احفاظ صاحب غصے کے تیز تھے۔ گلا پھاڑ کے ڈانٹتے تو سامنے والے کا بھی کچھ نہ کچھ پھٹ جاتا تھا۔ مالکان اسی لیے ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔
مجھے سینئرز سے ڈانٹ سننے کا شوق تھا۔ ڈانٹ میں سبق چھپا ہوتا ہے۔ اچھے سینئر بھی ملے جو غلطی پر ڈانٹتے تھے۔ اور ایسے فنکار بھی دیکھے جو خواہ مخواہ ڈانٹنے کا بہانہ ڈھونڈتے تھے۔ یہ بات کم لوگوں کو سمجھ آتی ہے کہ غلطی پر سمجھانے والے کا قد بڑا ہوجاتا ہے۔ بہانے والے کا قد گھٹ جاتا ہے۔
احفاظ صاحب سے اپنے کام پر ڈانٹ سننے کی حسرت رہی۔ وہ غصے والے تھے لیکن تعریف میں بخل نہیں کرتے تھے۔ جب میں نے 2001 میں جنگ جوائن کیا تو وہ اس وقت میگزین ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے مجھے فون کرکے بلایا اور سنڈے میگزین میں لکھنے کو کہا۔ پھر دو سال تک میرے مضمون تقریباً ہر ہفتے چھپتے رہے۔ وہ تعریف کرتے اور مضامین کے لیے آئیڈیے بھی دیتے۔
جنگ میں آنے سے پہلے میں نے احفاظ صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن ملاقات صرف ایک ہوئی تھی۔ تب میں ایکسپریس میں کام کرتا تھا۔ اس وقت تک پریس کلب کا رکن نہیں بنا تھا۔ شاید کسی دوست سے ملنے کلب گیا اور وہاں احفاظ صاحب سے تعارف ہوا۔
میں پریس کلب سے نکل تھا تو احفاظ صاحب دروازے پر کھڑے ملے۔ میرے پاس ہونڈا سیونٹی تھی۔ ان سے پوچھا، کہاں جائیں گے؟ انھوں نے کہا، گھر۔ صحافی کالونی۔ میں نے کہا کہ میں انچولی میں رہتا ہوں۔ آپ کو گھر چھوڑ سکتا ہوں۔
راستے میں احفاظ صاحب نے بہت سی باتیں کیں۔ مالکان کے بارے میں۔ صحافیوں کے بارے میں۔ دوستوں کے بارے میں۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اندر باہر سے ایک جیسے آدمی ہیں۔ جو دل میں ہوتا ہے، وہی زبان پر آجاتا ہے۔
مجھے جنگ میں لندن ڈیسک پر کام کرتے ایک سال ہوا تھا کہ ایکسپریس نے واپس بلایا۔ جنگ نے مجھے روکنے کے لیے تنخواہ بڑھادی لیکن اسپورٹس صفحے کی اضافی ذمے داری دے دی۔ یہ صفحہ میگزین کا تھا اور پیر کو شائع ہوتا تھا۔
میں لندن ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے نہ صرف پورے صفحے کا مواد لکھ دیتا بلکہ لے آؤٹ بھی بنادیتا تھا۔ بعض اوقات پیج میکر کو کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ پیج کا پرنٹ نکلوا کر احفاظ صاحب کو دکھاتا اور وہ ایک نظر ڈال لیتے۔ انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ کہاں غائب رہتے ہو؟ روزانہ نظر کیوں نہیں آتے؟ میگزین کے دفتر میں کیوں نہیں بیٹھتے؟ انھیں بس کام سے غرض تھی۔
مجھے مڈویک میگزین کے لیے مہینے میں ایک طویل انٹرویو کرنا پڑتا تھا۔ سینئر فوٹوگرافر افتخار احمد میگزین کے لیے کام کرتے تھے۔ میں نے ان کو بہت کم زحمت دی۔ لیکن کبھی ساتھ چلنے کو کہتا تو انھیں کوئی اور کام یاد آجاتا۔
ایک بار میں اولمپین سہیل عباس کا انٹرویو کرنے ان کے گھر گیا۔ افتخار صاحب سے درخواست کی تھی لیکن وہ نہ پہنچے۔ اگلے دن میں نے احفاظ صاحب سے افتخار احمد شکایت کی۔ اس دن پہلی اور آخری بار احفاظ صاحب مجھ پر گرجے۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ انھوں نے کہا، افتخار ہمارا یونین کا ساتھی ہے۔ مزدور کارکن ہے۔ آپ نے کیسے اس کی شکایت کی؟
میں نے مشکل سے ان کا غصہ ٹھنڈا کیا اور معذرت کی۔ پھر وہ میگزین کے فوٹوز کا فولڈر کھول کر بیٹھ گئے اور مجھے سہیل عباس کی دو تین تصویریں انٹرویو کے ساتھ لگانے کو دیں۔
احفاظ صاحب اس زمانے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے۔ تب آج کی طرح چار چار پی ایف یو جے نہیں ہوتی تھیں۔ احفاظ صاحب کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال تھی کہ صحافیوں میں پھوٹ ڈالتا۔
ان دنوں مالکان نے حسب معمول ویج ایوارڈ پر عمل کرنے اور صحافیوں کی تنخواہیں بڑھانے سے انکار کیا تو احفاظ صاحب نے ایک پوسٹر لکھا۔ اس میں ایک میڈیا مالک کا خیالی انٹرویو پیش کیا۔ جب بھی مالک سے سوال کیا جاتا، جواب غرڑ غرڑ غائیں غائیں قسم کا ہوتا۔ وہ انٹرویو ایک شاہکار تحریر ہے۔ نہ حالات بدلیں گے، نہ وہ تحریر پرانی ہوگی۔
احفاظ صاحب چین میں 16 سال رہے اور فارن لینگویجز سروس کے علاوہ غالباً بیجنگ یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے۔ واپس آکر انھوں نے چینی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ مجھے اس کتاب کا ایک پرانا نسخہ ملا تو ان سے دستخط کروالیے۔ احفاظ صاحب شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کی انقلابی قسم کی نظموں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام اور صحافیوں کی جدوجہد پر مبنی کتاب سب سے بڑی جنگ بھی میری لائبریری میں ہیں۔ سب سے بڑی جنگ کی تصنیف میں ہمارے دوست اقبال خورشید ان کے معاون تھے۔
جنگ کے بعد احفاظ صاحب نے ایکسپریس جوائن کرلیا تھا۔ ایک عرصے تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر اردو کانفرنس کے دوران آرٹس کونسل میں ملے تو انھیں دیکھ کر دھچکا لگا۔ وہ بیمار تھے اور کافی کمزور ہوگئے تھے۔ ان کی گرج دار آواز، جس سے وہ مالکوں کو ڈانٹ دیتے تھے، ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔
احفاظ صاحب زندگی بھر صحافیوں کی یونینز میں سرگرم رہے۔ میں نے کبھی یونین بازی میں دلچسپی نہیں لی۔ زندگی میں صرف ایک مظاہرے میں شرکت کی اور اس لیے کہ احفاظ صاحب نے کہا تھا۔
پریس کلب سے صحافی خالی پلیٹیں چمچے بجاتے ہوئے نکلے اور سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے ڈان کے دفتر کے سامنے لگے کیمپ میں دھرنا دیا۔ میرے پاس اس وقت کی ایک تصویر ہے۔ اس میں احفاظ صاحب بیٹھے ہیں۔ امین یوسف موجود ہیں۔ سراج احمد نظر آرہے ہیں۔ میں نصیر بھائی کے قریب بیٹھا ہوں۔
مالکان کے پاس تب بھی کھانے کو بہت تھا، اب بھی بہت ہے۔ بیشتر صحافیوں کی پلیٹیں تب بھی خالی تھیں اور آج بھی خالی ہیں۔ فرق لیکن یہ ہے کہ جب تک احفاظ صاحب گرج سکتے تھے، صحافی بلند آواز میں حقوق مانگتے تھے۔ ان کی آواز کھوئی تو صحافی بھی بے آواز ہوگئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور