حاکمیت کیا ہے اور ملوکیت کسے کہتے ہیں اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ قیادت کے معنی کیا ہیں، یا رہنما کون ہوتا ہے ،،، یہ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں سایسی قائدین کی اکثریت رائے عامہ کے ساتھ ہی چلنا چاہی ہے، بعض اوقات رائے عامہ کا خیال بھی کرنا پڑتا ہے،،، مگر اکثر، حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر رائے عامہ غلط ہے تواسے درست بات سمجھائی جائے، اسے قائل کیا جائے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا،،، اور قیادت کا مطلب یہ بھی ہے کہ برے سے برے حالات میں سامنے آکر کر معملات کو کنٹرول کیا جائے،،،
تاریخ ایسی مثالون سے بھری پڑی ہے، نپولین بونا پارٹ نے اکیلے پوری فوج کا رخ موڑا ،،، قائد اعظم کی مثال لیجئے،،، اس وقت کی مذہبی قیادت، گانگریس کے حامی اور بہت سے لیفٹ کے لوگ پاکستان بننے کے مخالف تھے،،، رائے عامہ بھی منقسم تھی، ممیڈیا بھی آج کی طرح موثر اور مضبوط نہیں تھا،،، مگر محمد علی جناح نے عوام کو اردو سے نالبد ہونےکے بوجود اپنے موقف پر قائل کیا،،، اور پاکستان بنا کر ہی دم لیا ،،
ذوالفقار علی بھٹو بھی غیرمعمولی حالات میں سامنے آئے،،، ور رائے عامہ کے برخلاف بہت سے فٰیصلے لےکر عوام کو ان پر قائل کیا،،، آصف علی زرداری کی مثال توحال ہی ہے،،، مشکل حالات میں رائے عامہ کے پیچھے نہیں چلے،،،
کرونا بحران جیسے حالات کوئی پہلی بار پیدا نہیں ہوئے،،، معاصر تاریخ میں وینزویلا سے سوڈان تک بہت سی مثالیں ہیں جب سیاسی یا معاشی حالات کے باعث معاشرتی انتشار پھیلا ،، اور ناں ہی یہ حالات سرف پاکستان میں پیدا ہوئے ،،، دنیا کے 199 سے زاید ممالک اس وبا سے متاثر ہیں،،، مگر امریکہ سے پاکسان تک کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں حکمران اس طرح کی قیادت فراہم نہیں کر رہے جیسی کہ ضرورت ہے،،، برطانوی وزیر اعظم، امریکی صدر ابردا میں ناکام رہے، مگر اب وہ حالات سنبھال رہے ہیں،،، کوشش کر رہے ہیں،،، اور کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں،،، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں عوام نے جنہیں اپنی قیادت کے لئے چنا وہ ایسے وقت میں قیادت فراہم کرتے نظر نہیں آرہے ،،،
مگر ایسا کیوں ممکن نہیں ہورہا اس سے پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ملوکیت کسے کہتے ہیں،،، ملوکیت ا س کیفیت کا نام ہے جب معاشرہ بگاڑ کی آخری حد کو چھولے،، ریاستی مشینری بے بس دکھائی دے،،، لوٹ مار کا بازار گرم ہو،، شہریوں کو کسی دوسرے کی پروا ناں ہو،،، اور میری رائے میں ہم تیزی سے اس جانب بڑح رہے ہیں،،، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ،،، بے ایمانی، ذخیروہ اندوزی،،، گراں فروشی،،، جھوٹ،، فریب، مکاری،،، منافع خوری،،، کون سی ایسی علت ہے جو ہم میں نہیں،،، اب تازہ حالات ہی دیکھ لیں،،، ایک جانب ہزاروں خاندان ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے لئے ایک وقت کی روٹی کو تڑپ رہے ہیں،،، تو دوسری جانب بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کا حق مارتے ہیں، کسی بھی سماجی تنظیم کی جانب سے راشن کی تقسیم کے موقع پر حملہ آور ہوکر راشن حاصل کرتے اور دوکانوں پر بیچ دیتے ہیں،،
آج ہی ایک خاتوں نے رو رو کر آپ بیتی سنائی،،، کہتی ہیں وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنا حصہ ڈالنا چاہتی تھیں،، بہت سی رقم لے کرنکلیں، ایک جگہ مزدوری کی تلاش میں بیٹھے چند مزدور دکھائی دئے، وہ انہیں رقم دینے لے لئے رکیں کہ ہجوم حملہ آور ہوگیا،،، اور ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں،، اور چاہے سیلاب ہو یا کوئی اور آفت ہر موقع پر ایسا ضرور ہوتا ہے ،،، معاشرہ میں جب یہ برائیاں جڑ پکڑ لیں تو پھر اس معاشرہ کو ملوکیت یا طوائف الملوکی کی جانب بڑھنے سے صرف بہتر قیادت اور مضبوط حکمرانی سے ہی روکا جاسکتا ہے
اورہماری حالت یہ ہے کہ وفاق کی سطح پرموجود حکمرانوں نے قیادت فراہم کرنی ہے،،، وہ اس کے دعویدار بھی ہیں،، مگر عملی طور پر ایسا نہیں کرپا رہے، وزیر اعظم تقریباً ہر روز ٹی وی پر ایک خطب کے لئے آتے ہیں،،، لاک ڈاون ناں کرنے کا اعلان کرتے ہیں،، مگر لاک ڈٓون تو ہوچکا،،، وہ اپنے ماتحتوں یا اپنی جماعت کی صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی بات پر قائل نہیں کر پا رہے،،، کہتے ہیں کہ لاک ڈاون کیا تو دیہاڑی دار بیروزگار ہوجائیں گے،،، کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا ،،، بھائی دیہاڑی دار تو پہلے ہی بیروزگار ہیں، کاروبار حیات اور ریاست ٹھپ ہے ،،، حکمران کا کام بہترلیڈر شپ کے ساتھ گورننس اور مضبوط حکمرانی فراہم کرنا ہے،،، مگر کیا ایسا ہورہا ہے،،،
نہیں بالکل نہیں،،، بلکہ روز تقریر یا من پسند اینکرز کو بلا کر جو گفتگو کی جاتی ہے اس سے سب اچھا ہے کا تاثر ملتا ہے ،،، جبکہ اب تک کرونا اورس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ابترسماجی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام اور حالات کے مقابلہ کے لئے ناں تو یکسوئی دکھتی ہے، اور ناں ہی تیاری یا کوئی نیشنل ایکشن پلان ،،، قائد حزب اختلاف شہباز شریف الگ سے دوکان چلا رہے ہیں،،، سندھ حکومت کے کام کی تعریفیں ہر رہی ہیں ،،، مگر مرکزی کے حکومتی اکابرین کی تقریریں،،، اور بیانات اس کی کوششوں پر پانی پھیرتے دکھائی دیتے ہیں،،، اب بھی وقت ہے،،، بھول جائیں کہ کون پیپلز پارٹی ہے، اور کون پی ٹی آئی، یا ن لیگ،،، بس اپنی ذمہ داری یاد رکھیں،، بہتر قیادت فراہم کرنے کا یہی وقت ہے،،، اوریہ ذمہ داری اکیلے عمران ہی نہیں باقی سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ جمہوریت اجتماعیت اور اجتماعی قیادت کا نام ہے!
آخری چند گزارشات مذہبی خاص طور پر تبلیغی جماعت کی قیادت کے لئے،،، کہ یہی وقت ہے اسلام کی اصل روح سے عوام کو روشناس کرانے کا،،، مشکل کی گھڑی میں سماجی دوری اختیار کریں،،، ضد ناں کریں،،، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے،،، اور ضد پر اڑ کر کرونا زیادہ تر إذہبی زائرین سے ہی پھیل رہا ہے،،،، یہ قتل عمد ہے،،، عوام کے لئے اور مذہب کی سر بلندی کے لئے اپنا کردار ادا کرین،،، ضد اور بے جا ہٹ دھرمی دین اسلام کا طریق نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر