کرونا کی وبا نے آج دنیا کو دو بد ترین بحرانوں سے دو چار کر دیا ہے ۔ پہلا بحران اس وبا سے بچنے کا ہے جس کے لیے پوری انسانیت دن رات سر توڑ کوشش کر رہی ہے ۔
لاک ڈاون ہو رہے ہیں ۔احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں نئی ویکسین ایجاد کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اقتصادی بحران آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے کچھ بر وقت اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔
چونکہ حکومت اس وقت ایک ایمرجنسی کی کیفیت سے گزر رہی ہے اور اس کے سامنے لوگوں کی جان بچانا سب سے اول ترجیح ہے اس لیے اقتصادی سائیڈ پر مکمل توجہ دینا ممکن نہیں۔سب سے پہلے حکومت ملک کے اقتصادی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دے جو دن رات صرف اقتصادی بحران سے نکلنے سے متعلق قابل عمل سفارشات تیار کرے۔
اس ٹیم کے اراکین کا چناٶ خالص قابلیت اور میرٹ پر کیا جائے۔اسی طرح سائنسدانوں کو بھی ایک ٹیبل پر بٹھا کے سفارشات مانگی جائیں۔ ایسے بحران سے ہمیشہ انتہا پسند عناصر فاعدہ اٹھاتے ہیں وہ طاقتور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اعتدال پسند لوگوں کی ساکھ بہت گھٹ جاتی ہے۔ ہم تاریخ کے چند صفحات کھولتے ہیں تو ہمیں ایک اصتلاح
great depression
کی نظر آتی ہے ۔اس سے مراد وہ غیر معمولی کساد بازاری ہے جو 1929ء سے امریکہ اور یورپ میں شروع ہوئی اور دس سال جاری رہی۔اس زمانہ مخصوص اسباب اور حالات کے تحت صنعتی پیداوار کے خریدار نہ رہے اور کارخانے بند اور اقتصادی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئیں۔بے روزگاری 25% سے 33% تک جا پہنچی۔مغربی دنیا کی نصف تجارت برباد ہو گئی۔ اس غیر معمولی کساد بازاری کا آغاز بھی 1920ء کی ایک وبا سے ہوا تھا جس نے کروڑوں جانیں لے لیں۔ امریکہ نے تو اس زمانے کنسٹرکشن انڈسٹری کو آگے کر کے اس بحران سے کافی حد تک نجات پالی مگر دوسرے ملک مشکلات میں گھر گیے ۔وزیراعظم عمران خان نے بھی آج کنسٹرکشن کو انڈسٹری کا درجہ دے کر اہم قدم اٹھایا ہے۔مگر تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے۔ کسی سوسائیٹی میں بظاہر سب سے طاقتور ادارہ حکومت کا ہوتا ہے ۔ جب کوئی بڑی مصیبت پڑتی ہے تو لوگ اس کو حکمرانوں سے منصوب کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔اس نفسیاتی کیفیت سے کچھ انتہا پسند حکومت کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دے کر پرجوش تقریریں کرتے ہیں اور عوام کے ہمدرد دکھائی دیتے ہیں۔ کساد بازاری کے 1929ء میں جرمنی کے یہی حالات تھے جس کو ہٹلر نے استعمال کیا۔اس نے تمام مصیبتوں کا ذمہ دار حکومت وقت کو قرار دیکر اس کے خلاف آتشیں تقریریں شروع کر دیں۔ حالانکہ اس وقت جلتی پر پٹرول ڈالنے والا یہ میڈیا بھی نہیں تھا جس نے آج ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے اس کے باوجود ہٹلر جرمنی کا مقبول لیڈر بن گیا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ ہٹلر اپنے پاس ذاتی حفاظت کے لیے ایک خاص پستول رکھتا تھا جس پر سونے کا کام تھا اور دستہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے جو حالات پیدا کیے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی کا عظیم ملک تقسیم ہو کر کئی حصوں میں بٹ گیا اور اس پر روس ۔امریکہ۔برطانیہ۔فرانس کا غلبہ ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد ہٹلر نے اپنی حفاظت پر رکھنے والے سونے اور ہاتھی دانت کے دستے والے پستول سے اپنے آپ کو 30اپریل 1945ء میں گولی مار کر خود کشی کر لی اور ملک ڈبو کے چلتا بنا۔
ادھر ہم ماضی کا ایک اور سبق آموز واقع دیکھتے ہیں جب مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے وزیراعظم کے برابر عھدے پر تعینات کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ سال مصر میں خوشحالی اور اگلے کئی سال قحط کے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک اعلی حکمت عملی سے اتنا غلہ اکٹھا کر لیا کہ وہ مصر کے تمام لوگ قحط کے اگلے کئی سال استعمال کرتے رہے۔
آج ہماری حکومت کو بھی اتنا غلہ اکٹھا کر کے رکھنا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ کئی دوسرے ملکوں کی ضرورت بھی پوری کرے۔ یہ کام خلوص اور یکجہتی سے کرنا ہے۔ میری ملک کے حکمرانوں سے اپیل ہے خدا کے لیے کرپشن۔رشوت خوری اور خردبرد سے باز آجائیں۔ ملک کی کشتی میں سراغ کرنا بند کریں ورنہ ہم سب تو ڈوبیں گے مگر یہ لوگ جو صنم بنے بیٹھے ہیں بھی غرق ہونگے۔اللہ ہمیں ہدایت عطا کر آمین۔
اے وی پڑھو
سلطان ناصر اور ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔||گلزار احمد
گاٶں کے رومینٹک قصے۔۔۔||گلزار احمد
پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی اور ڈیرہ ۔۔۔||گلزار احمد