نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا کرونا کو F16 سے نہیں مارا جا سکتا؟۔۔سید علی نقوی

ایک اندازے کے مطابق 2017 میں دنیا کے دس بڑے طاقتور ملکوں نے 3615 بلین ڈالرز ڈیفنس جبکہ صرف 879 بلین ڈالرز صحت کے شعبے پر خرچ کیے۔

آج صبح سے پاکستانی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج اشتعال انگیزی کر رہی ہے ، اور پاکستانی آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، انڈین میڈیا پر اس سے متعلق کوئی خبر میں تلاش کے باوجود نہیں ڈھونڈ سکا، ان دنوں جبکہ دنیا کے تقریباً ایک سو نوے ملک کرونا وائرس کی وجہ سے جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن ہیں ،اُس وقت ہم دو ملک اپنے بارڈرز پر یا اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں یا منہ توڑ اور دندان شکن جواب دینے میں، یہ سب دیکھ اور سن کر دل کرتا ہے کہ انسان یہی دعا کرے کہ اس ذہنیت کے لوگ اگر کرونا  سے نہیں تو کسی بھی طرح نیست و نابود ضرور ہو جائیں۔

آئیے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں، پاکستان کا ڈیفنس بجٹ پاکستان کے GDP کا   16 فیصد  ہے ،یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو آپ کو گوگل کرنے پر حاصل ہوتے ہیں اور اگر آپ اسی گوگل سے پاکستان کا ہیلتھ بجٹ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو وہ آپ کو بتاتا ہے کہ پاکستان کا ہیلتھ بجٹ پاکستان کے GDP کا 2.6 فیصد ہے، جبکہ انڈیا کا ڈیفنس بجٹ ان کے کُل GDP کا 15.5 فیصد اور ہیلتھ بجٹ 3.89 فیصد ہے، میں چونکہ خود اکنامکس سے نا بلد ہوں اس لیے موٹی موٹی بات کروں گا ،کہ عام آدمی تک بات پہنچ جائے۔۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ فرض کریں کہ اگر پاکستان کے پاس پورے سال میں خرچ کرنے کو سو روپے ہوں تو پاکستان ان سو روپوں میں سے سولہ روپے فوج پر اور جنگی ساز و سامان کی خریداری پر خرچ کرتا ہے جبکہ تقریباً اڑھائی روپے ہسپتالوں اور دیگر صحت سے متعلق معاملات پر خرچ کرتا ہے اسی طرح انڈیا سو روپے میں سے ساڑھے پندرہ روپے دفاع پر اور تقریباً چار روپے سے کچھ کم صحت پر خرچ کرتا ہے۔

اگر ہم امریکہ بہادر کی بات کریں تو انکا ڈیفنس بجٹ 54 فیصد اور ہیلتھ کا بجٹ 18 فیصد ہے اگر سعودی عرب کی بات کریں تو وہ اپنے ہیلتھ کئیر پر 14.98 جبکہ ڈیفنس پر 33.57 فیصد پیسے سالانہ خرچ کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 2017 میں دنیا کے دس بڑے طاقتور ملکوں نے 3615 بلین ڈالرز ڈیفنس جبکہ صرف 879 بلین ڈالرز صحت کے شعبے پر خرچ کیے۔

آئیے اب یہ ساری بڑی بڑی باتیں ایک طرف رکھ کر ہم ایک عام گھر کی بات کرتے ہیں، اگر آپ کے گھر میں ایک بوڑھی والدہ ہوں، ایک بیمار بہن ہو اور چند چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو آپ کو سب سے زیادہ فکر کس بات کی ہونی چاہیے ،انکی خوراک اور رہائش کی، ان کی صحت و تعلیم کی یا ان کی سکیورٹی کی؟ ان تمام میں سے ایک بھی چیز ایسی نہیں کہ جس کو نظر انداز کیا جا سکے لیکن اگر معاشی حالات بُرے ہوں، وسائل محدود ہوں تو سب سے اہم مسئلہ افراد خانہ کو رہائش اور خوراک کی فراہمی اور اسکے بعد ان کی دوا دارو ہوتا ہے، سکیورٹی تو شاید غریب کا مسئلہ ہوتی ہی نہیں ہے، ظاہر ہے گداگر کی جھونپڑی میں کس نے ڈاکہ ڈالنا ہے۔ اگر میں آپکو ایک ایسے گھر کے سربراہ کا قصہ سناؤں کہ جس کے گھر کے بجلی اور گیس کے میٹر عدم ادائیگیوں کی وجہ سے اُتر چکے ہوں، ماں دوا نہ ہونے کی وجہ سے درد سے بلبلا رہی ہو، قرض واپس مانگنے والوں نے دروازے بجا بجا کر توڑ دئیے ہوں، وہ جہاں جاتا ہو تو لوگ اس سے یہ سوچ کر کتراتے ہوں کہ کہیں پیسے نہ مانگ لے، ہمسائے اور دوست اس کی اسی شہرت کے باعث اس کے فون نہ اٹھاتے ہوں، بچوں کے نام سکول سے فیس نہ دینے کی وجہ سے کٹ چکے ہوں، گھر کا ہر فرد خوراک کی کمی کے باعث پژمردگی کا شکار ہو اور اس گھر کا سربراہ گھر میں موجود انتہائی محدود پیسوں سے کلاشنکوف اور مشین گن خرید لائے کیونکہ بچوں کی سکیورٹی اہم ہے تو جو آپکی رائے اُس سربراہ گھرانہ کے بارے میں ہوگی وہی رائے میری ان تمام حکمرانوں اور فوجی سربراہان کے بارے میں ہے جو اس وقت ہماری گردن پر مسلط ہیں۔

مشہور زمانہ جنگی طیارے F16 کی قیمت 12  ملین ڈالرز سے شروع ہوتی ہے اور 35   ملین ڈالرز تک جاتی ہے اس وقت پاکستان کے پاس  32 F16 جہاز ہیں اگر ہم ایک اوسطاً قیمت 18 ملین ڈالر بھی مان لیں (جو کہ بہت کم ہے) تو بھی یہ رقم کم و بیش سو ارب روپے کے قریب جا بنتی ہے۔ اس وقت اگر آپ گوگل پر وینٹی لیٹر کی قیمت معلوم کرنے کی کوشش کریں تو اس وقت ایک وینٹی لیٹر تقریباً تیرہ ہزار ڈالر کا مل رہا ہے اور یہ قیمت اس وقت دنیا میں وینٹی لیٹر کی بے پناہ ڈیمانڈ کی وجہ  سے تقریباً دو سے تین ہزار ڈالر تک بڑھی ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے ہینڈ سم ترین وزیراعظم سے کئی بار سنا ہے کہ ایک شوکت خانم جیسا ہسپتال پانچ سے سات ارب روپے میں بن جاتا ہے، یعنی کل ملا کر بات یہ ہے کہ ہم نے آج تک جو پیسے صرف ایک جنگی ہتھیار F 16 خریدنے پر خرچ کیے اگر اتنے ہی پیسے ہیلتھ سیکٹر پر بھی خرچ کیے ہوتے تو آج ملک میں شوکت خانم ہسپتال جیسے اگر بیس نہیں تو چودہ ہسپتال یقیناً ہوتے اور ابھی یہ صرف ایک ہتھیار کی ایک محتاط ترین قیمت آپ کے سامنے رکھی گئی ہے اس میں ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ 71 F16 وہ ہیں کہ جن کا ہم نے بہت پرانا آرڈر دے رکھا ہے اور امریکہ ہمیں وہ F16 باوجوہ نہیں دے رہا اور یہ بات پاکستان اور امریکہ کے مابین 90s سے ایک متنازعہ معاملہ ہے کہ جس پر ہم اندر ہی اندر ناراض بھی رہتے ہیں۔

یہ ایک ہتھیار ہے ابھی اگر آپ میزائیلوں پر خرچ ہونے والی رقوم، (JF 17) تھنڈر کہ جس کی ٹیکنالوجی ہم نے چائنہ سے حاصل کی کو بھی اس حساب میں شامل کریں تو ہوشربا اعداد ہمارے سامنے آئیں گے کہ جن کو لکھنا شاید بے وقوفی ہوگی۔

ایٹم بم کہ جو ہمارا فخر ہے کے بارے میں ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ جب بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا ارادہ کیا تو انکا نعرہ تھا کہ
” گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے”
یہ نعرہ ہی یہ بتا رہا ہے کہ اگر پاکستان جیسے ملک کو ایٹم بم بنانا ہے تو فاقہ کشی لازمی ہے۔۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ یہ صرف ہمارا حال نہیں بلکہ پوری دنیا اسی پاگل پن کا شکار ہے۔

میں تو اس میں اور چیزوں کو بھی شامل کرتا ہوں مثلاً
Space Sciences
کیا خبط ہے انسان کو کہ وہ خلاؤں کو مسخر کرے، وہ کونسی سے افتاد ہے کہ جو آپ کو زمین پر ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتی، آپ نے آج سے پچاس سال پہلے جھوٹا یا سچا چاند کا سفر کیا جس پر اس وقت اربوں کھربوں ڈالر آپ نے خرچ کیے ،ایسا کیا حاصل کیا کہ جس سے ایک عام انسان کی زندگی بہتر ہوئی؟؟ اگر اس ساری سرمایہ کاری (جو کہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر کی گئی) کا ثمر ایک عام آدمی کے لیے صرف اتنا ہے کہ میں اپنے فون سے یورپ اور امریکہ میں بیٹھے دوستوں کو دیکھ اور سن سکتا ہوں یا آنے والے دنوں کے موسم کا حال معلوم کر سکتا ہوں تو مجھے اس انسانی ترقی پر شدید تحفظات ہیں، میں آج یہاں بیٹھ کر انتہائی سطحی، ناقص اور اسلامی سائنس پڑھ کر بھی یہ جانتا ہوں کہ مریخ رہنے کے قابل نہیں ہے تو کیا خارش ہے انسان کو کہ ٹریلینز آف ڈالرز لگا کر وہاں جائے جبکہ اعلان یہ ہے کہ واپسی نہیں ہوگی جو جائیں گے وہ واپس نہیں آ پائیں گے۔ ارے بھائی یہاں اس زمین پر جہاں آپ معلوم دس ہزار سال سے آباد ہیں وہاں آپکی یہ حالت ہے کہ اس سائنسی دور میں آپ سے ایک بگڑا ہوا فلو نہیں سنبھالا جاتا اور اس نے پوری دنیا بند کر کے گھر بٹھا دی ہے، کیا آپ نے کبھی اجتماعی حیثیت میں یہ سوچا بھی تھا کہ آپ اس دور میں ایک فلو کے سامنے اتنے بے بس دکھائی دیں گے؟ دنیا کا بڑے سے بڑا میزائل اس چار یا پانچ سو نینو میڑ کے وائرس کے آگے بے بس ہی نہیں بلکہ کمتر ترین ہے، اگر دنیا کے تمام فوجی لیس ہوکر بھی آ جائیں توبھی ایک کرونا سے متاثرہ شخص انکی نابودی کے لیے کافی ہے۔

میری رائے میں انسان ہی اس زمین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور خطرہ ہے جتنا نقصان اس ایک انسان نامی مخلوق نے اس سیارے کو پہنچایا ہے اگر باقی تمام مخلوقات جمع بھی ہوجائیں تب بھی وہ اس کا ایک فیصد نقصان اس سیارے کو نہیں پہنچا سکتیں، میں اپنی اس بات کی دلیل میں کتنی ہی ایسی باتیں گنوا سکتا ہوں جو شاید ہمارے لیے عام سی ہوں۔ کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس اکیلے انسان نے یہاں بیٹھ کر اوزون کی تہہ کو شگافتہ کر دیا ہے ، اس نے زمین میں ہزاروں فٹ اور سینکڑوں میٹر ڈرل کیے ہیں، اس نے پہاڑوں کو ڈائنامائٹ لگا کر ریزہ ریزہ کیا، اس نے آلودگی میں وہ اضافہ کیا کہ آج بحر الکاہل میں امریکی شہر ٹیکساس کے رقبے جتنی ایک انسانی فضلے کی دبیز تہہ بن چکی جو سمندری مخلوق کے لیے کسی کرونے سے کم نہیں، جس دن سے پلاسٹک نامی چیز اس انسان نے ایجاد کی اس دن سے لیکر آج تک آلودگی چالیس ہزار گنا  بڑھ چکی اور پلاسٹک سوائے انسان کے کسی اور مخلوق کے کام میں نہیں آتا ۔

ہر روز بحر اوقیانوس( Atlantic Ocean ) میں چار ہزار میٹرک ٹن فضلہ صرف برازیل ڈالتا ہے جس کی وجہ سے انٹار ٹکا کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، صرف انسانی زبان کا چسکا پورا کرنے کو جس تیزی سے جانوروں کی نسل کشی کی جا رہی ہے وہ مجرمانہ فعل ہے، صرف فرانس میں ایک دن میں چھ سو نئی کھانے کی ڈشز ایجاد ہوتی ہیں نجانے وہ کون سی  بھوک ہے جو ہر روز چھ سو نئی تراکیب کا تقاضا کرتی ہے، یہ بھوک نہیں انسانی زبان کا وہ چسکا اور چٹورا پن ہے جو اس کو ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ مکروہ چہرہ ہے کہ جس کو پلاسٹک سرجری کے بعد ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے، مرغ (چکن) پوری دنیا کے انسانوں کو مرغوب ہے ناپید ہوجاتا  ہے،اسی لیے اس نے اس کو لیبارٹری میں بنا لیا، لیکن پانڈہ نہیں بنایا، آسٹریلین گائے لیبارٹری میں بنائی وجہ دودھ کا حصول تھا لیکن ایسا کوئی جانور یا پرندہ لیبارٹری میں نہیں بنایا کہ جس سے انسان کو فائدہ نہ ہوتا ہو، کیا آپ میں سے کوئی دوست یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کی لگائی ہوئی فیکٹریوں میں ایسا کتنا مال بنایا جاتا ہے جو دوسری مخلوقات کے فائدے کے لیے ہو؟؟

ہم اس سیارے پر استعمار ہیں ہم سے پہلے بھی یہاں جانور آباد تھے سائنس کہتی ہے کہ سیارے کی موجودہ عمر چار ارب سال ہے اور ابھی مزید اتنی ہی دیر یہ زندہ رہے گا لیکن آپ ذرا غور کریں کہ انسان آیا اور اس نے صرف دس ہزار سال میں اس زمین کا وہ حال کیا ہے کہ اب سائنس یہ کہتی ہے کہ سن 3000 انسان نہیں دیکھ پائے گا ۔ٹیسلا کمپنی کے مالک Elon Reeve Musk کے مطابق اگر انسان کے انرجی کے ذخائر کا استعمال دماغ سے نہ کیا اور اسی رفتار سے سیارے کی بربادی جاری رہی، آلودگی اور دوسرے معاملات کا اگر سنجیدگی سے تدارک نہ کیا گیا تو سیارہ تو رہے گا لیکن سن 2779 تک یہاں انسانی زندگی ممکن نہ رہے گی اب اس بات میں کتنی سچائی ہے اس کا جواب Elon Musk ہی دے سکتے ہیں لیکن اگر ہم صرف پچھلے دس بارہ سالوں پر نظر ڈالیں تو بے تکے درجہ حرارت یعنی بے موسمی گرمی و سردی اور انکی نہ سمجھ میں آنے والی شدت اور کمی کے علاوہ سموگ سے لیکر لاہور جیسے میدانی علاقوں کی برف باری اور ڈینگی سے لیکر آج کے کرونے تک کیا سب کچھ ہماری آنکھیں کھولنے کو کافی نہیں ہے؟

انسان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس زمین پر شراکت دار ہے نہ کہ اس کا واحد مالک جو اس نے خود کو سمجھ لیا ہے اگر انسان خود کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے تو اس کو اس شرف کی ذمہ داری کا احساس اور باقی ہمسایہ مخلوقات کا احترام بھی کرنا چاہیے کیونکہ جنہوں نے اس کو بتایا کہ وہ مخلوقات میں اشرف ہے تو انہوں نے اس کو پودوں اور جانوروں کے حقوق کی بھی شدید تنبیہ کی ہے، ہر مقدس صحیفہ انسان کو یہی سمجھاتا رہا کہ جانوروں اور پودوں کے بھی حقوق ہیں ۔اس سیارے پر جس پر تم عیاشی سے رہتے ہو اسکے بھی حقوق ہیں لیکن انسان نے یہ تو فوراً مان لیا کہ وہ اشرف المخلوقات ہے لیکن نہ دوسری مخلوقات کے حقوق مانے نہ اپنے فرائض ادا کیے۔

آپ کے اشرف المخلوقات ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس درخت کی شادابی سے کیا جائے گا جو آپکی رہائش کے ارد گرد لگا ہوا ہے، آپکو اشرف ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ اس جانور کی صحت دے گی جو آپکے ماحول میں سانس لے رہا ہے نہ کہ وہ انسان جو آپ سے تعلق رکھتا ہو یا فائدہ حاصل کرتا ہو، ایک چینی کہاوت ہے کہ شکاری تب تک جیتتا رہے گا جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھ لیتا۔


جمیں کرونا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے چند دن کے لیے ہی سہی زمین کو سانس لینے کی مہلت اس اشرف المخلوقات سے دلا دی، اس کا شکریہ کہ اس نے امیروں کو یہ بتایا کہ کسمپرسی اور لاچارگی کا مزہ کیسا ہوتا ہے، کرونا کی مہربانی کہ وہ  جو کبھی دس دن میں افغانستان کو  برباد کرنے کی باتیں کرتے تھے انہیں یہ بتایا کہ پہلے اپنا ملک تو سنبھال لو، دنیا کے تمام لشکریوں کو انکی اوقات دکھائی، اگر کرونا ختم ہوگیا تو یہ ڈاکٹروں کی اور دوا ایجاد کرنے والوں کی جیت ہوگی کاش یہ جیت دنیا پر یہ واضح کردے کہ بشریت کی بقا اہل علم کے ہاتھ میں ہے کیونکہ ڈاکٹر ہو یا فارماسسٹ ہے عالم، کاش دنیا اس المیے سے نکلنے کے بعد اپنی باگ دوڑ اہل علم کے ہاتھوں میں دے نہ کہ اہل لشکر کے، کاش کرونا دنیا کو سکھا جائے کہ آپ جو بھی ہیں جتنے بھی عظیم لشکر کے سپہ سالار ہیں، ایک وائرس آپکی تمام عظمت کو دھڑام سے گرانے کے لیے کافی ہے۔

میری رائے میں تو کرونا اس سیارے کے لیے وہ مہربان مہمان ہے کہ جس کی موجودگی میں ماں باپ بچے کی پٹائی نہیں کرتے لیکن اندر ہی اندر بچہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا ہوتا ہے کہ اس مہمان کے جاتے ہی ماں باپ مجھے پھر سے پیٹ ڈالیں گے۔

About The Author