آٹا چینی سکینڈل پر ایف آئی اے کی حالیہ رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اگلے روز وفاقی کابینہ میں ہوئی تبدیلیوں پر بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے آپ کو یہ بتادوں کہ وفاقی وزیر خسروبختیار نے فوڈ سیکورٹی کی وزارت سے استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوا دیا تھا۔
جس وقت ان کا استعفیٰ وزیراعظم کو موصول ہوا وہ اپنے رفقا سے صلاح مشورے میں مصروف تھے۔
خسروبختیار کا استعفیٰ زیربحث آیا تو وزیراعظم کے رفقا کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ ان (خسروبختیار) کا استعفیٰ منظور نہ کیا جائے کیونکہ اس صورت میں تحریک انصاف میں موجود جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ناراض ہوں گے اور ثانیاً ق لیگ کی بلیک میلنگ بڑھ جائے گی۔
(یاد رہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ2018 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل تشکیل پایا تھا پھر ایک معاہدے کے تحت یہ تحریک انصاف میں مدغم ہوگیا)
رفقا کے اس مشورے کے بعد وزیراعظم نے خسروبختیار کو فون کیا، ذرائع کے مطابق پندرہ سے بیس منٹ دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی اور وزیراعظم نے انہیں صرف وزارت کی تبدیلی پر آمادہ کرلیا،
سادہ لفظوں میں یہ کہ ان کی ترقی کر دی گئی۔
ادھر پنجاب میں صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے دفتر طلب کیا اور ان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ چودھری کہتے ہیں کہ استعفیٰ میں نے خود دیا لیکن جو لوگ ان کی ذات، سیاسی اُٹھان اور دیگر معاملات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ سمیع اللہ چودھری وزارت کی کرسی کو دونوں ہاتھوں کی مضبوطی سے پکڑنے کے علاوہ گاہے کرسی کے پایوں میں پیر بھی پھنسا لیتے ہیں کہ کہیں کرسی ”نکل“ نہ جائے۔
پنجاب میں ہی سابق سیکرٹری خوراک نسیم صادق سمیت چند افسران او ایس ڈی بنا دیئے گئے۔
وفاقی کابینہ میں سید فخرامام فوڈ سیکورٹی اور اعظم سواتی نے انسداد منشیات کے محکمے سنبھالے، بابر اعوان مشیر پارلیمانی امور ہوئے۔ ارباب شہزاد برطرف کر دیئے گئے۔ عبدالرزاق راؤ سے پانچ محکموں کی مشاورت تین تک محدود کردی گئی۔
وزیراعظم ہاؤس کے زبردستی کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل اور جہانگیر ترین کے درمیان سوشل میڈیا پر خوب جنگ ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی سکینڈل کے دو بڑے ذمہ داروں عثمان بزدار اور پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی یہاں بھی اصل میں وہی خطرہ ہے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والا۔
جہانگیر ترین نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو اپنے خلاف سازش کا مرتکب قرار دیا۔ بعض حلقے صورتحال کو بنی گالہ گروپ اور جہانگیر ترین گروپ کے درمیان جھگڑے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ بنی گالہ گروپ ہے کیا، بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، فواد چودھری، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، اعظم سواتی، فیصل واڈا اور علی زیدی پر مشتمل گروپ ہے۔
اس کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟
سادہ سا جواب ہے کہ یہ وہ سارے لوگ ہیں جو حکومت پارٹی کے اندر اور عمران خان کی ذات پر جہانگیر ترین کے اثر ورسوخ سے خائف تھے اور ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت بنوانے میں ترین کا کردار بہت اہم ہے، آزاد ارکان کو وہی اپنے جہاز میں بھر کر بنی گالہ پہنچاتے رہے۔
مروجہ سیاست کے مطابق وہ 2011 سے انوسٹمنٹ میں مصروف ہیں، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل بھی رہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے نااہل ہونے کے باوجود ان کی سیاسی اہمیت کم نہیں ہوئی، عمران خان نے پچھلے سال انہیں زراعت کیلئے قائم ٹاسک فورس کا سربراہ بھی بنایا، نوٹیفکیشن اسلئے جاری نہ ہوسکا کہ عدالتی فیصلہ مانع تھا۔
اس ٹاسک فورس کے تین اجلاس ہوئے، انہوں نے متعدد مرتبہ زراعت کے حوالے سے وفاقی وزراء کے درمیان بیٹھ کر میڈیا کو بریفنگ بھی دی، سوموار کی شام وزیراعظم ہاؤس کے خود ساختہ ترجمان نے جب انہیں ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹانے کا اعلان سوشل میڈیا پر کیا تو جہانگیر ترین نے نہ صرف سخت الفاظ میں جواب دیا بلکہ کہا وہ نوٹیفکیشن سامنے لائیں،
اگلے چند گھنٹوں میں
طرفین کی تو پوں نے خوب گولہ باری کی۔
سو موار کی سپہر کے بعد بننے والی صورتحال کے پیش نظر خوش فہمیاں بھی پرواز کر رہی ہیں لیکن ابھی ایسی صورتحال نہیں بنی کہ حکومت کے جانے کے آثار دکھائی دینے لگیں
البتہ یہ سچ ہے کہ اس آٹا چینی سکینڈل سے عمران خان، ان کی جماعت کی سیاست اور حکوت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
وفاقی کابینہ میں رد وبدل سے سیاست اور حکومت کی ساکھ بہتر نہیں ہوگی۔ لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب وفاقی کابینہ نے چینی پر سبسڈی دینے سے منع کر دیا تھا تو پنجاب حکومت نے 13ارب روپے کی سبسڈی کیوں دی؟
صورتحال پر قابل غور تبصرہ خود جہانگیر ترین کا ہے ایک بات تو وہی ہے جو بالائی سطور میں عرض کردی، دوسری یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ
”اب عمران خان سے ماضی والے مراسم نہیں رہے“۔
بعض واقفان حال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ خسروبختیار کا استعفیٰ منظور کرلیا جاتا تو ان کے برادر فواد ہاشم جواں بخت بھی پنجاب کی وزارت خزانہ سے مستعفی ہو جاتے، اس طور تحریک انصاف کی حکومت مرکز اور پنجاب میں بحران سے دو چار ہوجاتی،
اس بحران کا راستہ روکنے کیلئے عمران خان نے اپنے مزاج کے برعکس مخدوم خسرو بختیار سے بات کر کے انہیں وزارت کی تبدیلی پر آمادہ کرلیا۔
لیکن بحران مکمل طور پر ٹلا ہرگز نہیں۔
پچھلی شب جہانگیر ترین نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے انصافی ارکان اسمبلی سے رابطے کئے ایک دو دن میں اگر عمران خان اپنے مربی اور دوست ترین کو منانے میں ناکام رہے تو معاملات بگڑ بھی سکتے ہیں۔
کیا عمران خان، پرنسپل سیکرٹری، مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل کی قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں گے؟
فی الوقت ایسا ممکن نہیں البتہ یہ اطلاع ہے کہ گزشتہ شب وزیراعظم نے ایک مشترکہ دوست اسحق خاکوانی سے رابطہ کیا اور ان سے جہانگیر ترین کے معاملے میں مشورہ بھی۔
اس سارے ہاؤہو کے بیچوں بیچ اہم ترین سوال یہ ہے کہ آٹا اور چینی بحران کے حوالے سے مال بنانے والی جن شخصیات کی نشاندہی ہوئی ہے ان کیخلاف کوئی کارروائی ہوگی؟
وزیراعظم کہتے ہیں وہ فرانزک آڈٹ کے بعد بات کریں گے لیکن کیا انہوں نے یہ سہولت اپنے گرفتار شدہ مخالفین کو بھی دی تھی؟
سادہ سا جواب ہے کہ بالکل نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کمزور قلعے میں شگاف پڑ چکے، کورونا وائرس والی مصیبت ناہوتی تو دلچسپ تماشے دیکھنے کو ملتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر