رانا محمد سلیم کا شمار خانیوال کی چند طاقتور کاروباری و سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔
انہیں علاقے میں ایک وسیع سیاسی و سماجی حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
کوٹ بہادر یونین کونسل کبیروالا سے انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ ق اور پھر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
2013ء میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے پی پی 214 کا الیکشن لڑا اور 2018ء میں حلقہ پی پی 206 خانیوال فور سے الیکشن لڑا، شکست کا مارجن صرف تین سے چار ہزار رہا۔
حال ہی میں انہوں نے پی ٹی آئی اور وزیراعظم کی معائنہ ٹیم کے چئیرمین سردار احمد یار ہراج سے سیاسی راہیں الگ کرلیں۔
خانیوال میں ہراج گروپ کی سیاست میں یہ پہلی بار نہیں ہوا، صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی پی 206 سابقہ 214 و حلقہ پی پی 177 پر اور بلدیات کی چئیرمین شپ پر ان کا اختلاف ہوا ہو اور برسوں کے یارانے ٹوٹے ہوں۔
سردار اللہ یار ہراج 1993ء کے الیکشن میں جونیجو گروپ سے تھے اور این اے 157 پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے۔ حلقہ پی پی 177 پر انہوں نے پی پی پی کے 188ء سے چلے آرہے ٹکٹ ہولڈر نوابزادہ رزاق خان نیازی کو لینے سے انکار کرتے ہوئے مصعب حیدر کھگہ کو لیا، اس کا مقصد انتخابی مہم کا خرچہ اٹھایا جانا تھا۔
ایسے ہی 1997ء میں انھوں نے امیدوار بدل ڈالا اور پھ 2000ء میں بلدیاتی الیکشن میں تحصیل ناظم کے لیے اپنے قریبی ساتھیوں کو نظر انداز کرکے نشاط ڈاہا کو منتخب کروایا۔
اسی طرح 2002ء میں اپنے بیٹے حامد یار کے نیچے ظہور خان ڈاہا کو لیا۔
2006ء میں ضمنی الیکشن میں عمران دھول کو لیا اور 2008ء میں دھول کی بجائے رانا سلیم کو حامد یار کے نیچے لیا۔
پھر 2012ء میں حامد یار ہراج کے انکار کے باوجود رانا سلیم کو لیا۔
یہ اختلاف اتنا طوالت پکڑا کہ 2018ء میں احمد یار خود الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر آئے تو نیچے رانا سلیم کو لیا اور لیکن اس مرتبہ یہ ناطہ بمشکل دو سال چلا۔
رانا سلیم نے احمد یار ہراج سے علیحدگی اختیار کرلی۔
ہراج خاندان کی سیاست پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نیچے یس باس قسم کا ارب پتّی سرمایہ دار رکھتے ہیں لیکن اس کو سیاسی طور پر خودمختار ہونے نہیں دیتے۔
رانا محمد سلیم ہراج گروپ سے الگ ہوکر اپنی سیاسی اہمیت دکھا پائیں گے؟
یہی وہ سوال ہے جس کی تلاش میں ہم نے رانا محمد سلیم سے انٹرویو کیا۔
سوال: پی ٹی آئی اور ہراج گروپ سے آپ کی علیحدگی کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔ اصل بات کیا ہے؟
رانا محمد سلیم: میں نے سردار احمد یار ہراج سے اپنی سیاسی راہیں اس لیے جدا کی ہیں کہ انہوں نے میرے دوست کے بیٹے اور میرے سیاسی سپورٹر رانا محمد عامر کی زمین کے ایک سودے میں ایم پی اے نشاط ڈاہا سے چل رہے تنازعے میں از خود ثالثی کا کردار لینے کے بعد ثالثی فیصلہ دینے کی بجائے یک طرفہ طور پر ناجائز ہرجانہ(بلکہ بھتہ) دینے کا فیصلہ سنایا جو میری غیرت اور وقار کے منافی تھا۔
اس کے بعد میرے پاس گنجائش نہیں رہی تھی کہ میں احمد یار ہراج کے ساتھ رہتا۔
میں نے ان کے سیکریٹری حشمت پہوڑ کو پیغام دیا کہ وہ ان کو بتادیں گے اب ہماری راہیں جدا ہیں۔
سوال: زمین کے تنازعے پر کوئی روشنی ڈالیں گے؟
رانا سلیم: میرے انتہائی عزیز دوست رانا مختار کے بیٹے اور مختار انڈسٹریز کے ایم ڈی رانا محمد عامر نے نشاط احمد خان ڈاہا سے ان کی فلور ملز کے ساتھ پڑی 9 کنال اراضی کا سودا ایک کروڑ 65 لاکھ روپے کے عوض کیا تھا۔
وہ اس زمین پر ٹاؤن بنانا چاہتا تھا اس نے مجھے بتایا تو میں نے اسے خبردار کیا تھا کہ وہ محکمہ ریونیو اور ٹی ایم اے خانیوال کو جتنی قانونی فیسیں بنتی ہوں جمع کروائے۔
لالچ میں مت پڑے لیکن اس وقت چئیرمین بلدیہ مسعود مجید (بھانجا ایم پی اے نشاط ڈاہا)، سی ای او بلدیہ، ایم او پی اور دیگر عملہ ٹاؤن پلاننگ و نقشہ برانچ کی رشوت خوری کے سبب لالچ میں آکر غلط کام کرلیا گیا جس کا خمیازہ رانا عامر نے ایک طرف تو ڈبل فیسیں بھرنے کی صورت میں بھگتا تو دوسری طرف بھاری رشوتیں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کو دینا پڑیں۔
اس ساری صورت حال سے ایم پی اے نشاط ڈاہا نے مبینہ طور پر ناجائز فائدہ اٹھایا۔
اس نے نہر کے دوسری طرف پڑی 9 کنال زمین کا انتقال بشیر خان ڈاہا سے لیا اور ساتھ اپنے بھانجے مسعود مجید خان کو کہا کہ وہ بھی رانا عامر کی خرید کردہ زمین پر اپنا دعوا کردے۔
محکمہ ریونیو کی طرف سے بار بار حد برداری کی رپورٹ رانا عامر کے حق میں آرہی تھیں تو مسعود مجید اور اس کے غنڈوں نے عجوہ سٹی پر قبضہ کرنے کے لیے دھاوا بولا۔
ون فائیو پر کال کے باوجود پولیس نہ آئی تو وہآں پر موجود لوگوں نے اپنا دفاع کیا جسے ایم پی اے نشاط خان کے دباؤ نے پولیس کو ایک مبینہ بوگس ایف آئی آر کاٹنے کا حکم دیا۔
اس پرچے کی تفتیش ڈی ایس پی جہانیاں شمس خان پر گئی جس نے اس سارے واقعہ میں قصور وار مسعود مجید اور اس کے ساتھیوں کو ٹھہرایا۔
ایم پی اے نشاط نے چیف منسٹر کا دباؤ ڈلواکر تفتیش آر پی او ملتان کے ایس پی انوسٹی گیشن رب نواز تلہ کو منتقل کروائی جہاں چیف منسٹر ہاؤس کے دباؤ پر یک طرفہ فیصلہ لکھوایا گیا۔
اس دوران نشاط ڈاہا نے وقت گزاری کے لیے سردار احمد یار ہراج کو ثالثی کی پیشکش کی۔
سردار احمد یار ہراج نے مجھے بتایا میں نے سردار احمد یار ہراج پر اعتماد کیا۔
ان کو رانا عامر کی طرف حلفی بیان و بلینک ضمانتی چیک بھی دیے لیکن دوسری طرف سے مدعی مقدمہ مسعود مجید سے کوئی اسٹام نہ لیا گیا اور اسٹام نشاط ڈاہا کا آیا۔
سردار احمد یار ہراج نے دو ماہ گزر جانے کے بعد کئی عرض داشتوں کے باوجود ثالثی فیصلہ نہ سنایا۔
ادھر رانا عامر ودیگر کی عبوری ضمانتیں بھی منسوخ ہوگئیں۔
نشاط ڈاہا سے تعاون نہ کرنے کی پاداش میں ڈی پی خانیوال کا تبادلہ کردیا گیا۔
موجودہ ڈی سی خانیوال آغا ظہیر عباس شیرازی جو پہلے دن سے نشاط احمد ڈاہا کے ساتھ مبینہ ساز باز تھے احمد یار ہراج اور رانا عامر کو کہا کہ وہ نشاط ڈاہا کو مزید پیسے دے کر معاملہ حل کرلیا جائے۔
اس طرح سے نشاط احمد خان ڈاہا کو ایک بار پھر 90 لاکھ اور مسعود مجید کو 28 لاکھ روپے دینے کو کہا گیا۔
یعنی ایک کروڑ 65 لاکھ کے سودے میں مزید ایک کروڑ 18 لاکھ روپے بھرنے کو کہا گیا۔
یہ سیدھا بھتہ اور سینہ زوری تھی جسے کم از کم میں تو برداشت نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے کمزور اور یک طرفہ فیصلے کے بعد سردار احمد یار ہراج کے ساتھ چلنا غیرت اور وقار کے منافی فیصلہ تھا جو مجھے منظور نہیں تھا۔
سوال: پی ٹی آئی کو خیر باد کہنے کی وجہ؟
رانا محمد سلیم: ایک تو عجوہ سٹی والے معاملے میں چیف منسٹر سردار عثمان بزدار لیگی ایم پی اے نشاط ڈاہا کی سپر بن گئے۔
بلکہ جس پولیس افسر نے میرٹ پر فیصلہ کرنے کی کوشش کی اس پر سخت دباؤ ڈالا گیا۔
جب اس نے دباؤ برداشت کرلیا اور میرٹ برقرار رکھا تو اس کا ٹرانسفر کردیا گیا۔
پنجاب حکومت کی پولیس میں سیاسی مداخلت نہ کرنے کا دعوا مذاق بن گیا۔
دوسری جانب پنجاب کے سی ایم نے مسلم لیگ نواز میں مبینہ فارورڈ بلاک قائم کرنے اور یہ خواہش پالنے کی اپنی کمزور حثیت کو بھگوڑے اور لوٹے اراکین کے زریعے سے پورا کیا جائے کے تحت خانیوال کی ضلعی ایڈمنسٹریشن کو ایک ایم پی اے کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی کوشش کا ساتھ دیا۔
ایسے ہی حلقہ پی پی 206 سے ممبر صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی حامد یار ہراج نے اپنے ترقیاتی فنڈ سے ایک کروڑ سے زائد کا فنڈ پی ٹی آئی کے مخالف لیگی امیدواروں کی سپورٹ کرنے والے رہنما عمران دھول کو دیا۔
اسے پی ٹی آئی ضلع خانیوال کا صدر بھی بنادیا گیا تو یہ واضح اشارہ تھا کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت اور تنظیم بھگوڑوں اور لوٹوں کے ہاتھ یرغمال بن چکی ہے۔
اسے 42 ہزار کے قریب ووٹ لینے والا ٹکٹ ہولڈر اور اس کے ساتھیوں کی عزت کا کوئی پاس نہیں رہا تو ایسی سیاسی جماعت میں کھڑے رہنا کا فائدہ کوئی نہیں تھا۔
اگر اقتدار میں رہ کر بھی اپوزیشن کاٹنی ہے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے انتقام کا نشانہ بننا ہے تو پھر یہ اپوزیشن میں بیٹھ کر ہی بنا جائے تو کیا حرج ہے۔
سوال: آئیندہ کے سیاسی عزائم کیا ہیں؟ کیا خانیوال کی سیاست میں آپ اپنا کردار ادا کریں گے؟ کس پارٹی میں شامل ہوئے ہیں؟ کس مقامی سیاسی دھڑے کے ساتھ ہیں؟
رانا سلیم: ایک بات تو ذہن نشین کرلیں میرا اپنا سیاسی گروپ ہے۔
ہم جتنا وقت ملے گا اپنے سیاسی گروپ میں اضافہ کریں گے اور اسے مضبوط بنائیں گے۔
ہراج گروپ اور پی ٹی آئی میں اور میرا گروپ چھوڑ چکا لیکن کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے اور کسی دوسرے مقامی سیاسی دھڑے سے اتحاد کا سوال قبل از وقت ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوگا تو ہم یقینی طور پر الائنس میں جائیں گے اور عام انتخابات سے کچھ دیر پہلے کس سیاسی جماعت کا رخ کرنا ہے یہ فیصلہ کریں۔
انشاء اللہ بے ضمیری، جھوٹ، بھتہ خوری اور پولیس گردی کا کلچر ختم کرکے دم لیں گے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ آپ ہراج گروپ کے سربراہ سردار احمد یار ہراج اور ان کے بھائی حامد یار ہراج کی صلح میں روکاوٹ تھے؟
رانا سلیم: یہ بہت بڑا جھوٹ ہے یہ بار بار بولا جارہا ہے تو مجھ پر لازم ہے کہ میں یہاں پہلی بار کچھ باتوں کا انکشاف کردوں۔
2013ء کے انتخابات سے قبل میں نے صاف طور پر کہہ رکھا تھا کہ میں صوبائی اسمبلی کی امیدواری کا خواہش مند نہیں ہوں اگرچہ سردار احمد یار ہراج نے مجھے کہا تھا۔
جب اوائل میں دونوں بھائیوں میں اختلاف رونما ہوئے اور کچھ ناعاقبت اندیش کالی بھیڑوں نے مجھ پر الزام لگانے کی کوشش کی تو میں نے سردار احمد یار ہراج کو واضح طور پر کہا تھا کہ وہ حامد یار ہراج سے پوچھ لیں کہ اپنے نیچے حلقہ پی پی 214 سے وہ کسے الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں اور یہاں تک عمران دھول کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔
لیکن حامد یار ہراج نے ‘عمران دھول’ کو سیاسی طور پر ‘مردہ لاش’ کہہ کر رد کیا تھا۔
جب کوئی امیدوار حامد یار نے نہ دیا تو ناموں پر غور شروع ہوا ایک گروپ شہزاد احمد خان ڈاہا کو لانے کی کوشش کرنے لگا تو تب میں نے اپنا نام پیش کیا۔
اس طرح میری نامزدگی ہوئی، میں نے اس قدر احمد یار ہراج پر حامد یار ہراج سے صلح کا دباؤ ڈالا کہ چین میں میرے بھائی رانا خاور کو سردار احمد یار ہراج نے کہا کہ رانا سلیم کو اس بات سے باز رکھو۔
جب حامد یار ہی صلح نہیں چاہتا تو میں کیسے صلح کرلوں۔
2018ء کے الیکشن میں جعفر سرگانہ نے ایک صحافی کے گھر حامد یار اور احمد یار میں صلح کرانے کی پیشکش کی تو حامد یار ہراج نے انکار کردیا۔
اس وقت بھی احمد یار نے کوئی سختی نہیں دکھائی، اب تو حامد یار کے پاس کھلا موقع ہے وہ بھائی سے معاملہ درست کرلیں مجھے خوشی ہو گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ