معاف کیجئے گا ہم سدھرنے والے ہرگز نہیں‘ شاید دعائیں آسمانوں سے پلٹائی جارہی ہیں اس لئے بے اثر ہیں۔
اچھا ایسا ہے تو پھر ہمیں انفرادی واجتماعی معاملات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ہوگا۔
زندگی ہمارے سامنے سوال بن کر کھڑی ہے۔
لمحہ موجود اور مستقبل دونوں ہی تو زندگی ہیں‘
کوئی بھی اپنی ”ہٹی“ دکان بند کرنے کو تیار ہے نا زبان کی تلوار کو دہن کی نیام میں رکھنے پر آمادہ۔
ہمارا حال جو ہے سب کے سامنے ہے اور مستقبل، اس پر زیادہ مغز کھپانے کی ضرورت نہیں۔
فیصلے جب اجتماعی ضمیر کی آواز پر کئے جانے چاہئے تھے ہم گروہی مفادات پر کر رہے ہیں۔ نقصان وہ بھی بھگتیں گے جو باآواز بلند کہتے چلے آرہے ہیں خدا کیلئے صورتحال کی سنگینی کا احساس کیجئے‘ دنیا بھر کے حالات ہمارے سامنے ہیں مگر ہمارا کوا سفید ہے، کوئی اسے کالا ثابت کرکے تو دکھائے۔
موجودہ حالات میں جو تکرار کیساتھ یہ کہہ رہے ہیں سیاست نہ کیجئے انہوں نے ہی لشکری میدان میں اُتارے ہوئے ہیں۔
حقائق مسخ کرنے اور دروغ گوئی کا ناسور بہت ”اوپر“ تک پھیل چکا۔ عدل کے ایوانوں میں زیربحث اعداد وشمار سے اُٹھائے گئے پروپیگنڈے کے غبارے سے کل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی ”کوئی ہمیں وہ دستاویزات دکھا دے جس میں سندھ حکومت نے لکھا ہو کہ ہم 8ارب روپے کا راشن مستحقین میں تقسیم کرچکے‘ ہم نے تو یہ لکھ کر دیا تھا کہ حکومت (سندھ حکومت) نے 1.8ارب روپے کا امدادی سامان ڈپٹی کمشنروں اور سماجی خدمت میں مصروف اداروں کے ذریعے تقسیم کیا اور اس کا ریکارڈ موجود ہے۔
سیاست اور صحافت کے مجھ ایسے طالب علم کو کامل یقین ہے کہ مراد علی شاہ کے سوال کا جواب کوئی بھی نہیں دے گا وجہ یہ ہے کہ ہم جھوٹ اُڑاتے، کھاتے، اوڑھتے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔
مجھ سے اُمید پرست کو بھی نجانے اب ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ
”کسی“ کی خواہش یہ ہے کہ
”مینوں لاشاں ویکھا میرا موڈ بنے“
اللہ معاف کرے کیسے کیسے سنگدل ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔
ان سطور کے تحریر کرتے وقت پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی مجموعی تعداد7925 ہے اور وفات پاجانے والوں کی 152، صحت یابی جن کے حصے میں آئی وہ لگ بھگ 2ہزار ہیں۔
یہ صورتحال غیرتسلی بخش ہے، پچھلے ایک ہفتہ کے دوران متاثرین کورونا اور مریضوں کی تعداد میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
کساد بازاری کا شکار تو ساری دنیا ہوگی، غربت فقط ہمارا مسئلہ نہیں یہ دنیا کیساتھ ہے جنہیں ترقی کی معراج پر کھڑے ممالک قرار دیتے سمجھتے ہیں غربت ان کا مسئلہ بھی ہے۔
حالات کل نارمل ہوں یا ایک آدھ ماہ بعد ان ملکوں میں بھی بیروزگاروں کے لشکر ریاستوں کیلئے مسئلہ پیدا کریں گے۔
چار اور سے بند کسی جزیرے پر ہم نہیں رہتے، بھری پڑی دنیا کے بیچوں بیچ آباد ہے پاکستان۔
دوسروں کی طرح ہمیں بھی مسائل کا سامنا ہے اور ہوگا۔ ہماری قیادت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ ان مسائل ومشکلات سے نبردآزما کیسے ہوگی اور ملک وقوم کو کم سے کم نقصان کیساتھ اگلے مرحلہ میں کیسے لے جا سکے گی۔
ساعت بھر کیلئے رُکیے‘ سادہ سا سوال ہے‘
کیا واقعی ہمارے پاس قیادت ہے یا لیڈری کے شوقینوں کا ہجوم؟
بہت ادب سے عرض کروں جھوٹ اس تواتر سے بولا جا رہا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
مرغے کی تین ٹانگوں والا معاملہ ہے‘ ملک کا وزیراعظم جب کابینہ کے اجلاس میں تین وزراء کی صرف اس بات پر تحسین کرے کہ انہوں نے ٹائیگر ہونے کا بروقت حق ادا کرتے ہوئے سندھ حکومت کی کھچائی کی تو پھر خواب کاشت کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہ وقت تھا کہ ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے کی بجائے زمین زادوں کیلئے سوچا جاتا۔ افسوس کہ اس وقت بھی نفرت کی اسی تجارت میں مصروف ہیں جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
آسان الفاظ میں اگر یہ عرض کیا جائے کہ عبادات کے حوالے سے ایوان صدر میں ہفتہ کو جو فیصلہ ہوا وہ خوش عقیدگی کے سوا کچھ نہیں۔
حکومت اور دینی ذمہ داران کے متفقہ 20نکاتی اعلامیہ پر سوفیصد عمل ممکن ہی نہیں ایسے ایسے تماشے لگیں گے کہ چھٹی بلکہ تیسری کا دودھ بھی یاد آجائے گا۔
ناگوار ناگزرے تو دریافت کیا جائے اب ہم نے دینی عبادت کے حوالے سے سعودی عرب کی پیروی سے کیوں اجتناب کیا؟
ہم جو مدینہ ومکہ کی ہواؤں کو سلام دیتے اور ان پر قربان ہونے کے دعوے کرتے ہیں سعودی عرب کے مفتی اعظم کے اس فیصلے سے راہنمائی کیوں نا لے سکے جس میں انہوں نے کہا
”عبادات‘ نماز پنجگانہ وجمعہ کے علاوہ نماز تراویح کیلئے مساجد میں خادمین کا عملہ ہی ہوگا عوام گھروں پر پڑھیں گے“
مان لیجئے کہ سماج کے اجتماعی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
مجھے خوشی ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا کہ
”میں تراویح کا اہتمام اپنے گھر پر کروں گا بجائے مسجد جاکر ہجوم کا حصہ بننے کے“
اہتمام ہو سکتا تھا گھروں تک تلاوت پہنچانے کیلئے۔
ایوان صدر میں ہوئے فیصلے کے پیچھے وجوہات کیا رہیں سب سمجھتے ہیں۔ مساوات‘ انصاف‘ سماجی برابری اقتدار میں عوام کی شرکت اور دوسرے معاملات میں عوام کی بجائے صبر وشکر کی تلقین کرکے ہمیشہ حکومت کے یا یوں کہہ لیں ریاست کیساتھ کھڑے ہونے والے طبقے کی نازبرداری کی گئی،
20نکاتی متفقہ اعلامیہ سرابوں کے سوا کچھ نہیں، یہ اعتراض کہ بازاروں میں بھی تو لوگ جمع ہیں‘ کسی حد تک درست ہے۔ مان لیا جانا چاہئے کہ بازاروں میں عام شہری نے قواعد وضوابط کو مدنظر نہیں رکھا، پہلے کچھ باقاعدگی تھی لیکن جزوی لاک ڈاؤن کے مرحلہ میں سب تلپٹ ہوگیا۔
اس کے باوجود یہ عرض کرنے میں امر مانع نہیں کہ ہم خطرات سے کھیلنے جا رہے ہیں، دشمن اور اس کی سمت دونوں معلوم نہیں۔
کیا ریاست یہ انتظام کرلے گی کہ ملک بھر کی لاکھوں مساجد کے باہر یہ تشخیص ہوسکے کہ عبادت گاہ کے اندر داخل ہونے والا شخص بالکل صحت مند ہے؟
سچ یہ ہے کہ ایسا انتظام ممکن ہی نہیں، بہرطور اب دعا ہی کی جاسکتی ہے، دوا کے بغیر دعا کتنی کارگر ہوگی اس بارے کچھ عرض کرنا بے معنی ہے۔
جب فرد‘ طبقہ دونوں انا کے خول سے باہر نکلنے اور لمحہء موجود کی حقیقتوں کو سمجھنے کیلئے تیار ناہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اب لاک ڈاؤن اور جزوی لاک ڈاؤن مارکہ ڈراموں کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی اس لئے ڈرامے بازی بند کیجئے اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یا پھر یہ اعلان کیجئے کہ اگر خدانخواستہ بیماری پھیلی تو اس کے ذمہ دار بیس نکاتی اعلامیہ پر دستخط کرنے والے ہوں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر