دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعزاز سید

سائنس اور کلیسا۔۔۔ اعزازسید

گلیلیو کے نظریے سے لیکر انسان کے چاند تک پہنچنے سمیت آج تک کے کم و بیش تمام بڑے سائنسی کرشمات کو جن لوگوں نے مسترد کیا ہے

یہ 1633 کا غیر معمولی واقعہ ہے۔ روم میں عیسائیوں کے سب سے بڑے مرکز ویٹیکن سٹی میں اٹلی کے ایک شہری کے خلاف کیس کی سماعت جاری تھی۔ اسے گرفتار کرکے یہاں لایا گیا تھا۔ یہ کوئی معمولی آدمی نہ تھا بلکہ اٹلی کا مایہ ناز سائنسدان و ریاضی دان تھا جو نہ صرف جدید فزکس کا بانی تھا بلکہ اس نے ٹیلی اسکوپ کی ایجاد کو ایسی جدت سے متعارف کروایا تھا کہ اب اس کی مدد سے آسمان پر نظامِ فلکیات کو انتہائی قریب سے دیکھنے میں مدد بھی مل رہی تھی۔

اس زیرحراست شخص کا نام گلیلیو تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ ویٹیکن سٹی کے اس عقیدے کے متصادم تھا کہ جس میں اس بات پریقین کیا جاتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ ویٹیکن سٹی یا کلیسا کا یہ عقیدہ بھی دراصل ارسطو کے قدیم نظریے کے عین مطابق تھا کہ جس کی روم کے کلیسا نے مذہبی توجیہات گھڑ رکھی تھیں۔ گلیلیو نے اپنی ایک تحریرمیں کلیسا اور ارسطو کے روایتی نظریے کی نفی کی تھی۔ اس نے اپنی ایجاد کردہ جدید ٹیلی اسکوپ کے فلکیاتی مشاہدوں اور ریاضی کے اصولوں کی روشنی میں دعویٰ کیا تھا کہ دراصل زمین سمیت دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں نہ کہ سورج زمین کے گرد۔

گلیلیو کے اس نظریے نے کلیسا کو اشتعال دلا دیا تھا اسی لیے اس کے خلاف مقدمے کی سماعت جاری تھی۔ سماعت کے دوران گلیلیو سے پوچھ گچھ ہوئی، ثبوت پیش ہوئے اور اسے کلیسا کی طرف سے عمر قید سنا دی گئی۔ گلیلیو کے لیے یہ سزا ایک بڑا دھچکا تھا اسی لیے اس نے سزا سے بچنے کی آخری سعی بھی کی۔ اس نے اپنے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے کلیسا سے معافی مانگ لی مگراب بہت دیر ہوچکی تھی۔ ایک روز بعد سزا میں اتنی نرمی برتی گئی کہ سائنسدان کو جیل میں بند کرنے کے بجائے گھر میں بند رکھنے کا حکم جاری ہوا۔ گلیلیو نے اپنے سائنسی نظریے کی پاداش میں اپنی باقی ماندہ زندگی اٹلی میں اپنے گھر، قید میں گزاری اور 8جنوری 1642ء کو 77کی عمر میں وفات پا گیا۔

ایسا نہیں کہ گلیلیو کی موت کے بعد یہ کہانی ختم ہوگئی۔ اس کی وفات کے بعد کئی مدو جذر آئے۔ سائنس نے ثابت کیا کہ گلیلیو سچا اور بےگناہ تھا جبکہ اس کو دی جانے والی سزا دراصل مذہبی طبقات کی ہٹ دھرمی تھی۔ اس کی موت کے 359سال بعد جس ویٹیکن سٹی یا کلیسا نے اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی اسی کو گلیلیو کے اسی نظریے کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔

اکتوبر 1992میں ویٹیکن سٹی کے پوپ‘ پوپ جان پال دوئم نے باضابطہ طور پر ایک تقریب میں تسلیم کیا کہ گلیلیو سچا تھا۔ پوپ کا گلیلیو کے نظریے کو تسلیم کرنا اپنے بڑوں کی ماضی میں گلیلیو کو سزا سنا کر کی گئی غلطی کا اعتراف تھا۔ انسان کو اپنی غلطی ماننے کے لیے جتنی طاقت اور دل و دماغ کی وسعت درکار ہوتی ہے، اپنے بڑوں کی غلطی ماننے کے لیے اس سے دگنی طاقت و وسعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوپ جان پال نے بہرحال وہ وسعت و طاقت دکھائی۔

آج سائنس بہت ترقی کر چکی ہے مگر مذہبی اجارہ دار بدستورموجود ہیں۔ یہ لوگ وبائوں کے پھیلنے کی سائنسی توضیحات اور ایجادات کے شروع دن سے مخالف ہیں۔

گلیلیو کے نظریے سے لیکر انسان کے چاند تک پہنچنے سمیت آج تک کے کم و بیش تمام بڑے سائنسی کرشمات کو جن لوگوں نے مسترد کیا ہے کم و بیش اکثریت کا تعلق اسی طبقے سے رہا ہے۔

کورونا بحران کے دوران مذہبی طبقات ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ ایک طرف سائنسدان لوگوں کو منع کر رہے ہیں کہ وہ باہمی میل جول سے گریز کریں تاکہ یہ وبا پھیل نہ سکے اور کم سے کم جانی نقصان ہو لیکن بعض مذہبی افراد کورونا سے نمٹنے کیلئے مذہبی اجتماعات منعقد کرکے اس وبا کو تیزی سے پھیلانے کے بھرپورمواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کا تعلق کسی ایک مذہب اور خطے سے نہیں ہے۔ سائنس کے مخالف ہر دور میں ہر مذہب اور ہر خطے میں موجود رہے ہیں۔

امریکی شہر فلوریڈا کی تازہ مثال لے لیجیے، وہاں روڈنی ہاورڈ برائون نامی مقامی پادری نے حکومتی ہدایات سے متصادم اتوار کے روز چرچ میں اپنی عبادت جاری رکھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ کورونا وائرس دراصل دعائوں سے ہی ختم ہوگا۔ مجبوراً امریکی حکام کو اسے گرفتار کرنا پڑا۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ایسے سر پھرے موجود ہیں۔ یہ افراد دلیل دیتے ہیں کہ آپ سودا سلف لینے پر پابندی تو عائد نہیں کر رہے، عبادت گاہوں پر اعتراض کر رہے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ جناب سودا سلف ضروریاتِ زندگی ہیں جو گھر سے نکلے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔ عبادت تو گھر میں بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے دلائل دیتے مذہبی پیشوا سائنسی اصولوں اور تدابیر کو مذہب کے ہتھیار کے ذریعے روکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت مذاہب کو مانتی ہے۔ مذاہب زندگی ہی نہیں زندگی کے بعد کی ممکنہ زندگی کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جبکہ سائنس صرف دستیاب اصولوں کی روشنی میں ٹھوس نتائج اخذ کرکے راہ متعین کرتی ہے۔ جہاں کوئی نتیجہ نہ نکلے وہاں کھوج کا عمل جاری رہتا ہے۔

آج کورونا کے علاج کے لیے سائنس کھوج جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر آج کے اس جدید دور میں عوام نے کورونا سے بچائو کے لیے سائنس کو مسترد کرتے مذہبی طبقات کا ساتھ دیا تو یقین مانیے وقت تو سائنس کی سچائی مان ہی لے گا چاہے اسے گلیلیو کے اصول کو ماننے کی طرح 359سال ہی کیوں نہ لگیں لیکن اس وقت تک کورونا کے ہاتھوں بہت سے بےگناہ لوگ لقمہ اجل ضرور بن جائیں گے۔

About The Author