نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فخریہ پیشکش!۔۔۔عاصمہ شیرازی

ہم جیسے جمہوریت پسند تبدیلی کے ہمیشہ سے خواہشمند رہے مگر حادثوں کے نہیں۔ نظام میں تبدیلی عوام کی خواہش کے مطابق آنی چاہئیے

عام طور پر فلم یا ڈرامے کی کامیابی کے لیے پروڈیوسر، ڈائریکٹر ہزار ہا جتن کرتے ہیں۔ کئی فلمیں باکس آفس پہ آنے سے پہلے ہٹ ہو جاتی ہیں اور کئی اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ ایسی فلموں کے اشتہار لگانے سے پہلے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اپنی فخریہ پیشکش پر دل کھول کر پیسہ لگاتے ہیں، بڑے بڑے بل بورڈز سجاتے ہیں اور فلم کی کامیابی کے لئے ہر طریقہ آزماتے۔

اب چونکہ نیا زمانہ ہے لہٰذا فلم کی کامیابی کے لئے سوشل میڈیا کا سہٍٍٍٍٍارا لیا جاتا ہے۔ کوئی ایک آدھی درخواست بھی دائر ہو جاتی ہے۔ بہر کیف اب کی بار بھی لائی گئی تبدیلی کے لئے بے تحاشا جتن ہوئے۔ دھرنے، تحریکیں، لاک ڈاؤن، عدالتوں کے دروازے۔۔۔ غرض ہر طریقہ استعمال ہوا۔ میڈیا نے بھی شانہ بشانہ خوب کردار ادا کیا۔ گلے سڑے نظام سے چھٹکارا سب کی خواہش تھی اسی لئے تبدیلی کے خواب کی تعبیر کے لئے حصہ بقدر جثہ سب نے ڈالا۔

ہم جیسے جمہوریت پسند تبدیلی کے ہمیشہ سے خواہشمند رہے مگر حادثوں کے نہیں۔ نظام میں تبدیلی عوام کی خواہش کے مطابق آنی چاہئیے۔ منتخب حکومتیں عوام کے بل بوتے پر آئیں اور اپنی کارکردگی دکھائیں، عوام چاہئیں تو انہیں ووٹ کی طاقت سے ختم کر دیں۔۔۔ مگر بند کمروں میں کئے گئے فیصلے جمہور کے مطابق کیسے ہو سکتے ہیں۔

یقیناً تبدیلی کے خواہاں بھی تبدیلی کے اس روپ سے خوش نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کمپیوٹر سسٹم کی طرح کنٹرول آلٹ ڈیلیٹ کے آپشن کا استعمال کریں، لیکن کیا سب کچھ ان ڈو ہو سکتا ہے؟

بدنصیبی دیکھئے کہ 70 سالوں میں 40 سال آمریت کی نذر ہوئے باقی سالوں میں آنے والی لنگڑی لولی جمہوریتوں نے عوام کو جو دیا اُس پر بھی سوال ہے۔ ہم جبر کے جس نظام میں رہے ہیں وہاں سیاست دانوں سے تو سوال کر سکتے ہیں لیکن چالیس برس تک ملک کے سیاہ و سفید پر حکم چلانے والوں سے سوال کی جرات نہیں کر سکے۔ صرف یہی نہیں جمہوری ادوار میں بھی جس قدر اختیار ملا اس پر سوال کرنے والے یا تو غدار ٹھہرے یا معتوب ہوئے۔

اب شاید کسی نئے سیٹ آپ کی بات ہو رہی ہے، قومی حکومت یا اُس سے ملتا جُلتا۔۔۔ جمہوری سوچ رکھنے والی سیاسی شخصیات کو چور چور کہہ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے، آزاد سوچ رکھنے والے صحافیوں کی کردار کشی کی جا تی ہے، اس قدر دھول اُڑا دی گئی ہے کہ کوئی چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا۔

اداروں کی جس قدر بے توقیری ہو رہی ہے کیا کوئی بھی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہو گا؟ ایسے میں منتوں، مرادوں سے لائی گئی حکومت سے بھی اظہار لا تعلقی کیا گیا تو حالات ریاست کو کہاں کھڑا کریں گے۔ ایک کمزرور اور نازک ریاست معاشی، سیاسی اور سماجی سطح پر تقسیم ہے اور مزید تقسیم مزید نقصان دہ۔

جناب! فخریہ پیشکش اگر کامیاب نہیں ہو پا رہی اور آپ کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی تو پہلے سوچا ہوتا کہ کرداروں میں جان ہے بھی یا نہیں؟ پرانے چہروں کے ساتھ نئی فلم اور پرانے کرداروں کے ساتھ نئی کہانی کا انجام ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔

ہمیشہ استعمال ہونے والے سیاست دان اب بھی ذرا بچ کر چلیں کہیں پھر استعمال ہو گئے تو عوام اس جمہوری فلم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈبے میں ہی بند نہ کر دیں۔

About The Author