عدم برداشت میں اپنی مثال آپ پاکستانی سماج کا بنیادی المیہ علم سے دوری ہے،
ہمارے چار اور ہر شخص کا خیال ہے کہ روایتی قدیم وجدید تعلیم ہی درحقیقت علم ہے جبکہ یہ روایتی تعلیم علم کے دروازے تک پہنچانے کا ذریعہ ہے فقط ۔
پھر خواندہ شخص کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ علم کیلئے کونسا شعبہ منتخب کرتا ہے۔ ایک نہیں سینکڑوں شعبے ہیں مثلاً آپ فقط پیش نمازی (امام نماز) کا کورس کئے ہوئے شخص سے دینی معاملات میں راہنمائی اور درپیش مسئلہ پر فتویٰ نہیں لے سکتے، ڈسپنسر سے کینسر کا علاج نہیں کروا سکتے۔
بس یہی سمجھنے والی بات ہے۔ فتویٰ وہ شخصیت دے گی جسے دینی علوم پر کامل دسترس ہو اور اس کے پاس فتویٰ دینے کی اتھارٹی بھی، ڈسپنسر نے نہیں بلکہ اس ماہر معالج نے کینسر کا علاج بتانا ہے جس نے ابتدائی طبی تعلیم کے بعد خصوصی طور پر منتخب شعبہ میں تحصیل علم کیا ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ہمہ قسم کے عطائیوں کی بھرمار ہے، اس عطائی پنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے،
عطائیت تضادات بڑھاتی ہے، اپنے دعویٰء کل جان لینے کا بھرم رکھنے کیلئے ایک کے بعد دوسرا جھوٹ اور عطائیوں پر یقین رکھنے والوں کی اندھی عقیدت سب نے مل ملا کر ہماری جو درگت بنائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض عطائیوں نے اپنی دکانوں کے باہر کچھ ماہرین کے ناموں والے بورڈ بھی لگا رکھے ہوتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں یہ فرنچائز بھی دو وجوہات سے ہوتی ہیں، اولاً کمائی کیلئے ثانیاً سستی شہرت، لیکن ان دونوں کی وجہ سے جس بربادی کا ہمیں سامنا ہے کاش کبھی اس کا احساس اور اندازہ بھی کر لیا جائے۔
کورونا وائرس کے پھوٹنے کے بعد بھی یہی صورتحال ہے، عطائیوں کے نسخہ جات کی بھرمار ہے، ہر شخص اپنا سودا بیچنے کی فکر میں ہے، اس سودے کے فرنچائزیوں سے اللہ ہی محفوظ فرمائے۔
دوسرے شعبوں کی طرح سیاست میں بھی عدم برداشت کا دوردورہ ہے، بدترین حالات کے باوجود ہمارے وزیراعظم حزب اختلاف کیساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، چند دن قبل ایسا موقع آیا بھی تو آپ اپنی تقریر کر کے چلے گئے، ان کے رفقاء لاکھ وضاحتیں کریں مگر جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا۔
ایک صاحب کچھ عرصہ قبل پنجاب حکومت کے ترجمان ہوتے تھے، کرپشن اور اختیارات سے تجاوز پر نکالے گئے، ان دنوں بغیر کسی تقرری واحکام کے وفاقی حکومت کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں۔
ایک لابی انہیں پروموٹ کرنے میں مصروف ہے، کیا وزیراعظم اس سے لاعلم ہیں؟
نہیں تو پھر انہیں نوٹس لینا ہوگا کہ کیسے ایک شخص کو وفاقی حکومت کے ترجمان کے طور پر پروموٹ کیا جارہا ہے۔
ان صاحب کی حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حزب اختلاف کی خواتین رہنماؤں کیخلاف ٹرینڈ چلوا رہے ہیں، یہ بھی عطائیت کی ہی ایک شکل ہے۔
موصوف تحریک انصاف کے اقتدار کیساتھ ہی امریکہ سے نازل ہوئے اور پنجاب میں چھا گئے، یہاں تک کہ ایک وقت انہوں نے حکم جاری کیا کہ وزیراعلیٰ کی طرف جانے والی ہر فائل و درخواست ان کی میز سے ہو کر جائے گی۔
اس حکم سے مسائل پیدا ہوئے، وزیراعلیٰ نے ان کی برطرفی کا حکم دیدیا وہ تو بھلا ہو مرحوم نعیم الحق کا جنہوں نے وزیراعلیٰ کے سیکرٹری سے درخواست کی آپ برطرفی کا حکم نامہ 24گھنٹے کیلئے روک کر رکھیں، یہ مستعفی ہو جاتے ہیں۔
مستعفی ہوئے اور وزیراعظم ہاؤس میں نعیم الحق کے کمرے میں ڈیرے ڈال لئے، ان کی وفات کے بعد اب خود کو نعیم الحق مرحوم کا متبادل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
پچھلے مہینہ بھر سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور عوام کورونا سے لڑ رہے ہیں اور یہ حزب اختلاف سے، سوشل میڈیا پر ان کے لشکر کا ایک حصہ چند صحافیوں کو گالیاں دینے میں مصروف ہے تو ایک حصہ حزب اختلاف کی خاتون رہنماؤں کی کردارکشی میں جُتا ہوا ہے۔
ایسے وقت میں جب ملکی سطح پر یکجہتی کی ضرورت ہے کچھ عطائی اپنی زبان وبیان سے ماحول کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ کسی بھی طور درست نہیں۔
تحریک انصاف میں سنجیدہ رہنماؤں کی بھی کمی نہیں، اسد قیصر ہیں، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، شفقت محمود اور دیگر بھی، انہیں آگے بڑھ کر ان عطائیوں کا سدباب کرنا ہوگا۔
حکومت پر تنقید کرنے والے چند صحافیوں کیخلاف منظم مہم کی نگرانی وفاقی حکومت کے یہ خودساختہ ترجمان کر رہے ہیں۔
اس سے حکومت اور میڈیا میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
میڈیا حکومت کا دشمن تھا نا ہے، تعریف اور تنقید کرنے والے ہمیشہ ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کی مقبولیت اور خود عمران خان کو مسیحا بنا کر پیش کرنے میں اسی میڈیا کا کردار ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے پندرہ بیس دنوں سے جن صحافیوں کیخلاف عطائی پروگرام جاری ہے ان میں ایک کے سوا باقی تمام روزاول سے تحریک انصاف اور عمران خان کے پرجوش حامی تھے، دوریاں کیوں پیدا ہوئیں یہ طرفین کا باہمی معاملہ ہے، ہم تو فقط یہ عرض کریں گے کہ اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے گسٹاپو اور ساواک والا رویہ نااپنایا جائے مگر یہ اس صورت ممکن ہے جب پی ٹی آئی کے سنجیدہ رہنما عطائیت کو فروغ دینے والوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پچھلے چند کالموں میں کورونا وائرس سے ملک میں بننے والے حالات کے حوالے سے جو معروضات پیش کی تھیں ان کیساتھ اعداد وشمار بھی لکھ دیئے تھے، یہ اعداد وشمار وہی تھے جن کی خودصوبائی حکومتیں تصدیق کرتی ہیں۔
اخبار نویس کی ذاتی پسند وناپسند ذاتی زندگی کا معاملہ ہوتا ہے، کالم یا خبر وتجزیہ دستیاب معلومات اور اعداد وشمار سے عبارت ہوتے ہیں،
یہ اعداد وشمار اگر درست نہیں تو اس کی ذمہ داری متعلقہ اداروں اور حکومتوں پر ہے، مگر بدقسمتی سے اعتراض کرنے یا تعصب کا طعنہ دینے والے بھی سستی عطائیت کا شکار ہیں۔
وبا کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات کو یکسر نظرانداز کر کے محبوبان خدا کا تقدس اوڑھ لینا درست نہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات سات طاقوں میں چھپا کر ہرگز نہیں رکھی گئیں سب کے سامنے ہیں۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کا پھیلاؤ عطائیت اور زعم سے ہی ہوا، اگر اولین مرحلہ میں ہی حکومت اور طبی ماہرین کے مشورے مان لئے جاتے تو صورتحال بگڑنے نا پاتی۔
اس لئے عرض ہے کہ دشنام طرازی کی بجائے حقیقت حال کا سامنا کرنے کا حوصلہ کیجئے، اخبار نویس کو کوسنے کی بجائے ان عطائیوں کا علاج کیجئے جنہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب