نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اہل مذہب سے مؤدبانہ درخواست ۔۔۔حیدر جاوید سید

حکومتوں کے پاس کوئی اعداد وشمار ہیں ناکوئی باضابطہ طریقہ کار۔ اس جملہ معترضہ کو ایک طرف رکھئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں

غیرسنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں بچوں کی تعطیلات کو والدین نے میل ملاقات کا ذریعہ بنا لیا۔ ددھیال وننھیال سے بچوں کو ملانے نکل کھڑے ہوئے، کچھ سختی ہوئی تو یہ سیر سپاٹے رُکے۔
خریداری کیلئے مقررہ وقت میں حکومتوں نے جو اصول وضع کئے تھے انہیں نظرانداز کیا گیا، پھر اضلاع کے حکام کو میدان میں اُترنا پڑا، یہاں بھی مؤدبانہ درخواستیں کام نہ آئیں بلکہ سختی کرنا پڑی۔
تب کہیں بازاروں میں ٹھٹھ لگانے کا عمل بند ہوا۔
مساجدکے آئمہ جمعہ وجماعت نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے کی بجائے عبادات کیلئے بنائے گئے ضوابط کو دینی امور میں مداخلت قرار دیا، چاروں صوبائی حکومتوں نے بہت مشکل سے انہیں رضامند کیا لیکن اکثریت اب بھی بضد ہے کہ دوران عبادت کورونا حملہ نہیں کر سکتا۔
آپ جس وقت یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے صدرمملکت کی صدارت میں مختلف مکاتب فکر کے علماء ومشائخ اور سیاسی قائدین کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ اور ضابطہ اخلاق آچکا ہوگا، یہ خدشہ بہرطور ہے کہ اتفاق رائے ناہو سکے پھر بھی سطور لکھتے وقت دعاگو ہوں کہ ہمارے دینی رہنما ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی بجائے مسائل ومشکلات کو سامنے رکھیں۔
وفاقی وزیرمذہبی امور قاری نورالحق قادری کا خدشہ بجا ہے کہ
”اگر علماء اور آئمہ جمعہ وجماعت نے دنیا اور پاکستان میں کورونا سے پیدا شدہ حالات کو نظرانداز کیا تو مجھے خدشہ ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کا الزام مذہبی طبقات پر نہ لگ جائے“
آگے بڑھنے سے قبل دو تین بیانات کی جھلکیاں لکھے دیتا ہوں۔
جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر کہتے ہیں نماز تراویح پر پابندی منظور نہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت شرعی امور میں مداخلت سے باز رہے۔ جمعہ کے خطبے کے اُردو حصے پر پابندی کو بھی پروفیسر ساجد میر غیرشرعی کہتے ہیں۔ علماء بورڈ اور سنی تحریک نامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت مذہبی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔ مسجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنا شرعی امور پر حملہ ہے۔
اب بتلائیے کیا کیا جائے۔ یہ ہمارے ان مذہبی رہنماؤں کے بیانات ہیں جن کے پاس ہر مرض وبا اور مسئلے کے حل کی گیدڑ سنگھی موجود ہے۔
ادھر سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے کہا ہے کہ
"کورونا سے پیداشدہ صورتحال میں ماہ رمضان کے دوران مساجد میں نماز تراویح ادا نہیں کی جائیں گی۔
عید سے قبل اگر حالات معمول پر آئے تو بجا ورنہ عید نمازیں بھی نماز تراویح کی طرح گھروں پر ادا کی جائے”۔
بیت اللہ اور مسجد نبویؐ میں رمضان المبارک میں لگائے جانے والے افطار وسحری کے دسترخوان کے حوالے سے دونوں مقامات کی انتظامی کمیٹیوں نے اعلان کیا ہے کہ امسال کورونا وباء کی وجہ سے یہ دسترخوان نہیں لگائے جائیں گے۔
عراق، ایران اور شام کے مقدس مقامات سے ملحقہ مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں بھی ڈیڑھ ماہ سے علماء کونسلوں اور حکومتوں کے مشترکہ ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جا رہا ہے۔
اب کیا ہم سعودی عرب، ایران، شام وعراق یا پھر انڈونیشیا، ترکی اور مصر کے مسلمانوں سے بھی اعلیٰ درجہ کے مسلمان ہیں کہ جو ضروری اقدامات وہاں محسوس کئے جارہے ہیں وہ ایشیاء کے اس حصے میں غیرضروری اور اسلامی امور میں مداخلت قرار پا رہے ہیں؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مصر، ترکی، ایران، عراق، شام، سعودی عرب میں نجی مساجد اور مدارس کا تصور نہیں ہے۔
نجی مساجد کے تصور کا مطلب یہ ہے کہ جب جس کا جی چاہے وہ کہیں بھی مسجد تعمیر کر لے،
مندرجہ بالا تمام ممالک میں مساجد کی تعمیر کیلئے باقاعدہ قانون موجود ہے اس سے انحراف ممکن ہی نہیں، یہ آزادی صرف پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان میں ہی ہے جہاں چاہیں، جب چاہیں مسجد بنا لیں۔
حکومتوں کے پاس کوئی اعداد وشمار ہیں ناکوئی باضابطہ طریقہ کار۔
اس جملہ معترضہ کو ایک طرف رکھئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ بہت ادب سے کہوں کہ چونکہ ہمارے ہاں مساجد دوسری عبادت گاہوں اور مدارس کو قانونی تحفظ حاصل ہے نا یہ کسی ریاستی نظام کا حصہ ان کے معاملات عوام کے چندوں، زکوٰۃ وصدقات وغیرہ پر ہی قائم ودائم ہیں یہی اصل مسئلہ ہے۔
زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے، حکومت معاشرے کے کمزور طبقات کے افراد کیلئے امدادی پیکج دے چکی مذہبی مقامات کے خادمین کیلئے بھی پیکج دے۔
مساجد ومدارس اور دوسرے مذہبی مقامات کے کیلئے کم ازکم تین ماہ کے یوٹیلٹی بلز معاف کر دے۔ مساجد کے آئمہ، جماعت ومؤذن حضرات، مدارس کے اساتذہ کرام اور مذہبی مقامات کے خادمین کو تین ماہ کیلئے اعزازیہ چاروں صوبوں میں محکمہ اوقاف سے دلوانے کا بندوبست کرے، چاروں صوبوں میں اوقاف کی اتنی ماہانہ آمدنی ہے بلکہ یوں کہیں کہ جمع شدہ رقم ہے کہ اس سے تین ماہ کیلئے انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاملہ اسلامی امور سے زیادہ معاشی ہے، اس کا حل حکومت تلاش کر لے۔
ثانیاً آئمہ جمعہ وجماعت دینی مدارس کے اساتذہ کرام اور مذہبی مقامات کے خادمین کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں کورونا کے 7450مریض ہیں، 150کے قریب اموات ہو چکیں، خطرات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔
اسلام وآئمہ جمعہ وجماعت سے کسی کی ذاتی دشمنی نہیں، اس ملک میں لگ بھگ 93فیصد مسلمان ہی آباد ہیں، تقریباً سبھی ہی نماز، روزہ اور دیگر واجب عبادات کیساتھ نفلی عبادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں
بنیادی سوال اصل میں یہ ہے کہ اگر خاکم بدہن معمولی سی بے احتیاطی سے مسئلہ گمبھیر ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
بات وہی جناب نورالحق قادری والی ہے کہ اس وقت جوش کی نہیں دانشمندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔
آپ دنیا بھر میں دیگر آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات، عبادت گاہوں اور دیگر مراکز کو دیکھ لیجئے کورونا وبا پھیلنے کے بعد وہاں رضاکارانہ طور پر تحفظ انسانیت کیلئے عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ اصولوں پر عمل ہو رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے مذہب مسیحیت کے عالمی مرکز ویٹی کن سٹی میں ایسٹر کی عبادت پوپ نے تنہا کی۔
ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام آفاقی دین اور انسانیت کی رہنمائی کیلئے آیا ہے
چند ساعتوں کیلئے ٹھنڈے دل سے غور کیجئے جو رویہ ہمارے بعض علماء آئمہ جمعہ وجماعت مذہبی مقامات کے خادمین اور بعض مذہبی شخصیات کا ہے اس سے ان دعوؤں کی تصدیق ہوتی ہے جن کا اوپر ذکر کیا ہے؟
بہت ادب واحترام کیساتھ اہل مذہب سے درخواست ہے کہ انسانیت کو خطرات سے دوچار نہ کیجئے! ایسا نہ ہو کہ معمولی سی غلطی اور خلا، گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے والی صورتحال بن جائے۔

About The Author