے یا پھر خواجہ آصف۔

یہ تو طے ہے کہ سہیل وڑائچ کے سوال  شکار کو پھڑپھڑانے کی مہلت بھی نہیں دیتے پر اللہ جانے شہباز شریف نے یہ انٹرویو کس جذباتی کشمکش میں دیا کہ ایک ہی جست میں اتنی بڑی جماعت ن لیگ کو خاندانی سیاست کے درجے پر لے آئے۔ ن لیگی ہمدردوں کو گر اب بھی عشق ستا رہا ہے تو ڈھونڈ کر سعد رفیق کا وہ ٹی وی انٹرویو دیکھیں جس میں انہوں نے اپنی جماعت سمیت ہر پارٹی کو  آئینہ دکھایا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ اپنی پارٹی میں ادارے نہ بنائے تو ہم لوگ یونہی خجل خوار ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتیں سیکنڈ اور تھرڈ لائن لیڈرشپ تیار کریں، پارٹی کو منظم کریں، اپنے کامریڈز کو اختیار دیں، پارٹی کے اندر جمہوریت ہوگی تو سوالوں کے جواب دینا پڑیں گے۔ اگر یہ سب نہیں کرنا تو لوگوں کا وقت ضائع نہ کریں۔

سعد رفیق صدق دل سے ن لیگ کے رفیق رہے۔ ان کے اٹھائے یہ سوال سنے ان سنے کر دیئے گئے لیکن نظریاتی ن لیگی جواب دیں کہ  شہباز شریف تو جہاں کھڑے ہیں سو کھڑے ہیں پر کورونا کے اتنے بڑے انسانی بحران میں ن لیگ کہاں کھڑی ہے؟

آج چار پانچ سو ووٹ لینے والی جماعت اسلامی امداد کے لیے عوام  کے ساتھ کھڑی ہے، آج  بوری بند سیاست کے طعنے سننے والی ایم کیو ایم ٹوٹی پھوٹی سہی مگر خدمت خلق کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں سو وہ جو بھی کریں کم ہے۔ لیکن کوئی بتائے یہ ن لیگ اس بحران میں کون سی راہبری کر رہی ہے؟

چچا گیرو نے پھر ٹھیک ہی کہا نا کہ جب ان پہ ٹائم پڑتا ہے تو یہ ہمیں سڑکوں پہ بلا لیتے ہیں، بستر مرگ کی تصویریں دکھا کر مجھ جیسے جذباتی لوگوں کو رلا دیتے ہیں، پر جب ہم پہ پڑے تو یہ سینگ کی طرح غائب۔ جب یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر سیاست گرم کریں گے تو ہم  لوگ بھی وقت پڑنے پہ گھروں میں بیٹھ کر میاں صاحب کے لیے بس دعائیں ہی کریں گے۔

کون کس کا وقت ضائع کر رہا ہے؟ آپ  پہلے یہ کالم پڑھیں پھر خواجہ سعد رفیق کا انٹرویو سنیں اور آخر میں چچا گیرو کے اس سوال کا جواب دیں کہ ’کہیں ن لیگ ہم لوگوں کے ساتھ ٹائم پاس تو نہیں کر رہی؟‘ ن لیگی ذرا جلدی جواب ڈھونڈیں کیونکہ ان دنوں بھی ’چچا ‘کا بی پی بڑا ہائی ہے۔

About The Author