نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انکوائری رپورٹ، چند اہم پہلو۔۔ محمد عامر خاکوانی

یہی رویہ ان کے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت کا پنجاب میں رہا۔ وہ وزیرخزانہ ہیں، مگر اس معاملے پر اجلاسوں سے غیر حاضر رہے

سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے چینی، آٹا بحران کے لئے تفصیلی انکوائری کرانااور پھر اس رپورٹ کو میڈیا پر جاری کرنا مجھے اچھا لگا۔ یہ نئی ، خوشگوار روایت ہے ، اسے آگے بڑھنا چاہیے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ رپورٹ کے حوالے سے چند پہلوﺅں کی تفہیم اہم ہے۔

لوگوں کے ذہنوں میں چند سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ شوگر ملز کو سبسڈی کیوں دی گئی یا یہ سبسڈی لینا جرم تھا ؟پہلے اسے سمجھ لیا جائے۔
حکومتیں مختلف ایکسپورٹ سیکٹرز کو سبسڈی یا ریبیٹ (Rebate)دیتی ہیں تاکہ وہ مقامی پراڈکٹ یا مال باہر بیچ کر زرمبادلہ ملک میں لے آئیں۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات کسی چیز پر اٹھنے والی کاسٹ زیادہ ہوتی ہے جبکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں وہ سستی مل رہی ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر فرض کریں چینی کی فی کلو لاگت ساٹھ روپے ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں وہ پچاس روپے فی کلو کے حساب سے مل رہی ہے تو ایسے میں پاکستانی شوگر باہر کون خریدے گا؟ ایسی صورتحال میں حکومت شوگر ملز کو دس یا پندرہ روپے فی کلو سبسڈی دیتی ہے تاکہ وہ باہر پچاس روپے فی کلو میں چینی بیچیں ، ان کا خسارہ حکومت پورا کر دے گی ۔

سبسڈی دینے کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلا یہ کہ ملک کو ایکسپورٹ کے ذریعے کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ مقامی کسانوں اور کاشت کاروں کوان ڈائریکٹ فائدہ پہنچتا ہے۔ شوگر ملوں کے پاس چینی اضافی سٹاک پڑی ہو تو انہیں کیا پڑی ہے کہ ملیں چلائیں اور نیا گنا خریدیں۔ وہ گنا نہیں خریدیں گی تو گنا کاشت کرنے والے کسان تباہ ہوجائیں گے، ان کی پوری فصل کھڑے کھڑے برباد ہوجائے گی۔ یہ ہے سبسڈی کا گھن چکر۔ سابقہ حکومتیں سبسڈی دیتی رہی ہیں بلکہ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت یعنی بائیس سال پہلے یہ بڑا ایشو بنا تھا کہ بھارت کو چینی بیچی گئی اور خود میاں صاحب کی ملوں کو انکی اپنی حکومت نے اربوں روپے سبسڈی دی ۔یہ لیکن غیر قانونی یا غلط نہیں تھا، اس لئے سکینڈل تو بنا ،مگر عملاً بعد میں مشرف حکومت بھی کچھ نہ کر سکی۔اس میں گڑبڑ تب ہوتی ہے جب سبسڈی بلا ضرورت یا خواہ مخواہ زیادہ دی جائے۔

اب حالیہ کیس کی طرف آ جائیں جس کی انکوائری کرانا پڑی۔اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی یعنی ای سی سی کے پاس ایک رپورٹ آئی کہ ملک میں دس لاکھ ٹن چینی اضافی ہے ، اسے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ گنے کی نئی فصل تیار ہے ، شوگر ملوں کو اگر ایکسپورٹ کی اجازت نہ ملی تو وہ ملیں نہیں چلائیں گی، گنے کی کرشنگ نہیں ہوسکے گی اور کسان رُل جائے گا۔ اس پر بحث ہوئی، کمیٹی میں بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی، مگر اکثریت نے چینی ایکسپورٹ کی اجازت دے دی۔ یوں فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا۔کمیٹی نے البتہ شوگر ملز کو سبسڈی دینے سے انکار کر دیا۔

سیکرٹری تجارت اس کی وجہ بنے ، انہوں نے اعدادوشمار سے رپورٹ پیش کی ، جس میں بتایا گیا کہ چونکہ ڈالر بہت مہنگا ہوچکا ہے، اس لئے اب ایکسپورٹ کرنے والوں کو نقصان کا کوئی خدشہ نہیں، اس لئے سبسڈی نہ دی جائے۔ ڈالر والا معاملہ سمجھنا مشکل نہیں۔

جب سو روپے کا ایک ڈالر تھا تب ایک کروڑ ڈالر چینی ایکسپورٹ کرنے والوں کو ایک سو کروڑ آمدنی ہوتی اور جب روپیہ گرنے سے ڈیڑھ سو کا ایک ڈالر ہوگیا تو اسی ایکسپورٹر کو ایک کروڑ ڈالر ایکسپورٹ کر کے ڈیڈھ سو کروڑ روپے آمدنی ہوگی۔ کاسٹ تو چونکہ روپوں میں ہے، اس لئے ڈالر اونچا ہونے سے کاسٹ تونہیں بڑھے گی ، مگر آمدنی میں خاصا اضافہ ہوجائے گا۔ اس پوائنٹ سے ای سی سی اور پھر کابینہ نے بھی اتفاق کیا اورسبسڈی کے بغیر چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مل گئی۔ رزاق داﺅد پر الزام ہے کہ انہوں نے سبسڈی کے حق میں نوٹ لکھا ، اگرچہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا۔یہاں پر ایک اور عجیب وغریب کام یہ ہوا کہ وفاقی حکومت کے انکار کے بعد پنجاب حکومت نے سبسڈی دینے کی ہامی بھر لی کہ مسئلہ پنجاب کے کاشتکاروں کا ہے، اس لئے ہم شوگرایکسپورٹ کرنے والوں کو تین ارب کی سبسڈی دیں گے۔ اس فیصلے پر اب انگلی اٹھائی جا رہی ہے کہ جب وفاق نے انکار کر دیا تو پنجاب نے کیوں پیسے دئیے ؟

یہاں تک تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا، ایسا پہلے بھی ہوتا رہا، اس بار بھی کوئی مسئلہ نہیں بننا تھا۔ پریشانی تب پیدا ہوئی جب ایکسپورٹ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ چینی کا اتنااسٹاک ملک میں موجود نہیں جتنا دعوی کیا گیا تھا ۔ چینی شارٹ ہوگئی، بحران بڑھتا گیا۔ اندازہ ہے کہ جن لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کررکھی تھی، بیٹھے بٹھائے انہوں نے کروڑوں، اربوں روپے کما لئے ، حکومت کی بدنامی الگ ہوئی۔ اس پر انکوائری کرائی گئی، واجد ضیا کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، جنہوں نے تفصیل سے یہ رپورٹ پیش کی، جس نے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔
جہانگیر ترین اور مخدوم خسرو بختیار کے خاندان کی ملیں خاصی بڑی ہیں اوروہ کل پیداوار کا بڑا حصہ بناتے ہیں۔

ایکسپورٹ کرنے والوں میں وہ سرفہرست تھے ، اس لئے سبسڈی میں بھی انہیں بڑا حصہ ملا۔ خسرو بختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ اور پھر جہانگیر ترین کو ملا۔اسی وجہ سے ان پر تنقید بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ جہانگیر ترین کا براہ راست یا قانونی طور پر کردار شائد ثابت نہ ہو، مگر وزیراعظم نے زراعت سے متعلقہ تمام معاملات جہانگیر ترین پر چھوڑ رکھے تھے۔کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کو ترین صاحب کے کردار سے شدید مایوسی اور دھچکا پہنچا۔ کرپشن یا نالائقی دونوں میں سے کچھ نہ کچھ تو بہرحال ان سے سرزد ہوا۔ مخدوم خسرو بختیار کی ہوشیاری کہہ لیں یا ان کی معصومیت کہ براہ راست اس ایشو میں انوالو نہیں رہے۔ ای سی سی کے اجلاسوں میں وہ شامل نہیں ہوتے رہے کہ شوگرمل مالک کے طور پر ان کا بیٹھنا درست نہیں۔

یہی رویہ ان کے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت کا پنجاب میں رہا۔ وہ وزیرخزانہ ہیں، مگر اس معاملے پر اجلاسوں سے غیر حاضر رہے بلکہ تحریری طور پر انکی وزارت نے سبسڈی دینے کی مخالفت کی۔سبسڈی کی سب سے زیادہ حمایت پنجاب کی وزارت خوراک نے کی ،یہی وجہ ہے کہ صوبائی وزیر سمیع اللہ چودھری سے استعفا لیاگیا جبکہ سابق سیکرٹری فوڈ بھی او ایس ڈی بن چکے ہیں۔

اس معاملے میں دو تین باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ رپورٹ غلط تھی اور اس سے دھوکا دینا مقصود تھا ۔دوسرا یہ بھی چیک ہونا ہے کہ جتنا دعویٰ کیا گیا ، اتنی چینی ایکسپورٹ نہ کی گئی ہو،تیسرا یہ کہ چینی کا بحران مصنوعی طور پر پیدا ہوا یا اس سے مقصد ڈبل فائدہ لینا تھا۔ ای سی سی کے سربراہ اسد عمر تھے، جبکہ کابینہ کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں، ایک لحاظ سے ذمہ داری دونوں پر بھی عائد ہوتی ہے، مگر ان کے پاس یہ دلیل ہے کہ ہم نے تو متعلقہ محکموں کی رپورٹ کے مطابق فیصلہ کیا، اگر جعلسازی ہوئی تو وہ متعلقہ محکموں یا ان کے وزرا نے کی۔شوگر ایکسپورٹ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سبسڈی دینا غلط نہیں تھا کیونکہ خود رپورٹ میں مانا گیا کہ چینی کی کاسٹ زیادہ تھی اور پھر ایکسپورٹ کرنے سے قومی خزانے میں پچاس ارب کے لگ بھگ زرمبادلہ بھی آیا ۔فرانزک آڈٹ کی تفصیلی رپورٹ پچیس اپریل کو آئے گی، تب صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔

آخری بات یہ کہ رپورٹ لیک نہیں ہوئی بلکہ باقاعدہ طور پر میڈیا کو جاری کی گئی۔ یہ غلط فہمی وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کے ٹی وی پر بیان سے پیدا ہوئی۔ چن صاحب جیسے لوگوں کو اپنی معلومات درست رکھنی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ رپورٹ میڈیا کے لئے جاری ہوئی اور اسے رکوانے، دبانے کی قطعی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے بعض سینئر اخبارنویسوں کے ٹوئٹ حقیقت پر مبنی نہیں۔ سیاسی مخالفت اور تعصب میں حقائق مسخ نہیں کرنے چاہئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے بڑا بولڈ قدم اٹھایا ہے۔ ان کی پنجاب اور مرکز میں اکثریت بہت کم ہے، اتنے طاقتور لوگوں کے خلاف یوں کارروائی کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ جہانگیر ترین نے حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیاتھا، جنوبی پنجاب میں ان کا اچھا خاصا گروپ ہے۔عمران خان پر یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچائیں اورفرانزک آڈٹ کے بعد جو ذمہ دار ہوں، ان کے خلاف نیب ریفرنس بھیجے جائیں یا دیگرقانونی اقدامات کئے جائیں۔ خسرو بختیار کی وزار ت تبدیل ہونے سے بھی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا۔

یہ کون سی سزا ہے؟ رزاق داﺅد سے دو ذمہ داریاں لے کر ایک اہم ذمہ داری برقرار رکھنا بھی ناقابل فہم ہے۔ اگر ان کی بددیانتی یا نالائقی ثابت ہوئی ہے تودیگر معاملات میں بھی وہی رویہ ہوگا۔ خان صاحب یا تو اس معاملے کو نہ چھیڑتے، اگر شروع کیا ہے تو پھرمنطقی انجام تک لے جانا پڑے گا۔ انہوں نے اس معاملے میں سیاسی اوراخلاقی بنیادوں پر خاصا کچھ حاصل کیا ہے، مگرنمائشی اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔

About The Author