نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعلی عدلیہ اور مقننہ سے ایک شہری کی اپیل۔۔۔ سید ظفر نقوی

اگر عوام پاکستان میری اعلی عدالتوں اسے س اپیل کی حمایت کرتے ھیں تو برائے مہربانی میری اپیل اعلی عدلیہ اور مقننہ تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں

اعلی عدلیہ اور مقننہ سے ایک شہری کی اپیل

جناب اعلی!

آٹا چینی کی ابتدائی رپورٹ پر عمران خان نے کہا تھا کہ انھوں نے رپورٹ خود پڑھی ھے اور اسمیں جہانگیر ترین ،خسرو بختیار اور عبدالرزاق داود کے نام نہیں ھیں۔ جبکہ کچھ دنوں بعد اسی رپورٹ سے معلوم چلا کہ اس رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسروبختیار اور رزاق داود کے ساتھ کئی وزراء مشیروں اور سیکریٹری اور افسران کے نام شامل تھے۔

( ان تمام ناموں کو جھپانا اور حقائق کو مسخ کر کے عوام کے سامنے غلط بیانی کرنا ایک وزیراعظم کا اپنی قوم، عدلیہ و مقننہ کو مخاطب کر کے جھوٹ بولنے اور رپورٹ پر اثر انداز ہونے کے مترادف قابل سزا جرم ھے، عدلیہ کو اس جرم پر از خود نوٹس لینا چاہئیے، یا میری پوسٹ کو درخواست میں تبدیل کر کے کاروائ کا آغاز کیا جائے)

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے اسی جھوٹے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ وہ اس رپورٹ کو مذید تحقیقات کیلیئے واپس انکوائری کمیٹی کو بھجوا رھے ھیں، رپورٹ پر مذید تحقیقات کے بعد عمران خان نے اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا وعدہ قوم سے اپنے خطاب میں کیا۔۔

بعد ازاں اچانک ایک رپورٹ کے مندرجات اچانک میڈیا میں کم اور سوشل میڈیا پر اسوقت جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتے ھیں جب اسی سوشل میڈیا پر لیک ھوئی رپورٹ میں انکوئری کمیشن یہ کہتا دکھائی دیتا ھیکہ انکی حتمی تحقیقات کے مطابق آج عمران خان کی کابینہ اور مشیروں کے باقاعدہ ناموں کیساتھ انکوائری کمیشن کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ آٹا چینی بحران کے ذمہ دار اور اس بحران سے خود کروڑوں روپے مالی فائدہ لینے اور عوام کو نچوڑنے والے ک و ئی اور نہیں عمران خان کے انتہائی قریبی دودت جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور داود ابراھیم سر فہرست ھیں

3 سے 4 دنوں تک سوشل میڈیا پر اس رپورٹ کے لیک ھونے کا چرچہ ھوتا رھا۔
میڈیا پر رپورٹ لیک ھونے کے 3 سے 4 دنوں کے دوران حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے مکمل خاموشی اختیار کیئے رکھی اس خاموشی کے دوران نہ تو وزیراعظم اور نہ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے جاینگیر ترین، خسروبختیار اور رزاق داود کے خلاف کسی قسم کئ کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی

مگر ان 3 سے 4 دنوں میں سوشل میڈیا پر شعور اور ندیم افضل چن کے اس بیان نے کہ رپورٹ لیک کی گئی ھے پر حکومت کو اپنی حزیمت مٹانے کیلیئے یہ اعلان کرنا پڑا کہہ یہ رپورٹ بذات خود وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ایک صحافی اور میڈیا نمائندے کو بھیجی گئی تھی

ویسے تو یوتھیوں کی وجہ سے اس ملک میں عقلمندوں کا انتہائی فقدان ھے مگر پھر بھی اگر کوئی عقلمند کسی ملکی ادارے چاہے وہ عدلیہ ھو یا مقننہ، عوام ھوں یا صحافی میں سے ابھی زندہ ضمیر رکھتا ھے تو میرا اس سے ایک انتہائی معصومانہ سا سوال ھے اور وہ یہ کہ ” کیا دنیا میں کوئی عقلمند انسان یہ بات سوچ سکتا ھیکہ کوئی وزیر اعظم ایک انکوائری ک اس حکم دے اور پھر اس انکوائری کی رپورٹ آنے پر عوام کو خود بتانے کے بجائے ایک اکلوتے صحافی کو دے۔۔۔ چلو یہ مان بھی لیا جائے کہ وزیراعظم نے کسی وجہ سے رپورٹ کو خود پبلک کرنے کے بجائے ایک عدد صحافی کا سہارا تو لیا مگر اس رپورٹ میں نافذ اپنے کسی وزیر و مشیر کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی رپورٹ کے ابتدائی 3 سے 4 دنوں میں نہیں کی،

معاملات وہاں الجھ گئے جب ندیم افضل چن کے اس بیان کے بعد کہ رپورٹ لیک ھوئی ھے شہباز گل نے تردید کرتے ھوئے کہا کہ رپورٹ وزیراعظم کے حکم پر شایع کروائی گئی ھے اور ساتھ ھی رپورٹ میں شامل حکومتی وزیر اور مشیر کے ناموں کو چھوڑ کر ایک ایسے نام کو نشانہ بنایا جو کہ عدالتی حکم کے تحت نااہل قرار دیئے جانے والے اور وزیراعظم عمران خان کے سب سے قریبی دوست جہانگیر ترین تھے۔ کے بارے میں کہا انکوئری رپورٹ میں جہانگیر ترین کا نام آنے پر انھیں ا نکے عہدے سے ہٹا دیا گیا ھے۔ یہاں میرا معصومانہ سوالات یہ ھیکہ
1- ایک نااہل شخص کو کسی عہدے پر رکھنے پر حکومت کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی ابھی تک عمل میں کیوں نہیں لائی گئی

2- رپورٹ میں شامل جہانگیر ترین کے علاوہ خسرو بختیار اور دیگر وزیروں اور مشیروں کو کس قانون کے تحت پہلے سے بھی ایم عہدوں پر لگا دیا گیا

3- اس سے قبل پی ٹی آئی نے جن افراد پر الزامات لگا کر حکومت اور پی ٹی آئی سے الگ کیا تھا ان تمام افراد کو جن میں علیم خان، بابر اعوان، اور ۔۔۔۔۔۔ شامل ھیں کو جہانگیر ترین سے میڈیا میں بیان بازی کے بعد حکومت میں کسوجہ اور قانون کے تحت شامل کیا گیا

4- حکومت کا آٹا چینی رپورٹ میں شامل تمام ناموں میں سے صرف ایک ایسے مخصوص شخص کیخلاف کاروائی کرنا جو پہلے پی سے نااہل ھو اور دیگر تمام حکومتی وزیروں اور مشیروں کو سرکاری تحفظ فراہم کرنا حکومت کا اپنے بنائے گئے کمیشین کی رپورٹ کو خود متنازعہ بنا کر رپورٹ پر حکومت کا عدم اعتماد ھے۔۔ پھر کسی ایسی رپورٹ پر جسپر حکومت کو مکمل اعتماد نہ ھو کو بار بار انکوئری کمیشن کو بھیجنا بیوقوفی ھے، اب اس عوام کے مفاد سے متعلق رپورٹ پر اعلی عدلیہ کو از خود نوٹس لینا انکا آئینی فرض اور قوم پر قرض ھے۔ اعلی عدلیہ سے عوام پر زور اپیل کرتی ھیکہ ملکی مفاد اور عوامی انٹرسٹ سے متعلق آٹا چینی بحران پر انکوائری رپورٹ پر حکومت کے اثر انداز ھونے اور عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم عدم اعتماد کا نوٹس لیتے ھوئے فوری کاروائ کی جائے۔

5- انکوائری رپورٹ میں شامل حکومتی وزیر اور مشیر کی حمایت میں وزیر اعظم کا اپنی کابینہ کو حکم دینا کہ وہ رپورٹ میں شامل حکومتی وزیر اور مشیر کا دفعہ کریں اور انھیں ہر فورم پر بیگناہ بتانے کا حکم دینا آئین و قانون اور وزیر اعظم کے منصب کی توہین اور حکومتی کمیشن پر عدم اعتماد اور توہین کے ساتھ ساتھ عوام کو آپس میں تقسیم کر کے دست و گریباں کروا کر ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کروانے کی مذموم سازش ھے

6- وزیر اعظم عمران خان نے خود قوم سے کہا تھا کہ انکوئری کمیشن کی حتمی فرانزک رپورٹ 25 اپریل 2020 کو عوام کے سامنے لایا جائیگا اور آج 21 – 22 اپریل 2020 کے روز یعنی فرازک رپورٹ آنے سے 3 دن قبل وزیر اعظم کا آہنی کابینہ کو حکم دینا کہ رپورٹ کے نتائج آنے سے قبل خسرو بختیار، رزاق داود اور دیگر رپورٹ میں شامل دیگر افراد کا بھرپور دفاع کا اعلان کرنا وزیر اعظم کو بذات خود کسی ملزم کی پشت پناہیکے ساتھ اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرتے ھوئے اثرو رسوخ استعمال کرنے کا کھلا ثبوت ھے جو ملکر پاکستان کے آئین و قانون کیمطابق اپنے حلف کی خلاف ورزی اور منصب سے غداری ھے

ایک بار پھر بار پھر میں دھرانا چاہونگا کہ وزیراعظم عمران خان کا پہلی دفعہ رپورٹ آنے پر اسپر اعتراض لگا کر اسے انکوئری کمیشن کو واپس بھیجتے ھوئے خود ٹی وی پر آ کر عوام سے کہنا کہ میں نے رپورٹ خود پڑھی ھے اسمیں میرے کسی وزیر و مشیر کا نام نہیں ھے اور میں اس رپورٹ کو مذید انکوائری کیلیئے کمیشین کو واپس بھیج رھا ھوں تاکہ وہ آٹا چینی چوروں کیخلاف مکمل ثبوت پیش کریں تاکہ ان چوروں کے خلاف ایسی سخت کاروائی کر سکوں جو اس سے قبل کسی حکمران نے نہیں کی ھوگی۔

پھر کہیں سے رپورٹ لیک یا پبلک ھو جاتی ھے جسمیں آدھی سے ذیادہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے آٹا چینی بحران میں ملوث ھونا قرار دیا جاتا ھے۔
حکومت قوم کو سیاسی چاہوں میں الجھائے رکھنے کی ذمہ دار بن کر شامنے آتی ھے کہتی ھیک کسی نے رپورٹ لیک نہیں کی بلکہ حکومت نے ریلیز کی ھے جسپر جہانگیر ترین اور شہباز گل میں تلخ جملے اور ٹوئیٹس ایکسچینج ھوئیں، جسکے بعد حکومت نے کہا کہ حکومت میں شامل جن افراد پر الزامات لگائے گئے ھیں انپر وزیراعظم نے مذید تحقیقات اور فرنزک کرنے کا حکم دہتے ھوئے 25 اپریل کو رپورٹ طلب کرلی ھے اور ان تمام افراد کو جن کے نام رپورٹ میں شامل ھیں انھیں انکے عہدوں سے سبکدوش کیا جا رھا ھے، عوام نے حکومت کے اقدام کی بہت تعریفیں کیں، ابھی عوام کو حکومت کی تعریفیں کرتے ھوئے صبح سے شام بھی نہ ھونے پائی تھی کہ جن وزرا اور مشیروں سے انکے قلمدان واپس لینے کا اعلان کیا تھا،ابھی اس قلم کی سیاہی سوکھی بھی نہیں تھی کے اسی قلم و دوات سے ان تمام سبکدوش کیئے گئے وزیروں اور مشیروں کو پہلے سے بھی بڑے اور ایم عہدوں پر لگا دیا گیا اور انکے علاوہ پچھلے سال مختلف چارجز پر نکالے گئے تمام لوگوں کو بحال کر کے اہم عہدوں پر لگا دیا گیا۔

عمران خان کے اپنے وعدے کیمطابق فرنزک رپورٹ 25 اپریل کو آنے سے قبل ماسٹر آف یو ٹرن جناب عمران خان نیازی عرف سلیکٹڈ وزیراعظم آف پی ٹی آئی (نہ کہ وزیراعظم پاکستان) نے نہ صرف اپنے قوم سے وعدے سے پڑھنا ھے بلکہ چوروں لٹیروں کی پشت پناہی کر کے خود کو انھی چوروں لٹیروں کی صف میں لا کھڑا کیا ھے

لہذا اب یہ معاملہ حکومت کے جانبدرانہ اقدامات اور بیانات کی روشنی میں اعلی عدلیہ کے نوٹس میں فورا آنا چاہئیے اور عدالتوں کو کسی درخواست گذار ھی کی ضرورت ھے تو میری اس کاوش کو عدالتی کاروائی کا حصہ بناتے ھوئے اسے میری عمران خان اور کابینہ کیخلاف چارج شیٹ بنا کر کاروائی کا آغاز کیا جائے

طالب حق،
العارض
ظفر نقوی، نیویارک

نوٹ: اگر عوام پاکستان میری اعلی عدالتوں اسے س اپیل کی حمایت کرتے ھیں تو برائے مہربانی میری اپیل اعلی عدلیہ اور مقننہ تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں شکریہ
اپ کا ساتھی
۔ ایک شہری

About The Author