نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

معجزاتی ملک اور کرشماتی لوگ! ۔۔۔شیخ خالد زاہد

پھر ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس کرونا نامی وباء کو بھی مغرب کی سازش قرار دے رہی ہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق کسی معجزے سے کم نہیں اور اس بات کی گواہی اس ملک کے حکمرانوں کی کارگردگی ہے کہ جنہوں نے اس ملک سے ناصرف نام کمایا بلکہ روپیہ پیسہ بھی اتنا بنایا کہ اپنے ملک کے علاوہ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں جائدادیں بنائیں اور کاروبار جمائے (یہ ان ملکوں میں ہیں کہ جہاں کے مقامی لوگوں کیلئے اپنا گھر بنانا آسان نہیں ہے)، لیکن یہ ملک چلتا رہا ہے اور الحمدوللہ چل رہا ہے ۔ جیساکہ عنوان میں قوم کو کرشماتی لکھا ہے جس کی وجہ مذکورہ بالا حکمرانوں کو بار بار حکومت میں لانے والی یہ قوم ہی ہے کہ جن کے پاس اپنے کھانے کیلئے روٹی نہیں ،پینے کیلئے صاف پانی نہیں ، تن ڈھاپنے کیلئے کپڑا نہیں ،علاج معالجے کی سہولیات نہیں ، لیکن یہ ووٹ انہیں کو دیتے آئے ہیں کہ جنہوں نے ان سے زندگی گزارنے کی بنیادی اشیاء بھی چھین رکھیں ۔ یہ کرشماتی لوگوں کا امتیاز تھا کہ انہوں نے ایک معجزاتی ملک کی تخلیق کو یقینی بنایا ۔ تخلیق پاکستان سے ملک کے معجزاتی ہونے اور عوام کے کرشماتی ہونے کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نے دھیان دینے کی کوشش کی ہو، کسی نے ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی ہو یا پھر کسی نے شکر کی جانب رغبت دلانے کی راہ دیکھائی ہو، جو بھی آتا گیا اپنے اپنے مفادات کا بیج بوتا گیا اور عوام کو تقسیم در تقسیم کرتا چلا گیا ۔ کتنے ہی جہاں دیدہ لکھنے والوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان ایک اللہ کا ایک معجزہ ہے اور یہ پاکستانی قوم کرشمے دیکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

معجزاتی مملکت کی کرشماتی قوم نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا گھر سمجھا اور اسکے سربراہ کو سر آنکھوں پر بٹھایا گوکہ سربراہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ عوام کے کھانے پینے کا بندوبست کرے ، جیسا کہ ساری دنیا میں ہوتا ہے لیکن پاکستانیوں نے ہمیشہ اپنے جان سے پیارے گھر کے سربراہوں کو نا صرف کھلایا پلایا بلکہ انکے خاندانوں کو ابتک پال پوس رہے ہیں ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کی فکر نا ہو ۔ حادثے سانحے اس قوم کو پیش آتے رہے اور یہ قوم کرشمے دیکھاتی رہی اور بڑے سے بڑے حادثے اور سانحے سے سرخ روح ہوکر نکلتی رہی ۔ قوم کا کرشماتی ہونا قوم کو نہیں پتہ چل سکا لیکن قوم کے سربراہوں کو سمجھ آگیا کہ وہ ایک ایسی کرشماتی قوم پر مسلط ہوئے ہیں جو آپس میں تو لڑے گی ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے گریز کرے گی لیکن ہم (سربراہ) پر آنچ نہیں آنے دے گی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے اپنے کرشموں سے سیلابوں کے رخ موڑے ہیں ، زلزلے سہے ہیں اور کتنی ہی آفات کا سامنا سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کیا ہے ۔

اتنے گناہوں ، اتنی نافرمانیوں ، اتنی بدعنوانیوں ، اتنی بے قاعدگیوں ، اتنا جھوٹ ، اتنی بے ایمانی ، اتنی نا انصافی، کون سے ایسے گناہ ہیں جو اس قوم سے بچ گیا ہو ۔ لیکن کیا ہوا;238; کیا پاکستان کی زمین نے اناج اگانا بند کردیا ، کیا پھلوں سے مٹھاس کم ہوگئی ، کیا دریاءوں کا پانی نمکین ہوگیایا پھرکم ہوگیا، ہر سال یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک نے پانی روک دیا تو خشک سالی ہوجائے گی لیکن ہر سال قدرت اتنی برسات کرتی ہے کہ ہ میں اپنا پانی سمندر کی نظر کرنا پڑ جاتا ہے پڑوس ملک والے پانی چھوڑ دیتے ہیں تو سیلاب آجاتا ہے ،کیا زمین سے نکلنے والی مدنیات میں کمی آگئی بلکہ نئی نئی دریافت کا سلسلہ جاری ہے ، غور تو کریں کیا یہ سب معجزے نہیں ہیں ۔ ہ میں قرآن مجید فرقان حمید کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ ہم سے پہلی اقوام پر انکے کئے گئے گناہوں کی وجہ سے کیسے کیسے غضب ناک عذابوں میں مبتلاء کیا گیا اور صفہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا، آج ہم میں (صرف پاکستان کی بات ہورہی ہے )بھلا کون سا ایسا گنا ہ نہیں موجود نہیں جن کی وجہ سے قوموں کو نیست و نابود کردیا گیا ۔ یوں تو بطور امت ہمارا حال ایسا ہی ہے لیکن غنیمت یہی ہوتا ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے گھر میں دیکھیں تو پاکستان ہمارا گھر ہے اور ہم اسکے فرد ہیں ۔

پچھلے چار مہینوں میں جدید ترین دنیا ،روشنیوں سے جگمگاتی دنیا، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا ، آسائشوں سے مزین دنیا ، لذتوں میں ڈوبی دنیا ، طاقت کے نشے میں دھت دنیا کو ہم کس طرح سے ایڑیاں رگڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔ چین نے اپنے توازن کی وجہ سے اس کرونا نامی وبا سے بھرپور طریقے سے چھٹکارا حاصل کیا اور ثابت کیا کہ یہ وہی قوم ہے کہ جس نے اپنے انقلابی رہنماء ماءو زےڈونگ تربیت کا حق ادا کیا اور ایک مشہور کہاوت ہے ایک ساتھ رہینگے تو کھڑے رہینگے ، تقسیم ہوگئے تو گر جائینگے، چین کی قوم نے اپنے عمل سے زندہ مثال قائم کردی ۔ اب باری تھی دنیا کی دوسری قوموں کی کہ وہ چین سے سبق سیکھتے اور کرونا کے وار سے محفوظ رہتے لیکن قوموں کاتکبر درمیان میں آگیا ۔ آج امریکہ ، اٹلی ، اسپین ، جرمنی جیسے ممالک بری طرح سے اس جان لیوا وباء کی زد میں ہیں ۔ کچھ ممالک نے تو بروقت فیصلے کئے اور بروقت اس وباء کے چنگل میں پھنسے سے قبل ہی محفوظ ہوگئے ، لیکن جدید یت کی چادر اوڑھے، بری طرح سے پھنستے ہی چلے گئے ۔ پاکستان جوکہ جہاں یہ مرض ابھی تک اس طرح سے نہیں پھیل سکا جیسا کہ تصور کیا جا رہا تھا اور جتنا ابتک پھیلا ہے اس میں بھی ٹھیک ہونے والے مریضوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے جوکہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے ۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کی حکومت اور خصوصی طور پر صوبائی حکومتوں نے بروقت اقدامات کئے جس میں سب سے آگے سندھ کے وزیر اعلی جناب مراد علی شاہ صاحب ہیں (گوکہ اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں )، جنہوں پہلے ہی مریض کے سامنے آتے ہی تعلمی اداروں سمیت دیگر ایسے ادارے جہاں لوگوں کے ہجوم ہوتا ہے بند کرنے کے احکامات صادر کر دئے اور اسکے بعد صوبے میں لاک ڈاءون بھی کرا دیا ، اس سے ملتی جلتی صورت حال پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں بھی دیکھی گئیں ۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پاکستان جیسا ملک اس وبا ء کی شدید کیفیت سے گزر چکا ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، لیکن بر وقت اقدامات جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار ہمیشہ کی طرح اہمیت کا حامل ہے ۔ سڑکوں پرجا بجا رکاوٹیں لگی ہیں قانون کے رکھوالے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ٹریفک کا رش اپنی جگہ ہے ، جہاں کہیں بازار کھلے ہیں لوگوں کے ہجوم وہاں بھی ہیں ، بڑے بڑے اسٹور پر باہر تو سماجی فاصلہ دیکھا جاسکتا ہے لیکن اندر کی صورت حال عام حالات کی صورت حال سے مختلف نہیں ہے ۔ پھر ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس کرونا نامی وباء کو بھی مغرب کی سازش قرار دے رہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ساری دنیا کی خبریں سننے کے بعد بھی اس قسم کی باتیں کرشماتی قوم ہی کرسکتی ہے ۔

اگر زندگی نے اجازت دی اور اس قیامت کی جھلک کو برداشت کر گئے تو دیکھنا ہے کہ معجزاتی ملک اور کرشماتی قوم کتنے احسن طریقے سے اس وباء سے جان چھڑالے گی اور چین سمیت ساری دنیا کو حیران و پریشان کر کے رکھ دے گی، لیکن کیا پھر پاکستان اور اپنی اہمیت اور افادیت کو سمجھ سکے گی

About The Author