کرونا وائیرس کی وجہ سے جہاں بہت سے کاروبار بند ہیں وہاں حجام کی دکانیں بھی بند ہیں ۔ ہمارے بچے سکول نہیں جا رہے ان کے بال بہت بڑے ہو چکے تو سوچا اب یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا ۔ میرے پاس خوش قسمتی سے الیکٹرک شیور ۔برش ۔قینچی ۔ تولیہ۔ گلے باندھنے والا بڑا کپڑا تقریبا” تمام سامان موجود ہے۔
اب مشکل یہ تھی کہ سب سے چھوٹا پوتا مجتبی حسن خان جو ابھی سوا سال کا ہے اور اس کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے اس کی کٹنگ کیسے ہو؟ بال بھی اس کے سب سے زیادہ بڑے ہیں۔ جب سے لاک ڈاون ہوا ہے مجھے سارا دن اپنے کمرے میں کمپوٹر پر کام کرنا ہوتا ہے۔ مجتبی حسن کے لیے میرا کمرا ایک مینابازار بن گیا ہے وہ ہر کتاب ۔ہر الماری۔کمپوٹر۔کپڑے سب کو کھول کر دیکھنا چاہتا ہے جو چیزیں میرے بیٹوں بیٹیوں نے نہیں دیکھیں اس کی دسترس میں ہیں۔
پھر وہ میرے کمرے میں چھپن چھپائی بھی کھیلتا ہے اور مجھے ڈھونڈنا ہوتا ہے تو گویا میرا کمرہ جہاں دوسرے بچوں کے لیے نو گو ایریا ہے وہاں مجتبی حسن کا ریسرچ سنٹر بن چکا ہے۔ ہم گھر والوں میں کوئی مستند ہیئر کٹر تو نہیں البتہ میں نے چھوٹے بیٹے وقار حسن کو کہا کہ بچوں کی کٹنگ کر دے۔ سب کی کٹنگ ہو گئی تو مجتبی حسن کا نمبر آ گیا۔وہ کہاں ہاتھ آتا آخر زبردستی اسکی مما نے پکڑا اور کٹنگ کرانے پر راضی ہوا اور کچھ بالوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔
ادھر کینیڈا میں بھی لاک ڈاون چل رہا ہے اور انہی دنوں ایڈمنٹن میں میری پوتی انم حور پیدا ہوئی۔ اس کے بھی سر کے بال جَھنڈ اتارنے کا مسئلہ تھا۔ بہر حال جب بڑے بیٹے افتخار حسن کو یہاں ڈیرہ کا حال بتایا تو اس نے بھی انم حور کی جھنڈ نہایت سلیقے اور صفائی سے اتار لی اور مجھے تصویر بھیج دی۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جو حجام کی دکان بند ہونے کی وجہ سے اپنے بال نہیں کٹوا پا رہے۔ حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کی لمبی زلفوں کا انکے ماتھے پر آنا اور پھر ان کا ہاتھوں سے اپنے بالوں کو سنوارنا سب کو ایسا بھایا کہ سوشل میڈیا ان کی یہ تصویر شیر کرنے سے نہیں تھک رہا۔
منچلوں نے ٹروڈو کی یہ تصویر سلو موشن میں لگا کر پیچھے مشھور گانا لگادیا۔۔ اڑیں جب جب زلفیں تیری کنواریوں کا دل مچلے ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت لوگ گھروں میں ہیئر کٹنگ کا کیا بندوبست کر رہے ہیں کیونکہ باہر سے کسی ہیئر کٹر کو بلانا بھی خطرناک ہے۔ مجھے اب بار بار اپنا بچپن اور گاٶں یاد آ رہا ہے۔ ہمارے گاٶں میں نائی ہماری فیملی کا حصہ ہوتا تھا۔
سال کی گندم اور جانوروں کا چارہ اور دوسرے اخراجات اس پر فری تھے۔ ہماری شادیوں کا ٹوٹل کنٹرول اس کے پاس ہوتا۔ گھر گھر دعوت دینا ۔ دیگیں پکانا ۔شادی کی رسومات سب کاموں میں آگے ہوتا تھا ۔ہیئر کٹنگ بھی وہ کرتا۔ مہمانوں کی روٹی سالن چائے سب اس کے ذمے تھی۔نویں صدی کے یورپ میں حجاموں کو باربر سرجنز کہتے تھے کیونکہ اس وقت کے حجام ہیئر کٹنگ کے ساتھ ساتھ زخموں کی مرہم پٹی اور جراحی کا کام بھی کرتے تھے۔
پھر 1450ء میں ایک قانون بنا کر جراحی اور ہیئر کٹنگ کا کام علیحدہ کیا گیا۔ برصغیر میں بھی ہمارے نائی جراحی کا کام کرتے تھے اور ہمارے نائی کا کمال یہ تھا کہ یہ نشہ وغیرہ چڑھاۓ بغیر صرف طوطا دیکھنے کا کہ کر جراحی مکمل کر لیتے ۔ ایک دفعہ پرانے زمانے کے راجپوت بادشاہ کا بیٹا سفر کر رہا تھا راستے میں ایک نائی ہمسفر ہو گیا۔نائی نے شھزادے سے پوچھا تم کون؟
شھزادے نے جواب دیا میں راجپوت اور خدا کا بھی پوت ۔۔ وہ خدا بادشاہ کو کہتے تھے۔ بعد میں شھزادے نے نائی سے پوچھا تم کون ۔۔نائی نے جواب دیا ۔۔ میں نائی خدا کا بھائی تمھارا چچا ۔۔۔اسی طرح ایک سکھ بادشاہ کا بیٹا کرتار سنگھ بڑا رنگین مزاج تھا اور ہر رات دوستوں کے ساتھ کوٹھے پر جا کر ڈانس دیکھتا اور شراب پیتا۔بادشاہ نے اس کی شادی کر دی مگر اس کی روزانہ کی عادت برقرار رہی۔ خیر اس کی نئی دلھن نے کوٹھے کا پتہ چلایا اور وہاں جا کر ڈانس وغیرہ سیکھ لیا ۔ایک دن کرتار سنگھ کو کہا آج رات گھر میں فنکشن ہے ذرہ ٹھر جاٶ اور پھر رات کو ڈانس کرکے کرتار سنگھ کا دل موہ لیا۔
اس طرح اس کا کوٹھے پر جانا بند ہو گیا ۔دوچار دن کے بعد اس کے دوست آئے اور پوچھا کرتارا کدھر گم ہو کوٹھے پر نہیں آ رہے۔ کرتارے نے جواب دیا۔۔۔ یار اَسی گھر اچ چھوٹا موٹا کوٹھا بنڑا لیا اے ھونڑ اُدھر جانڑ دی ضرورت نہیں رہی ۔۔ مطلب ہم نے گھر میں چھوٹا سا کوٹھا بنا لیا اب ادھر جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ کرونا وائیرس نے بھی ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم اپنے گھر میں چھوٹا موٹا ہیئر کٹنگ سیلون بنا لیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر