دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاک ڈاون کا پچھتاوا ۔۔۔گلزار احمد

آجکل ہمارے گھروں میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ہماری نانیاں اور دادیاں کرتی تھیں اور نئی نسل اسے آوٹ ڈیٹڈ قرار دے کے چھوڑ چکی تھی۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ زندگی میں کبھی اتنے روز گھر میں خود کو نظر بند کر کے بیٹھنا پڑا ہو ۔ باہر کی زندگی کی رونقیں اور خوبصورتی اب بار بار یاد آ رہی ہے۔

یہ تمام یادیں ایک فلم کی طرح میرے دل و دماغ کی سکرین پر چل رہی ہیں۔ اللہ نے جو امن اور آذادی دے رکھی تھی اس کا کماحقہ شکر ادا نہ کر سکے اب اس کی قیمت کا پتہ چلا۔ مجھے بچپن کا زمانہ قدم قدم پر یاد دلایا جا رہا ہے۔

آجکل ہمارے گھروں میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ہماری نانیاں اور دادیاں کرتی تھیں اور نئی نسل اسے آوٹ ڈیٹڈ قرار دے کے چھوڑ چکی تھی۔

آجکل جو ناک میں روزانہ سٹیم لی جا رہی ہے پرانے وقت ہماری ماں مٹی کا ایک بڑا ٹکڑا آگ میں رکھ دیتی اور سونے سے پہلے ایک تھال میں رکھ کر پانی ڈالتی اس طرح سٹیم شوں کر کے ہمارے ناک میں جاتی اور ناک کھل جاتا۔ نمک کے غرارے ۔ سوجے ہوےگلے کو نمک کی انگلی سے دبا کر ٹھیک کرنا عام تھا۔ آجکل بچوں کو باہر دکان پر جانے کی اجازت نہیں اس لیے تمام بیکری مصنوعات بسکٹ۔لیز۔ ٹافیاں۔چاکلیٹ بند ہیں۔ گھر میں مٹھڑیاں اور ٹِکڑے بنا کر بسکٹ کی جگہ استعمال ہو رہے ہیں ۔

پکوڑے سموسے پیزا۔کیک۔بسکٹ سب گھر میں تیار کیے جاتے ہے۔ بس یوں سمجھیں پرانا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ مجھے روزانہ صبح سویرے دریا ئے سندھ کے کنارے پر جا کر واک کرنا اور سورج کے طلوع کا منظر دیکھنا ۔دریا کی لہروں کے گیت سننا۔رنگ برنگی کشتیوں کی چہل پہل بہت یاد آتی ہے۔ جب صبح سورج دریا کے اُس پار اپنے روشن چہرے کے ساتھ طلوع ہوتا تو سنہری شعائیں ہمارے بدن پر انڈیل کر نہال کر دیتا۔

ان ست رنگی شعاٶں میں بسی دریا کے کنارے پھولوں کی خوشبو لپک کر ہماری پزیرائی کرتی۔ گیت گاتی دریا کی لہروں کا شور دل کو اپنوں سے ملنے کے زور پر مجبور کرتا ۔موسم بہار کے اس مہینے درختوں سے نئی شاخیں نکلتی ہیں ۔

رنگ برنگے پھول کِھل اٹھتے ہیں موتیا اور چمبیلی اپنا جوبن دکھاتی ہے رات کی رانی راستوں اور گھروں کو مہکا دیتی ہےاور یہ منظر ہم سال میں صرف ایک مرتبہ دیکھتے ہیں مگر اس سال چیت چلا جاے گا اور ہم گھروں میں بیٹھے بور ہوتے رہینگے۔ دریا پر ہنس ۔ککوے ۔ خمریاں۔ دلکش گیت گاتے ہونگے مگر ہم ان کی یاد میں آسمان کے ستارے گنتے رہینگے۔

اس دفعہ میلہ اسپان اور دوسرے تمام میلے منسوخ ہو گیے نہ کوئی اچھا گھوڑا۔اونٹ ۔بیل اور چپڑی دیکھی نہ رنگ برنگی مرغیاں ۔ میلے پر میدہ کے حلوہ پوڑی کی خوشبو ۔ قلفیاں۔ نان چھولے پھولوں کے ہار اور طرح طرح کی مٹھائیوں سے محروم رہ گیے۔

اب جب سوچنے بیٹھا تو پتہ چلا کہ کائینات کے یہ شاھکار کوئی خاموش پیغام دینا چاہتے تھے مگر ہم اپنی مستی میں مست رہے اور اس پیغام کو ڈیکوڈ نہ کر سکے۔آسمان میں طرح طرح کی اللہ کی نشانیاں ہم نہ پہچان سکے۔

آجکل لاک ڈاون کی وجہ سے آلودگی کم ہوئی تو چاند ایک نئی آب و تاب اور سونے ورگے رنگ کے ساتھ سامنے آیا۔ چھٹکتی دودھیا چاندنی ایک نیے روپ کے ساتھ گاٶں پر بکھری نظر آتی ہے ۔ رات کو بارش ہوئی تو چھت پر برسات میوزک بن کر بجنے لگی۔

بارش کی پہلی بوندوں پر کچی مٹی کی خوشبو مہکی تو عجب مدھوش کیفیت پیدا کر دی۔ بادل کے جانے کے بعد آسمان صاف ہوا تو کہکشاں اور ستارے ایسے لگے جیسے ہمارے قریب ترین ہو گیے ہوں اور کوئی خوشی کا سندیسہ دینا چاہتے ہوں ہم سے گلے ملنا چاہتے ہوں مگر ہم تو آجکل ہاتھ تک نہیں ملاتے ۔

ہماری ساری دنیا صحن اور کمرے تک محدود ہے۔ آج محسوس ہوا کہ میں جہازوں میں اڑتا رہا مگر فضاٶں کی بلندیوں کو چھو سکا نہ سمجھ سکا ۔ بادلوں کو چیرتا ۔پہاڑوں اور سمندروں کے اوپر پرواز کرتا رہا مگر میری شخصیت میں وہ بلندی اور وسعت پیدا نہ ہو سکی۔ جو آفاقی حُسن ان پہاڑوں ۔سمندروں ۔تیرتے بادلوں۔نیلگوں جھیلوں میں دیکھا وہ حُسن اپنے اندر نہ سمو سکا۔

اب تو درختوں کی ہری بھری شاخوں پر کمزور پرندوں کا آشیانہ اور بسیرا بھی میری قد سے بہت اوپر ہے۔میں وہاں بسیرا نہیں کر سکتا ۔ میں زندگی کے ایک سطحی مقام پر جیتا ہوں۔

میں مصنوعی دوستی۔جھوٹی دشمنی ۔لالچ و حوس ۔کینہ و حسد کی دنیا میں سانس لیتا ہوں۔ آج پوری انسانیت ایک وبا میں گھری ہوئی ہے آج خلق خدا کا امتحان ہے آج سب کو آزمایا جانا ہے آج غریب کے گھر کا چولھا ٹھنڈا ہے آج حکومت اور صاحب حیثیت لوگ امداد دے رہے ہیں کہ وہ مستحق لوگوں کو ملے ۔

آج ہم انسانی ہمدردی سے غفلت برتیں گے تو ہمارا مقام انسانیت سے نکل کا حیوانیت کے درجے پر چلا جاے گا آج اگر ہم نے غریب اور بے سھارا لوگوں کی انگلی پکڑ لی تو ہمارا مقام چاند اور ستاروں سے اوپر چلا جاے گا

ہمیں چاند اور ستاروں پر کمند ڈالنا ہے۔ ہمیں کرپشن اورخرد برد میں شامل ہو کر رات کی سیاہی نہیں سمیٹنی ۔آج ہمارا کردار ہمیں سورج بنانا چاہتا ہے وہ سورج جو ہر گھر کا دکھ جانتا ہے ۔ جو ہر پھل اور پھول کو روشنی اور حرارت دے کر اس کی نشونما کرتا ہے تاکہ انسان اس سے مستفید ہو ۔

آج وقت نے ہمیں ایک حیران کن دو راہے پر کھڑا کر دیا ہے ۔اللہ ہم سب کی مدد کرے اور بلندیاں عطا کرے آمین۔

About The Author