کالاباغ و ماڑی انڈس
دریائے سندھ کے کنارے بسے دو تاریخی شہروں کی روداد
اگر آپ صوبہ پنجاب کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو شمال مغرب میں ایک چونچ سی نکلی دکھائی دے گی جو شمال اور مغرب میں خیبرپختونخواہ سے گھری ہوئی ہے۔
یہ ضلع میانوالی ہے جس کے شمالی کونے میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ایک مشہور قصبہ نما شہر واقع ہے جس کے نام پر پاکستانی سیاست میں آج بھی ہلچل مچ جاتی ہے۔
یہ کالا باغ ہے جو تحصیل عیسیٰ خیل کا حصہ ہے اور کالا باغ ڈیم کا مجوزہ مقام بھی ہے۔
اس شہر کے نام کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ وہ یہ کہ اس شہر کے بانی نواب آف کالاباغ نے یہاں وسیع و عریض رقبے پر آموں کے باغات لگوائے۔
یہ باغات اتنے گھنے تھے کہ اکثر دھوپ میں ان کے گہرے سبز پتے راہ چلتے لوگوں کو کالے محسوس ہوتے تھے۔
نظر کے اس دھوکے نے اس شہر کو کالے باغات کا شہر یعنی ”کالاباغ” کا نام دے دیا۔ جس کی وجہ سے یہاں کے نواب بھی نواب آف کالا باغ کے نام سے جانے گئے۔
اس نام کے متعلق ایک اور رائے بھی ہے۔ ترکی زبان میں کالا سےمراد "مال” اور باغ سے مراد ”منڈی” کے ہیں۔
کالاباغ کا یہ نام تجارتی اور گھریلو صنعت کے حوالے سے بہت حد تک درست بھی هے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ نواب آف کالا باغ کی ریاست سکھ دور سے پہلے آج کے بنوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بھکر اور میانوالی تک پھیلی ہوئی تھی۔ جبکہ آج کا کالاباغ شہر نواب کے قلعے کے اردگرد تک پھیلا ہوا ہے۔
قلعہ نواب صاحب کے نام سے پکارا جانے والا یہ قلعہ آج بھی نوابوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
قومی اور عالمی سطح پر اس شہر کے دو تعارف ہیں ایک نواب آف کالاباغ جو مغربی پاکستان کے سابقہ گورنر تھے جبکہ دوسرا بدنصیب کالاباغ ڈیم جو آج تک تعمیر نہ ہو سکا ۔
لیکن میری نظر میں یہ شہر ان چیزوں سے بڑھ کہ ہے۔ ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں آپ کو بہت کچھ ملے گا ۔
ایک سیاح کے لیئے یہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ یہاں واقع سلسلہ کوہ نمک اور سرخ پہاڑیوں کا حسن اپنی مثال آپ ہے
اوپر سے پہاڑوں کے درمیان سے دریائے سندھ کے بہاؤ کا قدرتی نظارہ بھی قابل دید ہے۔ آئیئے اس چھوٹے سے شہر میں پھیلے عجائبات کا جائزہ لیتے ہیں۔
*کالاباغ ریلوے برج؛
جب خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع ٹانک اور بنوں کو ریلوے لائن کے ذریعے پنجاب اور دیگر علاقوں سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا
تو کالاباغ کے مقام پر ایک پُل کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر سے ریل گزاری جا سکے۔
نارتھ ویسٹ ریلوے کے افسر ڈبلیو-ڈی کروکشینک کی 1929 میں مرتب شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ؛
اس پُل کے لیئے 1888 سے سروے شروع کر دیئے گئے۔ جبکہ 1919 سے 1924 تک تمام انتظامات مکمل کر لیئے گئے۔
آخر کار 1927 میں اس منصوبے کی منظوری دے کر کام شروع کر دیا گیا۔ یہ پل صرف ریل کے گزرنے کے لیئے ڈیزائن کیا گیا تھا
جس پر پیدل چلنے والوں کے لیئے کوئی انتظام نہ تھا۔ اِس نے سندھ کے مشرق میں چوڑے گیج کی لائن کومغرب میں واقع 2 فٹ 6 انچ کی تنگ لائن سے منسلک کرنا تھا۔
پل کا بنیادی مقصد ریل کو لاہور سے آگے بنوں اور کوہاٹ سے لے کر وزیرستان تک پہنچانا تھا تاکہ برطانوی افواج کو رسد مہیا کی جا سکے۔
مگر ہماری بدقسمتی کہ 1990 میں ریل کے نظام پر اسی پل کے مقام پر ”پُل اسٹاپ” لگا دیا گیا یعنی ماڑی سٹیشن جو عین اس پل کے مشرقی حصے پر واقع ہے وہاں تک ریل کا سفر محدود ہوگیا۔
اس پل کو ٹھیک اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے دریائے سندھ پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔
1929 کے سیلاب کے بعد پل کا ڈیزائن بدلا گیا اور اسے ماڑی انڈس کی طرف سے خشکی پر اور لمبا کر دیا گیا۔
ماڑی اور کالاباغ کو ملانے والا یہ پل ایوب خان کے دور تک پختونخواہ اور پنجاب کی سرحد پر تھا مگر بعد میں بنوں کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کو میانوالی کے ساتھ ملا دیا گیا اور یہ صوبہ پنجاب کی جھولی میں آ گیا۔
جو ٹریک ماڑی سے بنوں تک بچھایا گیا تھا اس کی چوڑاٸی صرف اڑھاٸی فٹ تھی اور اس پل کی تعمیر بھی ٹریک کے مطابق ھی کی گٸ تھی۔
1995 تک یہاں سے مسافر ٹرین بنوں تک جاتی رھی جسے بعد ازاں مستقل طور پر بند کر دیا گیا اور یہ پل حکام کی عدم توجّہ سےخستہ حالی کا شکار ھو گیا
اس کی تعمیر میں استعمال کیئے گئے دیار کی لکڑی کے پھٹے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کٸی قیمتی جانیں ضاٸع بھی ہوئیں۔
تقریباً ایک صدی پرانا یہ پل آج پاکستان کا سب سے قدیم پل مانا جاتا ہے۔ جس پر کھڑے ہو کر آپ بیک وقت کالاباغ، بوہڑ بنگلہ، ماڑی انڈس اور جناح بیراج کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یقیناً یہ پل کسی شاہکار سے کم نہیں۔
جاری ہے.
تحریر و تحقیق ؛ محمد عظیم شاہ بُخاری
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان