دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹونی بیوزان کی یاد میں۔۔۔ محمد عامر خاکوانی

ستر کے عشرے میں جب ٹونی صرف تیس سال کے تھے ، انہوں نے بی بی سی کے لئے دماغ کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے پر سیریز بنائی،

ٹونی بیوزان نامور برطانوی ماہر تعلیم، نفسیات اور مائنڈ سائنسز کے سپیشلسٹ اور دنیا کے چند مہنگے ترین موٹیویشنل سپیکرز میں سے ایک تھے۔ چار سال قبل وہ پاکستان آئے ، معروف ٹرینر، این ایل پی کے ماہر اور موٹیویشنل سپیکر عارف انیس ملک انہیں لے آئے تھے۔

لاہور کے ایک سمینار میں عارف بھائی کی دعوت پر شریک ہوا اور ٹونی بیوزان کی سحرانگیز گفتگو سننے کا موقعہ ملا۔ اسی سہہ پہر ٹونی کا تین چار گھنٹوں پر محیط انٹرویو کرنے کا موقعہ ملا۔ اس ایک ملاقات سے جتنا کچھ سیکھنے ، جاننے کا موقعہ ملا، وہ برسوں کے مطالعہ اور مشاہدے سے بھی ممکن نہیں تھا۔ ٹونی بیوزان ایک ماسٹر گرو تھے، اپنے شعبے پر ان کی بے پناہ گرفت تھی۔

ستر کے عشرے میں جب ٹونی صرف تیس سال کے تھے ، انہوں نے بی بی سی کے لئے دماغ کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے پر سیریز بنائی، جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ٹونی بیوزان” مائنڈ میپ“ تکنیک کے بانی تھے، سپیڈ ریڈنگ پر ان کی کتاب مشہور ہوئی ، جس میں پڑھنے کی رفتار تین چار گنا تیز کرنے کے طریقے بتائے گئے۔ ٹونی نے مائنڈ سائنسز میں برسوں کی ریسرچ اور ریاضت کے بعدبہت کچھ نیا دریافت کیا تھا،ایسے اصول جنہیں استعمال کر کے انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر سکتا ہے۔ ٹونی بیوزان کی مائنڈ میپ تکنیک اور سپیڈ ریڈنگ پر کسی اور دن بات کروں گا،

آج قارئین سے ان کے اس غیر مطبوعہ انٹرویو کے چند اقتباسات شیئر کرتا ہوں۔ پچھلے سال اپریل کے انہی دنوں میں ٹونی بیوزان دنیا سے رخصت ہوگئے ۔وبا کے ان اداس دنوں میں اس خوبصورت دل ودماغ کے مائنڈ گرو کو یاد کرتے ہیں، جس نے پاکستانیوں کے بارے میں محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا:
” آپ کا پاکستان آنے کا تجربہ کیسا رہا ؟

ٹونی بیوزان :جب پاکستان آیا تو مجھے اس دھرتی نے متاثرکیا۔ پاکستان سے محبت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی خوب صورت ملک ہے اور یہ ایک محبت کیے جانے کے قابل ملک ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جب آپ پاکستانیوں سے ملتے ہیں‘ خواہ ان کا تعلق ملک کے کسی بھی حصے سے ہو تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور وہ آپ کا خیال رکھتے ہیں۔میں جب پہلی بار پاکستان آیا تو مجھے اپنی حکومت کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ پاکستان نہ جاﺅ کیوں کہ ملک میں بدامنی ہے اوردہشت گردی کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، لوگ ناخواندہ ہیں‘ جاہل ہیں اور صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھتے ،خوراک کا معیار انتہائی خراب ہے اور اگر میَں نے وہ کھالی تو معدے کے مسائل سے دوچار ہوجاﺅں گا۔ یہ ایک غریب ملک ہے ‘ آبادی کی اکثریت غریب ہے اور لوگ ذہانت سے محروم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے بارے میں فروغ پذیر عمومی تاثر یہ تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے جو بچوں کو قتل کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان کی حقیقی تصویر کشی نہیں تھی۔ میَں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔جب میں کراچی پہنچا تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ باہر نہ جائیں۔ میں نے اس مشورے کو رد کر دیا ۔ میں شہر میں عام لوگوں کے ساتھ کھانا کھا کر پاکستان کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کی آنکھوں میں جھانکنا چاہتا، ان سے ملاقات کرنا، بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ میرے اصرار پر میزبان مجھے اپنے ساتھ ایک ریستوران میں لے گئے۔ وہاں سینکڑوں لوگ بغیر اسلحے کے گھوم رہے تھے ، بچے کھیل رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے۔ لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ میں کار سے باہر آیا تو میَں نے تکہ، کبابوں کی اشتہاانگیز مہک محسوس کی اور سوچا کہ کیاسحرانگیز خوشبو ہے اور دوسری جانب کیا افواہیں اڑائی جاتی رہی تھیں۔ میں اب لوگوں کے درمیان تھا۔ میں پہلی بار پاکستانی خاندانوں کے ساتھ کھانا کھارہا تھا‘ یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ یہ وہ پاکستان نہیں تھا جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں منفی خبریں آتی رہی ہیں۔ کوئی خوف یا خطرہ نہیں تھا۔ یہ پاکستان کے حوالے سے میرا پہلا تجربہ تھا۔

” ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے میں نے بسیں دیکھیں جو شوخ رنگوں اور تصویروں سے آراستہ تھیں۔مجھے معلوم ہوا کہ ہر بس کو ایک شخص، ایک خاندان یا ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا تھا جو فنِ مصوری کی تعلیم دینے والے اداروں سے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کا آرٹ رائل آرٹ اکادمی کے فنکاروں سے بہتر تھا۔ ان بسوں اور ٹرکوں کو پاکستان میں قومی خزانہ قرار دیا جانا چاہیے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آرٹ فطری ہوتا ہے۔پاکستان کے بارے میں میرا یہ تاثر راسخ ہوا کہ یہ ایک کلچر سے محروم ملک نہیں ہے۔

بعدازاں جب میں کھانوں کے ڈھابوں پر گیا جو ریاضیاتی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے ‘ ان ڈھابوں پر رنگوں کو اس خوبصورتی سے استعمال کیا گیا تھا جو میرے لیے باعثِ حیرت تھا۔یہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے ڈھابے تھے جو بجا طور پر آرٹ پیلس کہلانے جانے کے قابل تھے۔ یہ میرے اس ملک کے بارے میں ابتدائی تاثرات تھے اور میں نے سوچا کہ مغربی میڈیا نے پاکستان کی درست عکاسی نہیں کی ۔ میں نے خود کو بہت زیادہ محفوظ خیال کیا۔

پاکستان میں آپ نے مختلف لیکچر دئیے، یہ تجربہ کیسا رہا؟
ٹونی بیوزان: میری اکیڈیمیا کے سینکڑوں سینئر ارکان کے علاوہ ہزاروں اساتذہ اور کاروباری حضرات سے ملاقات ہوئی۔ دنیا بھر میں اکیڈیمیا کے ارکان کی فکر تجزیاتی ہوتی ہے۔ اساتذہ اور کاروباری حضرات ایک طرح کی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔میں نے سروے کیا تو معلوم ہوا ہر شخص میں تخلیقی صلاحیت ہے‘ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ذہین ہیں اخلاقی، سماجی اور روحانی طور پر ذہین ہیں۔

انسانوں کے طرزِ فکر میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے لیکن ثقافتیں ضرور مختلف ہوتی ہیں۔پاکستان کی ثقافت انفرادیت کی حامل ہے اور اس کی زیادہ پذیرائی کی جانی چاہیے کیوں کہ اس خطے کے خواتین کے ملبوسات دیکھئے اور یورپ فیشن شوز میں جن ملبوسات کی نمائش کی جاتی ہے‘ وہ آنکھوں کو نہیں بھاتے۔پاکستانی خواتین کے ملبوسات ریاضیاتی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ان میں رنگوں کا استعمال انتہائی شاندار ہوتا ہے اور ان میں ہم آہنگی ہوتی ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی حسِ مزاح غیر معمولی ہے‘ وہ بہترین لطیفے سناتے ہیں۔یہ ایک انتہائی پرجوش قوم ہے۔ ان کے رقص میںتمام لوازمات شامل ہیں۔

ان کی کلاسیکی اور پاپ موسیقی زبردست ہے جو انتہائی پیچیدہ اور مسحور کن ہے اور گلوکاروں کی طرز گائیکی سحر طاری کر دیتی ہے۔ بہت سے مغربی موسیقاراس قدر محنت نہیں کرسکتے ۔آپ دیکھیں گے کہ بہت سے مغربی گلوکاروں نے پاکستان کے کلاسیکی گلوکاروں کی نقل کرنے کی برسوں تک کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ یہ ایک انتہائی شاندار آرٹ، کلچر ہے۔ اسلامک آرٹ خوبصورت، معلوماتی اور ایک بار پھر ریاضیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اس نے مغرب کے بہت سے مصوروں کو متاثر کیا جن میں پکاسو بھی شامل ہیں۔جناحؒ ایک حقیقی سیاست دان تھے اور ان کے اقوال اس قوم کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں سے جو کچھ کہا‘ وہ بہترین تھا۔ وہ ایک عظیم لیڈر تھے۔میں نے اقبال کی شاعری اور نثر کے انگریزی تراجم پڑھے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں شاہین کا استعارہ استعمال کیا۔ وہ روس کے پشکن، انگلینڈ کے شیکسپیئر، آئرلینڈ کے ییٹس اور لاطینی امریکہ کے بورخیس کی طرح جینئس تھے۔ میں جب سڑکوں پر چہل قدمی کررہا ہوتا ہوں تو لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ اقبالؒ کو جانتے ہیں تو ان کا جواب اثبات میں ہوتا ہے۔میرے کلاس رومز، سٹیڈیمز یا دیگر تقریبات میں شرکت کرنے والے پاکستانی گیان، یادداشت، سیکھنے، سوچنے اور تخلیق کرنے کے عمل میں صلاحیتوں سے مالامال ہیں اور میَں اس کا تجربہ کرچکا ہوں۔

آپ نے پاکستان کے مثبت پہلوﺅں پر روشنی ڈالی‘ آپ کے خیال میں وہ کیا منفی پہلو ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے؟
ٹونی بیوزان: میں ان عوامل کو منفی تو نہیں کہوں گابلکہ میرے خیال میں کچھ چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ مثال کے طور پرآپ اپنی جسم کی پرداخت کس طرح کرسکتے ہیں؟

متوازن ،صحت مند غذا کھانے سے ، پاکستان میں اس پر توجہ دینی چاہیے۔ ایک مقولہ ہے کہ تربیت سے ہی درستی آتی ہے‘ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ غلط پریکٹس کرتے ہیں تو آپ جس قدر زیادہ پریکٹس کریں گے تو آپ غلطی پہ غلطی دہراتے چلے جائیں گے اور اس سے آپ اپنی حماقت ثابت کرتے چلے جائیں گے (قہقہہ لگاتے ہوئے)۔

پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بچوں کو بہت سی غلط چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو ڈے ڈریمنگ(Day Dreaming) کے بارے میں نہیں سکھایا جاتا۔دنیابھر میں سکولوں کی اکثریت میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ دن میں خواب نہ دیکھیں۔

دنیا بھر میں اگر کوئی دن میں خواب دیکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ سبق پر دھیان نہیں دے رہا۔اگر یہ بچہ دن میں خواب دیکھتا رہا تو اسے سکول سے نکال دیا جائے گا۔ یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے کیوں کہ دنیا میں جو کچھ بھی تخلیق ہوا ہے تووہ اسی ڈے ڈریمنگ کا حاصل ہے۔پاکستان کی ایک قوم کے طور پر تشکیل بھی اسی وجہ سے عمل میں آئی۔ اقبالؒ کی شاعری بھی ڈے ڈریمنگ کا نتیجہ ہے۔تاج محل بھی ایک ڈے ڈریم تھا۔ چین کی گریٹ وال بھی تو اسی وجہ سے بن سکی۔(جاری ہے)

About The Author