نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہماری بہن خواجہ سرا بندیا رانا بڑے دل والی ہیں۔۔۔ اختر بلوچ

معاشرے کے خود ساختہ رسم و رواج نے تیسری جنس کو کسی اچھوت کا درجہ دے کر انہیں مانگے تانگے کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے چھوڑ دیا ہے

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور گاؤں دیہاتوں میں زنانہ کپڑوں میں ملبوس بھاری میک اپ کیے ہوئے کچھ افراد جو اپنے چہرے مہرے سے مرد نظر آتے ہیں لیکن لوگ انہیں ”خواجہ سرا“ ”کھدڑا“ ”کھسرا“ ہیجڑا ”“ زنخا ”“ نامرد ”“ مخنث ” ”مادی“ ”فقیر“ اور مورت کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ وفاقی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے مطابق کرونا کوئی جان لیوا مرض نہیں ہے، لیکن سماج کے اس طبقے کے لیے یہ شاید ایک جان لیوا مرض ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل شہر کی سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں میں گھومنے والے خواجہ سراؤں کے ہاتھ پر کوئی چند سکے رکھ دیتا ہے تو کوئی ان سے ٹھٹھا مذاق کر کے گزر جاتا تھا۔

بظاہر لوگوں سے ہنس ہنس کر باتیں اور مذاق کرنے والے ان خواجہ سراؤں کی زندگی اداسی اور افسردگی کی دبیز تہوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ کرونا وائرس سے پہلے بھی سماجی اور معاشرتی جبر کے سبب یہ دوسروں سے الگ رہنے پر مجبور تھے لیکن اب تو ان کی جان پر بن آئی ہے۔ جینڈر انیشیٹو الائنس کے مطابق کراچی میں 18 سے 20 ہزار خواجہ سرا ہیں۔ یہ شہر کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ریتی لائن، جونیجو ٹاؤن، نرسری پھاٹک، ڈرگ روڈ، گلشن اقبال، گلستان جوہر، لیاری، بلدیہ ٹاؤن، ملیر اور کورنگی میں یہ گروپوں کی صورت میں رہتے ہیں۔

معاشرے کے خود ساختہ رسم و رواج نے تیسری جنس کو کسی اچھوت کا درجہ دے کر انہیں مانگے تانگے کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ کسی باعزت روزگار کے دروازے فقط اس لیے ان پر بند ہیں کہ ان کی جسمانی ساخت مرد اور عورت سے تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ یہ فرق ان کا اپنا پیدا کردہ نہیں بلکہ قدرت کا کام ہے۔ لیکن زمانہ بڑا ظالم ہے کہ قدرت کو دوش دینے کی بجائے اس معصوم مخلوق کو ہی سارا الزام دے کر انہیں دوسروں سے الگ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

حکومت کرونا وائرس کی ہیدا کرد ہ اس بحرانی صورتحال میں خواجہ سراؤں کو ریلیف کے کاموں کے علاوہ گھروں میں محبوس افراد کی تفریح طبع کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ بالکل اس ہی طرح جس طرح اٹلی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پولیس اہلکار مختلف آبادیوں کے گلی کوچوں میں اپنی گاڑیاں روک کر گا کر ناچ کر لوگوں کا دل بہلاتے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ملک تقریباً لاک ڈاؤن میں جا چکا ہے۔ حکومت مالی طور پر کمزور طبقات کو امدادی سامانِ جس میں اشیائے خوردونوش شامل ہیں ان کی فراہمی کے لیے کام کر رہی یے۔

معاشرے کے دوسرے طبقات کے ساتھ خواجہ سراؤں کو جہاں امدادی سامانِ دیا جائے تو اس کے علاوہ انہیں اس امدادی سامان کی تقسیم کے عمل میں بھی شریک کیا جانا چاہیے تاکہ وہ انسانیت پر اس مشکل گھڑی میں بطور انسان اپنا کردار ادا کر سکیں۔ خواجہ سرا کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا فرض پوری تندہی اور جانفشانی سے نبھائیں گے۔ حکومتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کو اس سلسلے میں خواجہ سراؤں کو بھی اس مہم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ یہ طبقہ بھی انسانیت کی فلاح میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

دوسری جانب اس طبقے کو بھی امدادی سامان فراہم کرنے کے لیے حکومت کو کوئی نظام وضع کرنا چاہیے کیونکہ حکومتی اداروں کے پاس ان کا کوئی ایسا ڈیٹا موجود نہیں کہ جس سے اس طبقے کے مستحق افراد تک امدادی سامان پہنچایا جا سکے۔ دنیا کے دوسرے غیر محطاط ملکوں کی طرح پاکستان بھی بین الاقوامی وبائی مرض کرونا کا شکار ہے۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں مخیر حضرات سرکاری ادارے سب ہی اپنی اپنی جگہ اس مرض سے بچاؤ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ایک ایسا طبقہ ہے جس کی جانب کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر آتے جاتے خصوصا تالی پیٹتے ہوئے زرق برق کپڑوں میں ملبوس چست و چالاک افراد آپ کی جوڑی سلامت رہے، بچوں کی خیر دے دو، مولا تجھے بیٹا دے گا، ارے کچھ تو دے جا، ہی وہ جملے ہیں جو ہمیں سننے کو ملتے ہیں، لیکن جب سے سندھ بھر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد یہ سارے کے سارے غائب ہو گئے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کیا کہنا، وہ سندھ کو اس وبائی مرض سے بچانا بھی چاہتے ہیں اور مستحق افراد تک راشن بھی پہنچانا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان، مراد علی شاہ سمیت اس تمام معملے میں ایک عدد مشترک نظر آتی ہے۔ کہ سب کا تو خیال ہے ان کو لیکن اگر ذکر نہیں ہے تو خواجہ سراوں کے بارے میں حکمت عملی کا۔ آخر پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ ہزاروں خواجہ سرا کہاں گئے اور کیا ان کی داد رسی کرنے والا کوئی ہے؟ ہم گزشتہ دس دنوں سے انٹرنیٹ پر موجود معلومات کا جائزہ لے رہے تھے کہ شاید اس حوالے سے وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے کوئی پالیسی بنائی ہو لیکن کچھ بھی نظر نہیں آیا۔

ہماری بہن خواجہ سرا بندیا رانا نے فون کیا کہ بھائی کچھ تو ہمارے لیے بھی لکھو۔ میں نے کہا کیا لکھوں؟ یہاں تو سب کا حال خراب ہے۔ بندیا بولی، ہوگا لیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت خواجہ سراؤں کی مدد شروع کردی ہے۔ پھر انہیں نے مجھے تصویریں بھی بھیجیں۔ بندیا پورے پاکستان کے خواجہ سراوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ شاید نہ کر پائیں۔ انہوں نے ابھی تو صرف کراچی کے علاقے ریتی لائن، جونیجو ٹاؤن، ڈیفینس ویو، نرسری اور ڈرگ روڈ کے خواجہ سراوں تک ہی کچھ نا کچھ راشن پہنچایا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس کام میں مدد کرنے کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کیا ان کی کوئی مدد کر پائیں گی؟

About The Author